*کیاتعلیم قرآن کی اجرت جائز نہیں؟*
_________________________
*از.... رضوان احمد قاسمی سمستی پوری*
_________________________
جب کسی انسان کی عقل پہ تعصب کا پردہ ہو. ذھن ودماغ میں بےجا حمایت کاجنون ہو اور قلب وجگر پہ گمراھیت کازنگ گہرا ہو چکا ہو توپھر تمام تر قابلیت کےباوجود. ع
خود بدلتا نہیں قرآں کو بدل دیتا ہے
یعنی خود ساختہ مزعومہ کو مدلل کرنے کے لیےایران توران کی ہانکنا شروع کردیتا ہے اور پہلے اپنی ایک رائے قائم کرتا پھر قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کو اپنی رائے کے موافق ڈھالنے میں لگ جاتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ قرآن وحدیث سے جو بات ثابت ہو اسی کے مطابق اپنی رائے قائم ہو اور خود کو شریعت کا تابع رکھا جائے نہ یہ کہ شریعت ہی کو اپنی رائے کے تابع بنالیا جائے
غالباً کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بنگلہ والی مسجد نظام الدین دھلی کے امام و خطیب مولانا محمد سعد کاندھلوی نے اپنی انفرادیت اور علمی قابلیت کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ جو لوگ تنخواہ لیکر قرآن وحدیث کی تعلیم دیتے ہیں وہ سراسر ناجائز کام کرتے ہیں اس لیے کہ تعلیم قرآن کی اجرت جائز نہیں (غالباً اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بیان میں نےنہیں سنا ہے البتہ ایک گمنام حمایتی کی تحریر سامنے ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ الفاظ من و عن یہ نہ ہوں لیکن مفہوم بہرحال یہی ہے )
مولانا سعد صاحب کا بیان کردہ یہ مسئلہ خود ان کا ذاتی استنباط تو ہوسکتا ہے مگر شریعت کا یہ مسئلہ نہیں. اسے صدائے نظام الدین تو کہہ سکتے ہیں مگر صدائے اسلام ہرگز نہیں اور اسے وحی شیطانی تو کہا جا سکتا ہے مگر وحی ربانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ تعلیم قرآن کی اجرت کو ناجائز ٹھہرانے کا مطلب ہے کہ اسلامی مدارس ومکاتب میں کسی بھی طرح کی تدریس کی اجرت جائز نہیں. حتی کہ امامت ومؤذنی کی اجرت بھی اسی ناجائز کی فہرست میں داخل ہوگی
ابھی حالیہ دنوں میں کسی گمنام شخص نے اپنی تمام تر قابلیتوں کو جھونکتے ہوئے سوشل میڈیا پہ اپنا ایک مضمون وائرل کیا ہے جس کاعنوان ہے کہ اہل حق کو گمراہ کہنا کیسا ہے؟گمنام محرر نے اپنے اس مضمون میں چار آثار پیش کئے ہیں اور تعلیم قرآن کی اجرت کے عدم جواز پر بےسر پیر کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی بات حضرت مولانا یوسف صاحب نے کہی تھی . اور یہی بات حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے بھی کہی. مگر ان پر گمراہی کا فتویٰ نہیں لگا لیکن جب وہی بات مولانا سعد صاحب نے کہہ دی تو دارالعلوم دیوبند نے گمراہی کا فتویٰ دے دیا
مجھے فی الوقت ہر ایک پہلو کو اپنا موضوع نہیں بنانا ہے بلکہ جن چار دلائل سے موصوف نے تعلیم قرآن کی اجرت کو ناجائز ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی ہے بس اسی کے تناظر میں کچھ صاف صاف باتیں عرض کرنی ہے
موصوف گمنام نے سب سے پہلی جو دلیل پیش کی ہے( بلکہ ان کے نزدیک سب سے اہم دلیل بھی یہی ہے) وہ ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد.کہ *یااھل العلم والقرآن لاتاخذوا للعلم والقرآن ثمناً فتسبقکم الزناۃ الی الجنۃ* جسے کنز العمال کے حوالے سے ان صاحب نے نقل کیا ہے اورترجمہ کے بعد پہلے ایک یعنی سے اپنا نتیجہ اخذ کیا ہے پھر جب بات نہیں بنی تو دوبارہ یعنی لاکر لایعنی نتیجہ ثابت کردکھایا ہے ترجمہ کے بعد لکھتے ہیں کہ یعنی تمہارے اجرت لینے کی وجہ سے تم پیچھے رہ جاؤ اور زانی لوگ اپنی سزا پوری کرکے جنت میں نہ چلے جائیں..... (یہ ہوا پہلا یعنی.... اب دیکھئے دوسرا یعنی) یعنی امیرالمومنین حضرت عمرفاروق کے نزدیک علم سکھا کر اور قرآن شریف پڑھا کر اجرت لینے کا گناہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ان کے نزدیک علم اورقرآن کو فروخت کرنے کے مانند ہے
اب غور فرمائیے کہ گمنام صاحب کا مبلغ علم کیا ہے؟ اور انھوں نے اپنے مطلب کا نتیجہ یعنی یعنی کرکے کس طرح تراشا ہے؟ حالانکہ تاریخ کے طالب علموں سے یہ بات مخفی نہیں کہ فاروق اعظم ہی کی وہ شخصیت ہے جنھوں نے معلمین کی تنخواہیں مقرر کی تھیں. *(ثلاثۃ کانوابالمدینۃ یعلمون الصبیان وکان عمربن الخطاب یرزق کل واحد منھم خمسۃ عشر درھما کل شھر...... کنزالعمال ح9178)*
لیجیے جس شخصیت (فاروق اعظم) کے ارشاد پہ سارا انحصار تھا اور توڑ مروڑ کر پورا محل تعمیر ہوا تھا اسی نے باضابطہ مدینہ پاک کے تینوں معلمین کے لئے ماہانہ پندرہ درہم مقرر کر رکھا ہے. یہ پندرہ درہم کیا ہے؟ تعلیم قرآن ہی کی تو اجرت ہے. یہاں *.... یاجر...اور.... یرزق...* کے درمیان فرق کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ مجھ سے ہزارہا ہزار درجہ بڑوں نے اسی لفظ سے اجرت کو ثابت مانا ہے. تفصیل کے لیے دیکھئے قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب خیرالقرون کی درسگاہیں ص338. 355.وغیرہ... اسی طرح قرآن اور دینی علوم کی تعلیم پردوسرے افراد کے لئے حضرت عمر نے جو وظائف مقرر کئے تھے ان کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ *(ثم فرض للناس علی منازلهم وقراتھم القرآن الخ .حضرت عمر نے لوگوں کے مرتبے کے مطابق اور قرآن پڑھنے پر وظیفہ مقرر کیا..... فتوح البلدان ص 438)*
قاضی اطہر مبارکپوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بحوالہ سیرۃ العمرین لکھا ہے کہ *حضرت عمر کی طرح مؤذنوں. اماموں اور معلموں کے وظائف مقرر کئے..... خیر القرون کی درسگاہیں ص341*
اور سب سے بڑھ کر صاحب شرع نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نےجب فتویٰ دے رکھا ہے کہ قرآن کریم کی اجرت جائز ہے تو پھر ناجائز کا فتویٰ کون دے سکتا ہے؟ آپ بھی دیکھئے فتویٰ رسول کے الفاظ.... *ان أحق مااخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ... بخاری شریف ح5737*
الغرض تعلیم قرآن کی اجرت کو ناجائز بتانے والے باربار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آپ کا فتویٰ کہیں رسول اللہ کے فتوی سے تو نہیں ٹکراتا؟ . اگر ٹکرارہا ہو تو اپنے ایمان کی خیر منائیے.
البتہ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک ہے عبادت اور ایک ہے عبادت مع الخدمت. نماز پڑھنا عبادت ہے اور نماز پڑھانا عبادت بھی ہے خدمت بھی. قرآن پڑھنا عبادت ہے اور قرآن پڑھانا عبادت بھی ہے خدمت بھی.عبادت وطاعت کا معاوضہ جائز نہیں لیکن خدمت کا معاوضہ تو ہرمحکمے میں جائز ہے پھر یہاں کیوں جائز نہیں ہوگا؟ تاہم تقویٰ اور شان استغناءکی بنا پر کوئی اللہ والا اگر عبادت کے ساتھ ملی ہوئی خدمت پر اجرت کو ناپسند کرےتو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اسے شریعت کا ضابطہ نہیں کہہ سکتےبلکہ یہ تقوی اور ایمان کا اعلی درجہ ہے جس پر بعض صحابہ کا عمل بھی تھا پھر صحابہ کرام کا کیا کہنا؟ وہاں تو سب کے سب ایمانی آسمان کے آفتاب وماھتاب تھے ............. اسی طرح یہ غلط فہمی بھی نہ رہے کہ جب عہد صحابہ میں تعلیم قرآن یا امامت کی اجرت کا چلن تھا تو پھر ائمہ مجتہدین میں اس بابت اختلاف کیوں ہے؟تو بات اصل یہ ہے کہ پہلے بیت المال سے وظیفہ ملتا تھااس لئے جب بیت المال کے وظیفہ سے گذربسر ہوہی رہی تھی تو الگ سے اجرت لینےکا کیا سوال؟....... لہذا جن حضرات نے محض گذران کو دیکھا. انھوں نے الگ سے اجرت کو ناجائز کہا اور جنھوں نے خدمت کاپہلو سامنے رکھا ان کے نزدیک الگ سے بھی اجرت جائز رہی. چنانچہ فتاوی بزازیہ اور فتاوی خانیہ کی یہ عبارت سارے عقدوں کو حل کردیتی ہے. *وقال محمد بن فضل کرہ المتقدمون الاستیجار لتعلیم القرآن وکرھوااخذالاجرۃ علیہ لوجودالعطیۃ من بیت المال مع الرغبۃ فی امور الدین وفی زماننا انقطعت فلو اشتغلوا بالتعلیم بلااجر مع الحاجۃ الی معاش لضاعوا وتعطلت المصالح فقلنا بماقالوا(ای الشافعي واھل المدینۃ)*
اب لگے ہاتھوں حضرت عمر کے اس قول کا مطلب بھی جان لینا چاہیے جس سے گمنام حمایتی نے استدلال کیا ہےتو سیدھی سی بات یہ ہے کہ لوگوں کے مطلب کی بات کہنا اور ان کے من کے مطابق آیات قرآنی کا مطلب بیان کرکے معاوضہ لینا یہاں مراد ہے لفظ ثمن کا استعمال قرآن وحدیث میں بالعموم اسی طرح ہوا ہے *لاتشتروابآیاتی ثمناً قلیلا* وغیرہ کی تفسیر اسی پر شاھد ہےلہذا حضرت عمر کے ارشاد میں مسئلہ اجرت کا نہیں ہے بلکہ خریدوفروخت کا ہے جوکہ تحریف و تبدیل کو مستلزم ہے اسی لئے اسے زنا سے بھی بدتر کہا گیا ہے ورنہ بات اگر یہ نہ ہوتی تو خود فاروق اعظم اتنی بدتر اور ناجائز چیز کو جاری نہ فرماتے جیسا کہ اوپر گذر چکا...........
_________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں