قسط نمبر:-1
*حَاجۃُ الوریٰ اِلیٰ جماعۃِ الشوریٰ*
نظامِ شوریٰ پر تین الگ الگ پہلوؤں پر گفتگو کرنا ضروری ہے ۔
(1) نفسِ نظامِ شوریٰ۔
(2) امیر کا فی الجملہ شوریٰ کا پابند ہونا۔
(3) کسی مصلحت کے تحت فیصل کا بدلتے رہنا ۔
مسئلہ شورائیت کا پہلا پہلو
*نفسِ نظامِ شوریٰ*
نظامِ شوریٰ ایک ایسی قرآنی وعلمی حقیقت ہے جس کے ثبوت اور وجود کا انکار نصوصِ صریح الدلالۃ قرآنیہ وحدیثیہ کا انکار اور نبی صلی الله علیہ وسلم کےزمانے سے لیکرخلفائے راشدین کےمبارک ومسعود عہدتک کی محیط تاریخ وسیرت کےایک بہت بڑےجزء کا انکارہے۔
حتیٰ کہ ما بعدخلافت راشدہ اُمراء اور خُلفاء کے دربار بھی نظام ِ شورائیت سے خالی نہیں ۔
اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام صاحبِ وحی ہونے کے باوجود قابلِ مشورہ امورمیں خاصّۃََ شیخین رضی اللہ عنہماسے مشاورت فرماتے:-
واخرج مسدد- وہوصحیح -عن عمررضي الله عنہ ان رسول اللہ صلی الله عليه وسلم كان يسمر عند ابی بکرِِرضی اللہ تعالیٰ عنہ فی لیلۃِِ في الامرمن امورالمسلمین وانا معہ۔
-كذاافی کنزالعمال-
حیاۃالصحابة جلد2/صفحہ 55/
یہ تو اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کا عمل ہوا نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان بھی ملاحظہ فرمائیں:-
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے جس میں آپ کی طرف سے امر یا نہی کی وضاحت نہ ہو تو آپ کیا حکم دیتے ہیں آپ نے فرمایا کہ :-
"شاوِروا فیہ الفقھاءَ والعابدین ، ولاتُمضوا فیہ راْیَ خاصّۃِِ"
یعنی اس معاملےمیں فقہاء اورعبادت گزاروں سے مشورہ کرو اور خاص لوگوں کی رائے اس سلسلے میں نافذ نہ کرو۔
حضرت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں جب بھی کوئی ایساامر پیش آتا جس میں آپ اہل ِرائے واہلِ علم سےمشورہ کرنا ضروری سمجھتے تو انصار کے چند مخصوص اور مہاجرین کے چند مخصوص افرادکومدعوفرماتے۔
اور اپنے لائقِ مشورہ اصحاب میں سے متعین طور پر
۔ حضرت عمرفاروق
۔ حضرت عثمان غنی
۔حضرت علی مرتضیٰ
۔حضرت عبدالرحمن بن عوف
۔حضرت معاذ بن جبل
۔ حضرت زید ابن ثابت
۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔
یہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عالمی شوریٰ تھی جن سے اکثر وبیشتر آپکا مشاورت کاتعلق تھا۔
✍ یاد رہے کہ ان دونوں زمانوں میں کسی بھی نظام کا باقاعدہ انضباط نہ تھا جس کےتحت باقاعدہ ان ناموں کونامزد کر کے اعلان کیا جاتا یا لکھ کرکےرکھاجاتا ۔
"نحن امۃ امیۃ لا نکتب ولانحاسب" (الحدیث) والا پہلوغالب تھا ۔
حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی
کےبعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اہل شوریٰ یہی اصحاب تھے۔دیکھئے:-
*مشاورة ابي بکر رضي اللہ عنہ اہل الرائ*
*مشاورتہ رضی اللہ عنہ اہل الرائ و الفقہ، ومن ھم اصحاب الشوریٰ فی عہدہ وفی عہدالفاروق رضی اللہ عنہ*
(حیات الصحابہ کی جلدنمبر/ 2۔صفحہ/55 پراس ترجمۃالباب کےتحت اس کی تفصیل بطورحوالہ کےدیکھ لیجیے۔)
اور ایک اہم بات کہ حیاۃالصحابہ میں حضرت جی ثانی کا ترجمۃالباب کو قائم کرکے متعلقہ واقعات کو لانا اس بات پر غور کرنےکی طرف دعوت دیتاہےکہ حضرت کے زمانے میں مشاورت کے ساتھ کام چلتے رہنے کے باوجود اگرچہ شوریٰ مُشکَّل اور نامزد نہیں تھی مگر تشکیلِ شوریٰ کا نقشہ آپکے ذہن میں تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اپنے زمانہ خلافت کی ابتداء سے اخیر زمانے تک انہی اصحاب کو اپنا اہل شوریٰ بنائے رکھا اور آپ پر جان لیوا حملے کے بعد جب آپ کو اپنی وفات کاتیقن ہو چلا تو آپ نے اپنے اس ارادے کو جس کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا بوجہِ پےدرپے فتوحاتِ اسلامیہ کے اقدامات کے موقع نہ ملا، نبوی اور صدیقی منشاء اورمعمول کے مطابق آپ نے انہی چھ احباب کو اہلِ شوریٰ نامزد کرکے باضابطہ اعلان فرمادیا۔
نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنے اخیر زمانے تک مہماتِ امور میں ان اصحاب سے مشاورت کا معمول یہ بتاتا ہے کہ آپ نے محض انتخاب امیر کے لئے ہی اس چھ نفری شوریٰ کی تشکیل و تعین نہیں کیا ۔
بلکہ انتخاب امیر کے ساتھ ساتھ اسی مزاج مشاورت کے ساتھ کام کے چلتے رہنے کے لئے آپ نے منضبط طور پر ان ناموں کا تعین فرمادیا۔
اور پھر مابعد کے زمانوں میں آگےچل کرجب رفتہ رفتہ شورائیت کی بنیادیں کمزور ہونے لگیں تو علمائے وقت نے اس شوریٰ کی ضرورت کوشدت سے محسوس کیا ، چنانچہ علامہ طنطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:-
فهٰهُنا اَصبحت الشوريٰ من الواجبات. واذا كان صاحب شرعنا یستشیرقومہ والوحی ینزل علیہ فینزل علیٰ حکمھم ویَسیرُ بامرھم، فیالیت شعری کیف اِستبدّ ملوک الاسلام وکیف ترکواالشوریٰ فی غابرالایام......... الخ
ترجمہ:-
اس سےمعلوم ہوا کہ شوریٰ کاقیام واجبات میں سے ہے اور جب کہ ہمارےصاحبِ شریعت حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم بھی اپنی قوم سےمشورہ فرمایا کرتے تھے جبکہ وحی آپ پر نازل ہوتی تھی اور آپ صحابہ کےفیصلے کو قبول فرمایا کرتے تھے اوران کے ساتھ ہوجاتےتھےاس صورت میں کوئی بتلائے کے سلاطین اسلام کواستبداد بالرائے کا حق کیسے حاصل ہوا اور ماضی میں انہوں نےشوریٰ کوکیوں ترک کردیا ؟
یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان سو رہے تھے ۔مجھے بخدا بہت ہی زیادہ حیرت ہے کہ ان چند مسلمانوں نے شوریٰ کو کیسے ترک کردیا اور کیسے وہ امور مملکت میں مستبدّ بالرائے ہوگئے اور کیسے انہوں نے اپنے فیصلے ظلم کو روا رکھا اس ظلم پیشہ قوم کی مثال بہت بری ہے ۔
اور اب وقت آگیا ہےکہ مسلمان اپنی عظمتِ رفتہ کو واپس لائیں، عزت حاصل کریں اور اس سلسلےمیں اپناحصہ پورےطور پر وصول کرے۔
(تفسیرالجواھرللطنطاوی جلدنمبر 3 /صفحہ نمبر 157/ شوریٰ کی شرعی حیثیت صفحہ 20 /21)
بہرحال بےشمار قرآنی اور حدیثی نصوص اور آثار وسیرت صحابہ اور اقوال علماء و فقہاء نظام شورائیت کی اہمیت اور ضرورت پر ہیں ان کے ہوتے ہوئے نظام شوریٰ کا انکاری ہونا سراسرگمراہی یااسکی اہمیت کوکم کرکے بتانا جہالت اورتاریخ سےنِری ناواقفیت ہی ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کراس کوشرک بتانا تحریف ،الحاد اور زندیقیت کے دائرے میں آتا ہے ۔
آگے
قسط نمبر2
*حَاجۃُ الوریٰ اِلیٰ جماعۃِ الشوریٰ*
نظام شوریٰ پر تین الگ الگ پہلوؤں پر گفتگو کرنا ضروری ہے۔
(١) ۔ نفسِ نظام شوریٰ۔
(٢) ۔ امیر کا فی الجملہ شوریٰ کا پابند ہونا۔
ّ(٣) ۔ کسی مصلحت کے تحت فیصل کا بدلتے رہنا۔
مسئلہءِ شورائیت کا دوسرا پہلو
امیر کا فی الجملہ جماعتِ شوریٰ کا پابند ہونا۔
اس سلسلے میں یہ عرض کر نا ضروری ہے کہ خصوص اس مسئلے کے حکم میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام اورآ پ کے مابعد کے خلفاء کے درمیان خصوصی فرق ہے وہ یہ کہ قابلِ مشورہ امور میں جن کے متعلق آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اتفاق رائے یااکثریت رائے کے کے پابندنہیں ہیں ۔یعنی تمام صحابہ کسی ایک امْرپر متفق ہوجائیں تو آپ پر اس رائے پر فیصلہ کرنا واجب نہیں بلکہ آپ مختارہیں کہ چاہیں تو اپنی صوابدید سےان کے اتفاقِ رائے پر فیصلہ کریں یا ان کے اتفاق سے ہٹ کر کوئی دوسرا فیصلہ کریں "فَاِذا عَزَمْتَ فتوکّلْ علیٰ اللہِ"
والی آیت کا مفسرین نے ایک محمل یہی مانا ہے کی آیت کا حکم خصوص آپ کے لئے ہے کیوں کہ آپ کی حیثیت امیر سے بڑھ کر ایک نبی کی ہے ۔
مگر یہ فیصلہ ہائے نبوی کی تاریخ کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے صحابہ کے اتفاق رائے سے ہٹ کرفیصلہ نہیں کیا اگرچہ وہ اتفاق رائے آپکی صوابدید اور منشاء کے خلاف ہو ۔
بدر کے قیدیوں کا اورمعرکہ بدرکےمشورے کا قصہ مشہور ہے۔
اور آپکے اپنے صحابہ سے کثرت مشاورت کی وجہ سے بعض مرتبہ قابل مشورہ امور میں بغیر مشورہ کیے تنہا کسی کام کی اجازت دے دینے پر صحابہ نے اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کرائی ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلے کو خود منسوخ کردیا ۔
کسی غزوہ میں فاقوں کی شدت کی وجہ سے ایک صحابی کے آپ سے اپنا اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کرنے پر یہ امرقابلِ مشورہ ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا مشورے کے ذبح کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آکر یاد دہانی کرائی کہ اس طرح تو قافلے کے اونٹ ختم ہوجانے پر واپسی کا مسئلہ ہو جائے گا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بلا چون و چرا اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
مگر اسکے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصل مسئلےکی رو سے اپنے صحابہ کے اتفاق رائے یا کثرتِ رائے کے پابندنہیں تھے۔
مگر آپ کے مابعد خلفاء میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں مُستبِدّ بالرائے نہیں رہے ہیں اس طرح سے کہ وہ مہماتِ امور میں اپنی شوریٰ کی جماعت سے رائے لیے بغیر یا انکے اتفاق رائے کو نظر انداز کر کے بے نیاز ہوکر آزادانہ فیصلے صادر کر رہے ہوں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالئ عنہ کے بغیر مشورہ کئے مؤلفۃ القلوب حضرات کے نام ایک زمین لکھ دینے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے اس دستخطی فیصلہ کوباندازِ غضب تھوک سے مٹاکراس وُحدانی فیصلہ کو گویا ناقابلِ تنفیذ گردانتے ہوئے اعتراضاََ کہاتھا:-
*أھٰذا لک خاصۃََ اولجمیع المسلمین ۔؟*
یہ زمین تمہاری ذاتی ہے یا مسلمانوں کی اجتماعی؟
اورکہا:-
اوسعتَ المسلمین رِضیََ ومشورۃََ ؟
کیاآپ نے مشورہ کو وسعت دے کر سارے مسلمانوں کی رضامندی حاصل کرلی تھی؟
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی حضرت عمر کےاس اعتراض کو روا رکھا ۔
(حیاۃ الصحابہ جلد نمبر/2 )
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالئ نے تو شورائیت کے اس زریں اصول کو باقاعدہ اپنے ان الفاظ کے ذریعے منضبط فرما دیاکہ:-
"عامَّۃُ المسلمین امیر کے فیصلے کے تابع اور امیر اپنے فیصلے میں اپنے اہل شوریٰ کے اتفاق کا پابند "
دیکھئے حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیاۃالصحابہ میں ترجمۃ الباب ....
*"جعل الامرشوریٰ بین المستصلحین لہُ"*
یعنی
" قابلِ مشورہ امر کو لائقِ مشورہ افراد یعنی اہل شوریٰ کے مشورے میں لانا "
کے تحت حضرت عمر رضی اللہ تعالئ عنہ کے اس واقعے کو لایا ہے۔
*شورائیت کا نہجِ صحیح*
*عامّۃالمسلمین امیر کے تابع ، اور امیر اپنے فیصلے میں (فی الجملہ ) اہل شوریٰ کے پابند*
ملاحظہ فرمائیں :-👇
*خُطبَۃ بليغۃلِعُمَرَ رضي الله عنہ في المشاوَرۃِ*
واخرج ابن جرير من طريق سيف عن محمد وطلحۃ و زياد باسنادهم قالوا :-
فقام اي عمر رضي الله عنہ فقال :-
"اِنّ الله عزّ وجلّ قد جَمع علیٰ الاسلام اهلَہُ ، فالَّفَ بين القلوبِ ، وجعلهم فيہ اخوانا ۔ والمسلمون فيما بينهم كالجسدِ لا یَخلو منہ شيء من شيءِِ اصَابَ غيره ،كذلكَ يَِحقُّ علىٰ المسلمين ان يكونوا واَمرُ هم شُورىٰ بينهم بين ذَوِي الراْئِ منھم ۔ فالناسُ تَبَع لِمَنْ قام بهٰذا الامر، ما اجتمعوا عليه ورضوابہ لزِم الناسَ ، وكانوا فيہ تبع لهم ، ومن قام بهذا الامرِ تَبَع لاولى راْيهم ، ماراَوالهم ورضوا بہ لهم من َمكِيدةِِ في حربِِ كانوا فيہ تَبعًا لهم ۔ ،
يااَيّهُا الناسُ ! اني اِنّما كنتُ كرجلِِ منكم ، حتى صرفَني ذَوُو الراْئِ منكم عن الخروجِ ۔ فقد رَاَيتُ اَنْ اُقيم و اَبعثَ رجلا ۔ وقد اَحضَرتُ هذا الامرَ مَنْ قَدّمتُ و من خَلّفتُ "
(حياة الصحابۃ . جلد 2 الصفحۃ 62)
*ترجمہ*
مذکورہ سند سے مروی ہے (ماقبل سے واقعہ چل رہا ہے) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( ایک غزوہ میں دوران سفر) لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا:-
"بے شک اللہ تعالی نےمسلمانوں کو اسلام پر مجتمع فرما دیا ہے اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے ۔اور انہیں آپس میں اسلامی بھائی بنا دیا ہے۔
مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں کسی کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو دوسرے کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے ۔
اس طرح مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان کے آپس کے سارے معاملات مشورہ سے طے پائے جاییں یعنی ان کے اہل الرائے کے مشورے سے ۔
سارے مسلمان اُن کے تابع ہیں جو اس امر کےذمہ دار ہیں (یعنی امیر حضرات کے)
جس پر بھی یہ فیصلہ کرکے متفق ہوجائیں تو عام مسلمان اس معاملے میں ان کے تابع ہوں گے ۔
اور جو اس امر کے ذمہ دار ہیں ( یعنی امیرحضرات ) وہ ( اپنے فیصلے میں ) ان اہل شوریٰ کے (اتفاقِ رائے کے )تابع ہونگے-
جس چیز کو بھی وہ ( اہل شوریٰ ) مناسب سمجھیں اور اس پر ان (مسلمانوں ) کے لیے متفق ہو جائیں یعنی جنگ وغیرہ کی تدبیر پر تو وہ اس میں ان کے تابع ہوں گے ۔
*(یعنی عام مسلمان امیرِ وقت کے تابع ، اور امیرِ اپنے فیصلے میں آپنےاہل شوریٰ کے اتفاق رائے کا پابند )*
لوگو ! میں تمہاری طرح کا ( تمہارے ساتھ نکلنے والا ) ایک آدمی تھا مگر تمہارے اہل الرائے نے مجھ کو تمہارے ساتھ نکلنے سے روک دیا ، لہذا اب میری رائے ہے کہ میں مدینہ میں قیام کروں اور کسی آدمی کو ( تمہارا امیر بنا کر ) بھیج دوں ، اورمیں نے اس مشورے میں سب کو جمع کرلیا ہے ، آگے جانے والوں اورپیچھےر ہ جانے والوں کو بھی ۔"
دیکھئے یہاں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھلے لفظوں میں خلافت کی شورائی بنیادکو بیان کرکے نہجِ شورائیت کا اَساسی ضابطہ طےفرمادیا کہ امیر اپنے فیصلےمیں اہل شوریٰ سے بالکلیہ آزاد اوربے نیاز نہیں بلکہ وہ فی الجملہ ( "بالکلیہ آزاد" اور "فی الجملہ پابند" کا مطلب آگے سمجھ میں آئے گا ) اپنے اہل شوریٰ کا پابند ہے۔
یعنی اگرکسی امرمیں امیر اپنی صوابدید کے خلاف اہلِ شوریٰ کا اتفاق رائے دیکھے تو امیر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی رائے کی قوتِ دلیل بیان کرکے اپنے احبابِ شوریٰ کواس پر مطمئن کرنے کی کوشش کرے ۔ مشورے والوں کو مطمئن کیےبغیران کے اتفاق رائے سے ہٹ کرہمیشہ فیصلہ کرتے رہنا شورش کے پیدا ہونے کا قوی سبب ہے ۔ اور بہرِصورت امکانِ نزاع نظر انداز نہ کرے۔احباب کےمطمئن نہ ہونے کی شکل میں اِمکانِ نزاع محسوس ہوتو فیصلے کو ملتوی کرے ۔
اور اگر رائے اکثریت اور اقلیت پر آجائے تو امیر دونوں پرغوروفکر کرکےقوتِ دلیل کی بنیاد پر جو رائے قابل ترجیح معلوم ہو اس پر دوسرے کومطمئن کرنے کی کوشش کرے ۔ اورمطمئن نہ کرسکنے یا دونوں رایوں کےقوتِ دلیل میں مساوی معلوم ہونے یا عدمِ اِدراک وتذبذب کی صورت ميں خاص توجہ اِلیٰ اللہ کے ساتھ اکثریت کو اپنے فیصلے کی وجہِ ترجیح بنائے کہ *"بقاء اجتماعیت*" کا ایک قوی سبب اور *"للاکثرحکم الکل"* کے ضابطے کا ایک محمل یہ بھی ہے ۔
یہاں پہنچ کرمیں متحدہ تبلیغ کے سرپرست، زکریائے وقت، قطبِ تبلیغ، دنیائے تبلیغ کی سب سے گہری متفق علیہ علمی شخصیت حضرت مولانا ابراہیم صاحب ادام اللہ ظلالہ علینا حتّیٰ یظھر الحق کی زبانِ حق ترجماں سے نکلے ہوئے فیصلہ کرنے کے وہ تین زرین اصول نقل کردینا ضروری سمجھتاہوں جو ہرفیصل اور امیر کو اپنے فیصلے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔
١۔ نہج نہ بدلتا ہو۔
٢۔ اجتماعیت نہ ٹوٹتی ہو ۔
٣ ۔ نزاع والے امر کو ملتوی کردیں۔
چاروں خلفائے راشدین کامبارک و مسعود عہد اسی مزاجِ مشاورت ومنہجِ شورائیت کے ساتھ چلتا رہا ۔ مگر ما بعد کےخلفاء میں باستثنائے بعض رفتہ رفتہ اس مزاج میں کمزوری آتی گئی ۔ وہ اپنے فیصلوں میں مُستبد بالرائے اور اپنی جماعتِ شوریٰ سے بے نیاز اور آزاد ہوتے چلے گئے ۔یہی خلافت کا نقطہءِ زوال اور یہیں سے خلافت ملوکیت میں اور امارت بادشاہت میں تبدیل ہوتی چلی گئی ۔
آگے
قسط نمبر3
*حَاجۃُ الوریٰ اِلیٰ جماعۃِ الشوریٰ*
نظام شوریٰ پر تین الگ الگ پہلوؤں سے گفتگو کرنا ضروری ہے۔
١ ۔نفسِ نظامِ شورائیت۔
٢ ۔امیر کا فی الجملہ پابندِ شوریٰ ہونا۔
٣ ۔کسی مصلحت کے تحت فیصل کا بدلتے رہنا۔
*مسئلہ شورائیت کا تیسرا پہلو
*جماعت شوریٰ میں سے فیصل کو بدلتے رہنا*
یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بہت زیادہ ہنگامہ کرنے کی ضرورت ہو بلکہ امت کی ضرورت اور دینی کاموں کی مصلحت کے پیشِ نظر فیصل کو بدلتے رہنے میں ہی مصلحت ہو تو اسے اختیار کرنا خلاف شرع نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت خلفائے راشدین کے زمانہ میں وجوداََ ملتا ہے۔ نیزیہ قواعد شرع کے موافق ہی ہے۔
اس کی تفصیل سے قبل انتخاب امیر کے ان چار شرعی طریقوں میں غور فرمائیں جس کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں تحریر فرمائے ہیں:-
امت کے اہلِ حل و عقد اور عامۃ المسلمین کا کسی شخص کی امارت پر متفق ہوجانا۔
کسی امیر شرعی کا اپنی زندگی ہی میں کسی لائق اور قابل شخص کو امیر نامزد کر دینا۔
امیرِشرعی کی بنائی ہوئی شوریٰ کا اتفاق رائے یا اکثریت رائے سے کسی کو امیر منتخب کر لینا ۔
چوتھا طریقہ اِستیلاءِ شرعی ہے۔
استیلاءشرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب اوپر کے تین طریقے مفقود ہو اور امت میں کوئی امیرنہ ہوتو کوئی آدمی اپنے آپ کو امارت کا اہل جانتے ہوئے اعلانِ امارت کردے اور پھر اپنے زمانے کے اہلِ حل و عقد کو اپنی صلاحیت اور اہلیت کا قائل کر کےمطمئن اورمتفق کرلے تو امارت واجب الاطاعت منعقد ہو جاتی ہے۔ اوریہ طریقہ استیلاءِ شرعی کہلاتا ہے ۔
ان چاروں طریقوں میں غور کرنے سے یہ بات قدر مشترک کے طور پر ہمیں نظر آتی ہے کے ہر طریقے میں امت کے اربابِ حل و عقد کے اطمینان و اتفاق کا اعتبار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے اربابِ حل و عقد ہی ارباب بصیرت اور صحیح و سقیم ، رطب و یابس، اہلیت و نا اہلیت، قابلیت و عدمِ قابلیت کو جاننے والے ہوتے ہیں۔ امارت جیسے پُرشکوہ امْر میں ان کا یا ان کی اکثریت کا اطمینان واتفاق نہایت ضروری قرار دیا گیا۔
رہا عوام کا معاملہ تو وہ قابل قدر ہونے کے باوجود ایسے پرشکوہ امْر میں عوام مانندِاَنعام، حاطبِ لیل (رات میں لکڑیاں جمع کرنے والا) لوازمِ امارت سے نابلدہوتی ہے۔ ان کے ہاتھوں انتخابِ امیر جیسا امْر دے دیا جانا یہ نہایت غیرمعقول اور غیرشرعی ہوگا ۔
بہر کیف! شریعتِ مطہرہ میں نصبِ امیر کا اختیار اہلِ حل وعقد اور اربابِ شوریٰ کودیا گیا ہے ۔اسی طرح اگرامیر کو معزول کرنے کی نوبت آئے تو اس کو مشورہ کرکے معزول کرنے کا اختیار بھی جماعت ِ شوریٰ کے اختیار میں ہے ۔
یعنی امیر کے عزل ونصب دونوں کا اختیار اس جماعت کو ہے ۔
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ معزول کرنا بلا کیسی شرعی سبب اورمصلحت کے نہ ہو اللہ یعلم المفسد من المصلح اور اس میں ذاتیات ونفسانیت کا کوئی دخل نہ ہو۔
بہرِحال امیر کو برقرار رکھنے میں کوئی مفسدہ ہو اور معزول کرنے میں کوئی مصلحت ہو تو ارباب حل و عقد و اس مصلحت و مفسدہ کی بنیاد پر عزل و نصب کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔
جب عزل و نصب کا اختیار جماعت شوریٰ کو ہوا تو اگر یہ جماعت شوریٰ یہ طے کرلیں کہ ایک متعین ومحدود مدت کے لئے اپنے میں سے کسی کو امیرطے کرلیاکریں اور متعینہ مدت گزر جانے کے بعد امیر کو بدلتے رہیں اور اس امیر کے بدلتے رہنے کے اس طریقے کار میں امت کی اور اسلامی نظام یا شریعت کی عظیم مصلحتیں پیش نظر ھوں یا ایک امیر کو مکمل طور سے معزول کر دینے میں امت کے ایک بہت بڑے شیرازے میں معزول امیر کی طرف سے انتشار پیدا کر دینے کے قوی اندیشے ہوں اور اس انتشار کی مدافعت اور اس سے نمٹنے کے لئے کوئی قوتِ قاہرہ سلطتِ ظاھرہ بھی حاصل نہ ہو تو اس طریقہ کار کو اختیار کرنے ہی میں عین مصلحت ہےفقط۔۔
از
مسعود احمد قاسمی دھولیہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں