ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

13/5/19

مولوی سعد کاندھلوی کے غلط عقائد ونظریات پر مشتمل 2018 کے 60 بیانات

مولانا سعد کاندھلوی کی فکر کا خلاصہ


آنے والے اقتباسات کی روشنی میں مولانا کی فکر کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ذہن میں دعوت،نصرت،سیرت،اطاعت،اور ہجرت کا ایک غلط اور باطل مفہوم بیٹھ چکا ہے، وہ قرآن وحدیث اور واقعات صحابہؓ سے بے بنیاد اجتہادات کر کے اپنے خود ساختہ مفاہیم پر انطباق کر رہے ہیں۔ وہ سیرت صحابہؓ کے عنوان سے دین کی ایسی تشریح کرنے میں لگ چکے ہیں جس کا اکابر دیوبند اور اہل حق علماء دین کے مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ طریقہ دعوت کے مسنون و منصوص ہونے پر ان کا اصرار ہے۔ وہ دین کی نصرت کو خود چل کر دعوت دینے کی خاص شکل میں منحصر سمجھتے ہیں۔ دین کی تبلیغ و اشاعت کی دوسری شکلیں ان کے نزدیک خلاف سنت ہے، جن سے دعوت کی ذمے داری ادا نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے دعوت کی مخصوص طریقہ کار کو مقصود کا درجہ دے کر تبلیغی جماعت کے مقاصد کو ہی بدل دیا ہے۔ ان کے نزدیک عوام کا جماعتوں میں نکلنا دین سیکھنے کے لئے نہیں؛ بلکہ نکلنا ہی مقصود اصلی اور اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا امر ہے جو نکلے بغیر پورا نہیں ہوگا۔ ساری گفتگو خاص طریقہ کار کو منصوص و مسنون ثابت کر کے دوسرے طریقوں کی تردید و انکار کی نذر ہوگئی ہے۔ اس کے علاؤہ وہ قرآن و حدیث کی ایسی تشریح کر رہے ہیں جو جمہور علماء خصوصاً ہمارے اکابرین رحمہمُ اللہ سے ثابت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں صالحین صوفی تھے دین کے مددگار نہیں تھے، محنت والے نہیں تھے۔ نفر اللّٰہ کا مستقل امر ہے۔ اگر یوں بھی کہدیا کہ آج نہیں کل جماعت میں نکل جاؤں گا تو حضرت کعبؓ بن مالک جیسا معاملہ ہو گا۔ ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم سے مسلمانوں پر مال خرچ کرنا یا اغیار کے خلاف قوت جمع کرنا مراد نہیں ہے۔ اس نصرت کا مطلب یہ ہے کہ تم اللّٰہ کے بندوں کو اللّٰہ کے دین کی طرف دعوت دو، اس لیے کہ مسلمانوں پر مال خرچ کرنا اسلام کی نصرت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی نصرت ہے۔ دعوت صرف چل کر دین کی بات پہنچانے کا نام ہے۔ دعوت ہی صرف دین کی نصرت ہے۔ مالی امداد اسلام کی نصرت نہیں ہے۔ اگر فتنوں اور حالات کی وجہ سے خروج میں کمی کی گئی تو، یہ منافقین کے علاؤہ کوئی نہیں کرے گا۔ مرکزی مقام کو چھوڑ کر واپس چلے جانا ارتداد ہے۔ مشورہ چھوڑ کر جانا تولیٰ یوم الزحف (میدان چھوڑ کر بھاگنے) سے زیادہ سخت ہے۔ دعوت کو سیرت صحابہؓ سے براہ راست سمجھنا چاہیے۔ ماضی یا حال کی شخصیات سے استفادہ یا ان کا تذکرہ بلند سطح سے نیچے اترنا ہے۔ اللّٰہ کے احکام فطری تقاضوں کے خلاف ہے۔ جس طرح نماز کا ایک متعین و منصوص طریقہ ہے، آسی طرح دعوت دینے کا بھی متعین و منصوص طریقہ ہے، جو قیامت تک نہیں بدلے گا۔ جو زمہ داری مردوں کی ہے وہی زمہ داری عورتوں کی بھی ہے۔ دعوت کے کام کے اعتبار سے مرد اور عورت کی زمہ داری میں بال کے برابر بھی فرق نہیں ہے۔ گھر میں مستورات کے کئے جانے والے اعمال (مشورہ، تعلیم، اور قرآن کریم کا اجتماعی حلقہ) وہ براہ راست صحابہ کے زمانے کے اعمال ہے۔ قرآن نے اس کو منصوص کہا ہے۔ اگر اس بات کا دل میں شبہ بھی پیدا ہوجائے کہ ان اعمال سے کیا ہوگا، تو براہ راست قرآن کی آیات کا انکار کرنا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاؤہ دیگر انبیاء علیہم السلام تبقاتی محنت کرنے والے تھے۔ ان کی قربانیاں اضطراری تھی۔ نماز مسجد کا ضمنی عمل تھا، اصل مسجد میں ایمان و علم کے حلقے تھے۔ وغیرہ وغیرہ
ظاہر ہے یہ افکار جمہور سے ہٹے ہوئے ہیں۔
مولانا کی حیثیت ان کے متبعین میں مقتدیانہ؛بلکہ مجددانہ تصور کر لی گئی ہے۔ اس حیثیت کے بعد نا ممکن ہے ان کے تفردات و افکار خود ہی پیروؤں میں سرایت نہ کریں۔ مولانا نے خود بھی اپنی حیثیت ایک خلیفۃ المسلمین کی تصور کر لی ہے۔ وہ اسی حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اپنی اطاعت پر نبیؐ اور خلفائے راشدینؓ کی اطاعت کی حیثیت سے زور دے رہے ہیں۔ اور اختلاف کرنے والوں کو مشرکین، منافقین سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
آنے والے اقتباسات (آڈیو) سے یہ سب باتیں بلکل واضح اور نمایاں ہیں۔ ادنا علم رکھنے والا بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے۔
اب عوام الناس کو مولانا کے بیانات سننے سے صاف لفظوں میں روکنا چاہیے اور مقامی علماء کو ان کے غلط افکار و نظریات اور اکابر دیوبند کا موقف عوام الناس کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔

فقط والسلام



بیان نمبر (1)

بیان نمبر (2)

بیان نمبر (3)

بیان نمبر (4)

بیان نمبر (5)

بیان نمبر (6)

بیان نمبر (7)

بیان نمبر (8)

بیان نمبر (9)

بیان نمبر (10)

بیان نمبر (11)

بیان نمبر (12)

بیان نمبر (13)

بیان نمبر (14)

بیان نمبر (15)

بیان نمبر (16)

بیان نمبر (17)

بیان نمبر (18)

بیان نمبر (19)

بیان نمبر (20)

بیان نمبر (21)

بیان نمبر (22)

بیان نمبر (23)

بیان نمبر (24)

بیان نمبر (25)

بیان نمبر (26)

بیان نمبر (27)

بیان نمبر (28)

بیان نمبر (29)

بیان نمبر (30)

بیان نمبر (31)

بیان نمبر (32)

بیان نمبر (33)

بیان نمبر (34)

بیان نمبر (35)

بیان نمبر (36)

بیان نمبر (37)

بیان نمبر (38)

بیان نمبر (39)

بیان نمبر (40)

بیان نمبر (41)

بیان نمبر (42)

بیان نمبر (43)

بیان نمبر (44)

بیان نمبر (45)

بیان نمبر (46)

بیان نمبر (47)

بیان نمبر (48)

بیان نمبر (49)

بیان نمبر (50)

بیان نمبر (51)

بیان نمبر (52)

بیان نمبر (53)

بیان نمبر (54)

بیان نمبر (55)

بیان نمبر (56)

بیان نمبر (57)

بیان نمبر (58)

بیان نمبر (59)

بیان نمبر (60)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سرت جی *اس زمانے میں اسلام سے پھیرنے کو ارتداد کہا جاتا ہے ورنہ دور صحابہ میں مدینہ سے پلٹنے کو ارتداد کہا جاتا تھا مرکز نظام الدین کو چ...

ہوم