ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

15/9/18

امارت و شورائیت

*امارت و شورائیت*

*چند اعتراضات اور انکے جوابات*
از ۔۔۔محمد عمر عافی

*(الف)حامیینِ مولوی سعد کا دعویٰ ہے کہ سیرت سے شورائیت ثابت نہیں، امارت ثابت ہے۔*

( اس بات کا جواب دلائل کی روشنی میں علماء کے ذریعے دیا جا چکا ہے۔ پھر بھی چند سوالات ذہن میں گردش کررہے ہیں) 

1) اگر شورائیت ثابت نہیں تو حضرت جی کی بنائی ہوئی شوریٰ میں 20 سال تک شامل رہ کر مولوی سعد نے جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟ 

2) مولانا زبیر الحسن صاحبؒ کی حیات میں خود مولوی سعد نے یہ رائے کیوں دی کہ دونوں باری باری فیصل رہیں گے۔ 

3) نومبر 2015 رائیونڈ میں شوریٰ کی تکمیل کو مولوی سعد نے تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بعد امارت کا باطل دعویٰ کیا، اور انکی امارت کو تسلیم نا کرنے والے کے لئے جہنم کا حکم سنا کر خدائی دعویٰ کیا مولوی سعد نے۔ ان سب کے با وجود رائیونڈ سے واپسی کے بعد مولوی سعد نے ایک نئی شوریٰ تشکیل کیوں دی؟ جسے بھائی عبدالوہاب صاحب دامت برکاتہ نے رد کردیا. 

4) 2008، مالیگاؤں میں جب اختلاف ہوا، اس وقت مولوی سعد کے سامنے نئے مرکز اور ایک امیر کی تجویز پیش کی گئی تھی، جس پر مولوی سعد نے حاجی لئیق اور مالیگاؤں کے چند ذمّہ داران کے سامنے یہ کہا تھا کہ مرکز نہیں بدلتا اور شوریٰ ختم نہیں ہوتی۔ کیوں؟ 
یہ شریعت اس وقت مولوی سعد اور انکے حامیین کو کیوں سمجھ میں نہیں آئی؟ 

*(ب) یہ گدّی کی جنگ ہے، 

(مولوی سعد امارت چاہتے ہیں اور شوریٰ والے بھی)*

1) اگر یہ گدّی کی جنگ ہوتی تو دارالعلوم کے فتاوے نہیں آتے، اگر آتے بھی تو امارت کی شرعی حیثیت پر ہوتے۔

2) مولانا ابراہیم صاحب و دیگر اکابرین کے خطوط نیز اکابر علماء و مشائخ کی مصالحتی باتوں میں صراحتاً و اشارۃً یہ بات موجود ہے کہ " آپ دین کو اپنی اصل شکل اور دعوت کو نہجِ ثلاثہ پر قائم رہنے دیں۔"

3) "خود مولوی سعد بھی امارت کے طالب نہیں ہیں". کیوں کہ اگر یہ امارت کے طالب ہوتے تو ایک نئی شوریٰ نہیں بناتے جسمیں انہوں نے اپنے ہم موقف لوگوں کو شامل کیا۔ 

*(ت) ثالث حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحبؒ نے شوریٰ کیوں بنائی؟ کسی کو امیر کیوں نہیں بنایا؟* 

1) حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کی منشاء تھی کہ آگے یہ کام کسی فرد کے تحت نہیں بلکہ شوریٰ کی جماعت کے ذریعے چلے گا۔ (حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کی اس منشا کو حضرت جی انعام الحسن صاحبؒ نے پورا کیا ہے) 

2) کام بہت پھیل چکا تھا، کسی بھی ایک فرد کے اندر اتنی استعداد نہیں کہ اتنے بڑے نظام کو اکیلا سنبھال سکے، چلا سکے. 

3) یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں رہے کہ "کام عالمی ہے، اور پوری امت کا ہے"، آگے چل کر کوئی آدمی کھڑا ہو کر اس کام کو اپنے باپ دادا کی جاگیر نا سمجھ بیٹھے۔

(حضرت جی ثالثؒ کی دور اندیشی) 

4) دعوتی کام کی عقیدت اور امیرِ دعوت کی عقیدت لوگوں میں اتنی بڑھنے لگی کہ یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں لوگ عقیدت میں اتنے اندھے نا ہو جائیں کہ شریعت ہی نظر نا آئے۔

(حضرت جیؒ کی دور اندیشی) 

5) لوگ کسی شخص سے نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول سے جڑیں۔

*(ث) حضرت جی انعام الحسن صاحبؒ نے شوریٰ میں مولوی سعد کو کیوں شامل کیا؟* 

1) حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب خود مولوی سعد کو شوریٰ میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے کیوں کہ مولوی سعد اس وقت کم عمر تھے، عمومی اوقات اور صحبتِ اولیاء کے ذریعے انکی تربیت بھی نہیں ہوئی تھی، غصہ بھی بہت تھا۔ لیکن کچھ شر پسند خصوصاً میواتیوں کے اصرار اور ہنگاموں کی وجہ سے اختلاف کے ڈر سے مولوی سعد کو شوریٰ میں مجبوراً شامل کرنا پڑا۔

*(ج) حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحبؒ نے مولانا ابراہیم صاحب اور مولانا احمد لاٹ وغیرہ کو شوریٰ میں شامل کیوں نہیں کیا؟ جب کہ یہ حضرات اس وقت موجود تھے۔ کیا حضرت جیؒ کو ان حضرات پر اعتماد نہیں تھا؟* 

1)جیسا کہ نکتہ (الف3) میں ہم نے بیان کیا کہ یہ کام عالمی ہے اور پوری امت کا ہے، اسی بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حضرت جیؒ نے پاکستان کے کچھ مختلف علاقوں سے، بنگلہ دیش میں ٹونگی اور کاکرائیل سے، مکۃ المکرمہ سے احباب کو شامل کیا، اسی طرح سے ہندوستان کے بھی مختلف علاقوں سے ایک ایک شخص کو شوریٰ میں شامل کیا۔ میوات سے میاں جی محراب صاحبؒ کو، یو پی سے مولانا اظہار الحسن صاحبؒ کو، دہلی سے مولانا زبیر الحسن صاحبؒ کو اور گجرات سے مولانا عمر صاحب پالنپوریؒ کو شامل کیا۔
حضرت جیؒ نے جب گجرات سے ایک شخص یعنی مولانا عمر صاحب پالنپوریؒ کو شامل کر لیا تھا تو گجرات سے کسی اور شخص کو شامل کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لئے مولانا ابراہیم صاحب وغیرہم کو شوریٰ میں شامل نہیں کیا گیا۔
اور رہی بات مولانا ابراہیم صاحب وغیرہ پر حضرت جیؒ کے اعتماد کی تو یہ بات ذہن میں رہے کہ دورِ نبوی میں حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہؓ کے ہوتے ہوئے بھی اللہ کے نبیﷺ نے سارے راز حضرت حذیفہؓ کو بتائے اسکا یہ مطلب نہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر اللہ کے نبیﷺ کو اعتماد نہیں تھا۔

*(د) موجودہ شوریٰ، حضرت جی انعام الحسن صاحبؒ کی بنائی ہوئی شوریٰ کو کاٹ کر کوئی نئی شوریٰ بنائی گئی ہے یا اُسی شوریٰ کی تکمیل کی گئی ہے؟* 

1) ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرانی شوریٰ کو کسنے کاٹا؟ 
اللہ نے؟ !!! 
کیوں کہ شوریٰ کے سارے احباب (دو لوگوں کے علاوہ) اس دنیا سے انتقال فر ما گئے۔ اس لئے پرانی شوریٰ کو کاٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

2) اگر نئی شوریٰ تشکیل دی جاتی تو یہ امیرِ عالَم حضرت جی انعام الحسن صاحبؒ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی، کیوں کہ شوریٰ وقت کے امیر نے بنائی تھی۔

3) موجودہ شوریٰ حضرت جی انعام الحسن صاحبؒ کی بنائی ہوئی شوریٰ کی تکمیل نہیں ہوتی تو موجودہ شوریٰ میں مولوی سعد کو شامل نہیں کیا جاتا۔ (موجودہ شوریٰ میں مولوی سعد کو شامل کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موجودہ شوریٰ حضرت جی کی بنائی ہوئی شوریٰ کی تکمیل ہی ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ موجودہ شوریٰ میں بھائی عبدلاوہاب صاحب دامت برکاتہ حضرت مولانا الیاس صاحب نوّراللہ مرقدہ کی صحبت یافتہ ہیں،اور مولوی سعد کے علاوہ بقیہ تمام احباب حضرت مولانا یوسف و حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمہم اللہ کی صحبت یافتہ ہیں۔)

*(ہ)  حضرت جیؒ کے بنائی ہوئی شوریٰ کی تکمیل حضرت مولانا زبیر الحسن صاحبؓ کے انتقال کے بعد ہی کیوں کی گئی؟ اور پہلے کیوں نہیں؟*

1) تقریباً 15 سالوں سے رائیونڈ و دیگر مقامات پر اس بات کی تجویز آتی رہی کہ شوریٰ کی تکمیل ہو۔ لیکن ہر بار کسی نا کسی بہانے یا ہنگامے سے اس بات کو ٹال دیا جاتا، اور اکابرین بھی مجبور ہو جاتے یہ سوچ کر کہ کہیں امت میں اختلاف نا پیدا ہوجائے۔

2) جیسا کہ نکتہ الف2 میں کہا گیا کہ مولوی سعد نے یہ رائے دی تھی کہ کہ مولانا زبیرالحسنؒ صاحب اور مولوی سعد دونوں باری باری امیر رہیں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب شوریٰ کہ صرف تین ہی احباب(مولانا زبیرؒ، بھائی عبدالوہاب اور مولوی سعد) حیات تھے۔ اور فعززنا بثالث کے تحت تین افراد کے گروہ کو جماعت تسلیم کیا جاتا ہے۔ چونکہ شوریٰ کی جماعت کو امیر کے قائم مقام مانا جاتا ہے اس لئے اس وقت بھی اختلاف کی ڈر سے مولوی سعد کی رائے پر ہی اکتفاء کرنا پڑا۔

3) مولانا زبیر الحسن صاحبؒ کے انتقال کے بعد شوریٰ کے دو ہی فرد بچے، اور دو افراد کے گروہ کو جماعت تسلیم نہیں کیا جاتا (اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ شوریٰ کی جماعت امیر کے قائم مقام ہوتی ہے افراد نہیں) اس لئے دعوت و تبلیغ کا کوئی امیر ہی نہیں رہا ۔ اور جس قوم یا جماعت کا کوئی امیر نہیں ہوتا اسکا امیر شیطان ہوتا ہے۔ اس لئے شوریٰ کی تکمیل اشد ضروری ہوگئی۔ اور بالآخر مولوی سعد نے امارت کا اعلان کر کے امت میں اختلاف پیدا کر ہی دیا۔

*مولوی سعد کو امیر ماننے والوں سے چند سوالات*

1) شریعت میں امیر کیسے بنتا ہے؟ 
2) مولوی سعد امیر کب بنے؟ 
3) مولوی سعد نے امارت کا باطل دعویٰ حضرت مولانا زبیر الحسن صاحبؒ کے انتقال کے بعد ہی کیوں کیا؟ 
4) مولوی سعد کو امیر کسنے بنایا؟ 
امیرِ عالَم حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحبؒ نے؟ 
یا جبرئیلؑ آئے تھے؟ 
یا یہ خود ساختہ امیر ہیں؟ 

محمد عمر عافی

IMG-20180915-WA0003

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم