مولانا سعد صاحب سے علمائے حق کے اختلاف کی نوعیت
*ایک نہایت اہم تحریر*
بہت یکسوئی سے پڑھیں۔
مفتی مسعود قاسمی دھولیہ
یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ علمائے حق اور دارالعلوم دیوبند کو مولانا سعد صاحب سے اختلاف کی وجہ صرف حضرت موسی الصلاۃ وسلام کے واقعے کے بیان کرنے میں توہین انبیاء کا پہلو نہیں۔یہ تو ایک جزوی چیز ہے۔
بلکہ مولانا سعد صاحب سے اختلاف بنیادی اور اصولی نوعیت کاہے۔
*اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟*
دراصل دارالعلوم کو مولانا کی باتوں سے " مترشح ہونے والے فکری انحراف " سے اختلاف اور بے اطمینانی ہے ، یہ فکری انحراف ابھی درجہ تحقق میں یا مولانا سعد کی عبارت النص سے اگرچہ متضح نہیں ہوا ہے، لیکن علماء کو آئندہ اس کا شدید خطرہ ہے جس کا اظہار دارالعلوم نے اپنے فتوے میں کردیا ہے ۔
یہی فکری انحراف مولانا سعد صاحب کی زبان وبیان سے صادر ہونے والی غلطیوں کا سر چشمہ ہے۔ اور جب تک فکری غلطی کی اصلاح (تربیت) ہو کر مولانا سعد کی فکر اہل سنت والجماعت والے اعتدال پر نہ آ جائے جب تک تعبیر کی غلطیاں اور رجوع پر رجوع اور ٹھوکر پر ٹھوکر لگتی رہے گی ۔
یہی فکری انحراف مولانا سعد صاحب کی زبان وبیان سے صادر ہونے والی غلطیوں کا سر چشمہ ہے۔ اور جب تک فکری غلطی کی اصلاح (تربیت) ہو کر مولانا سعد کی فکر اہل سنت والجماعت والے اعتدال پر نہ آ جائے جب تک تعبیر کی غلطیاں اور رجوع پر رجوع اور ٹھوکر پر ٹھوکر لگتی رہے گی ۔
*اس فکری انحراف کو کیسے پہچانیں ؟*
اس ' فکری انحراف' کا ادراک آپ کو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ماضی کی ان شخصیات کی غلطیوں کی نوعیت سامنے نہ ہو جو اپنے 'انحراف فکر' کی وجہ سے علماء حق کے فتووں کی گرفت میں آئیں۔ اور علماۓ حق نے ان کا تعاقب اور تردید کرکے امت کو اور اللّٰہ کے دین کو ان سے پھیلنے والی گمراہیوں سے بچایا۔
*مولانا مودودی صاحب کی شخصیت*
مثلاً علماء حق کے نزدیک ایک زمانے تک مؤقر و معتمد رہ چکی ایک شخصیت مولانا مودودی صاحب ہیں جن کے اشہب قلم کی روانی اور فکروں کی گہرائی اور گیرائی اور مقاصد شریعت پر آپ کی وسعت نظر کے علمائے حق ایک زمانے تک قائل اور معترف رہے ہیں۔ اور ان کی ابتدائی تصنیفیں "پردہ" وغیرہ بھی اس کی شاہدہیں۔
مگر جب ان کے قلم سے ان کی تحریروں میں دین کی ایسی تشریح وتبیین یکےبعددیگرے سامنے آنے لگیں جو متوارث و منقول تشریحات سے ہٹی ہوئی تھیں تو علماء کے کان کھڑے ہو گئے ٬ اور ان غلطیوں کا تجزیہ کرکے مودودی صاحب کی فکری غلطیوں کو الم نشرح کردیا ۔
اسی طرح اس وقت مولانا سعد کے بیانات میں بھری ہوئی ایک دو نہیں سیکڑوں غلطیوں کا تجزیہ کر کے امت کے سامنے اجاگر کرنا ضروری ہے ۔
علمائے دیوبند نے قبل از صدور فتویٰ جولائی سے لے کر دسمبر تک کے مولانا سعد صاحب کے بیانات پورے پورے سن کر دنگ رہ گئے کہ موصوف نے ایک دو نہیں 240(دوسوچالیس) غلطیاں کی ہیں ۔
*مولانا مودودی صاحب کی غلطی کی نوعیت کیا تھی؟*
مودودی صاحب نے علمائے اہلسنت کی روش سے ہٹ کر بے پناہ غلطیاں کی ہیں، مگر ان کی غلطیوں کا سرچشمہ ان کی فکروں کا بگاڑ( انحراف ) تھا، وہ سرچشمہ یہ تھا کہ مودودی صاحب یہ سمجھ بیٹھے کہ دین میں ا صل "خلافت " اور "حکومت الہیہ کا قیام " ہے۔ حالانکہ حکومت الہیہ اور اسلامی حکومت کا قیام یقینا اک محمود و مرغوب مطلوب ہے، اور اقامت دین کا ایک مضبوط ہتھیار۔ مگر اس درجے کا مطلوب بھی نہیں کہ سارے دین کے لیے "مقاصد" و "مقصود بالذات " کا درجہ رکھتا ہو۔
بس یہی فکری غلطی ہے مولانا مودودی صاحب کی کہ انہوں نے ایک غیر مقصودبالذات مطلوب کو شریعت کے مقاصدِ اصلیہ کا درجہ دیدیا۔
اسی فکری گمراہی پر وہ سارے غلط نتائج اور انکے گمراہ نظریات متفرع ہوئے۔ کہ انہوں نے اللہ کے وہ سارے اوامرو عبادات جو مقصودبالذات (عبادات مقصودہ) تھے نماز روزہ حج زکوۃ وغیرہ وغیرہ ان سب کو اس مقصد کے (خلافت الٰہیہ ) کے حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ قراردیدیا ۔
" گویا غیر مقاصد (حکومت الہیہ) کو مقاصد کا درجہ دیدیا۔"
حالانکہ قرآن کریم کے مطابق حکومت وخلافت ، یہ مقصود نہیں ، موعود ہے ، اور مقصود اللّٰہ کے اوامر کی تعمیل (ایمان و عمل صالح) ہے۔
*وعد الله الذين امنوا وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم*
یہ سرچشمہ اور فکر کی زبردست گمراہی اور کجی تھی جو مولانا کی گمراہیوں کا ماخذ و مصدر تھی، ظاہر بات ہے کہ سرچشمے ہی میں گند پیدا ہو جائے تو اس سے صاف پانی کیسے نکل سکتا ھے ؟
مولانا مودودی کے نظریات ان کی تحریروں کے آئینے میں اور مولانا سعد صاحب کے نظریات ان کے بیانات کے عکس میں آئندہ ملاحظہ فرمائیں انشاءللہ۔۔۔۔۔۔۔!
ایک نہایت اہم تحریر (1)
ایک نہایت اہم تحریر (2)
ایک نہایت اہم تحریر (3)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں