*بات کرنے کا سلیقہ چاہیے*
*رضوان احمدقاسمی
مہتمم جامعہ اسلامیہ محفوظ العلوم للبنات
منوروا شریف سمستی پور بہار.*
بنگلہ والی مسجدمرکز نظام الدین دہلی کے امام و خطیب مولانا محمد سعد کاندھلوی سے منسوب آئے دن گشت کرتے ہوئے مختلف کلپ کو سن کر بے اختیار مرحوم استاد شاعر جناب کلیم عاجز یاد آجاتے ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ
*بات چاھےبے سلیقہ ہو کلیم*
*بات کرنے کا سلیقہ چاہیے*
*بات کرنے کا سلیقہ چاہیے*
چنانچہ مولانا سعد صاحب کا یہ بیان کہ..
*جماعت میں نکلنے کی وجہ سے فرض روزہ بھی چھوڑنا جائز ہے*
اسی قبیل سے ہے کیونکہ اسی بات کو اگر اس انداز سے دیکھا جائے کہ جماعت میں نکلنے والا مسافر ہوتا اور مسافر کے لئےفرض روزہ چھوڑنے کی اجازت ہےتو ظاہر ہے کہ مسئلہ بالکل درست ہے. کسی کے لیے بھی اشکال کی گنجائش نہیں اور غالباً مولانا کی مراد بھی یہی ہے لیکن اسی بات کو اگر یوں کہا جائے کہ جماعت میں نکلنا بہر صورت لازم ہے چاھے اس کے لئے رمضان کے روزے ہی کیوں نہ چھوڑنے پڑیں.
تو یقیناً یہ غلط اور کھلی ہوئی گمراہی ہے کیونکہ جماعت میں نکلنا کوئی فرض و واجب نہیں بلکہ ایک جائز اور مستحب کام ہے اور کسی بھی جائز کام کی خاطر فرض عین حکم کوچھوڑنے کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دی جاسکتی.
مسافر کے لئے رخصت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جان بوجھ کر انسان اپنے ایسے سفر کو بھی رمضان کے لئے موقوف رکھے جو دوسرے ایام میں بھی ہوسکتے ہوں بلکہ سہولت ورخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کسی شدید ضرورت کی بنا پر رمضان میں سفر کرنا ہی پڑے تو شریعت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی گنجائش ہے.
ورنہ تو روزہ چھوڑنے کا یہ ایک ایساحیلہ بن جائےگا. جس کی شناعت وقباحت کسی سے مخفی نہیں.
مولاناسعد خود یہ فرمارہے ہیں کہ جماعت کی نقل و حرکت تو فرائض کو زندہ کرنے کے لیے ہے اب اگر اسی نقل و حرکت سے فرائض کا جنازہ نکلے اور رمضان کا فرض روزہ بھی چھوڑنا پڑے تو پھر یہ نقل و حرکت فرائض کو زندہ کرنے والی کہاں رہی؟
یہ تو مارنے والی بن گئی ؟
اسی لیے یہ عنوان دیا گیا ہے کہ بات چاہےجیسی بھی ہو. اگر سلیقے سے کہی جائے. ہر چیز کو اپنے اپنے مقام پہ رکھتے ہوئے حکم لگایا جائےاور غلو سے کام نہ لیا جائے تو ہرگز اس طرح کی تضاد بیانی نہیں ہوسکتی
اسی قبیل سے ہے کیونکہ اسی بات کو اگر اس انداز سے دیکھا جائے کہ جماعت میں نکلنے والا مسافر ہوتا اور مسافر کے لئےفرض روزہ چھوڑنے کی اجازت ہےتو ظاہر ہے کہ مسئلہ بالکل درست ہے. کسی کے لیے بھی اشکال کی گنجائش نہیں اور غالباً مولانا کی مراد بھی یہی ہے لیکن اسی بات کو اگر یوں کہا جائے کہ جماعت میں نکلنا بہر صورت لازم ہے چاھے اس کے لئے رمضان کے روزے ہی کیوں نہ چھوڑنے پڑیں.
تو یقیناً یہ غلط اور کھلی ہوئی گمراہی ہے کیونکہ جماعت میں نکلنا کوئی فرض و واجب نہیں بلکہ ایک جائز اور مستحب کام ہے اور کسی بھی جائز کام کی خاطر فرض عین حکم کوچھوڑنے کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دی جاسکتی.
مسافر کے لئے رخصت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جان بوجھ کر انسان اپنے ایسے سفر کو بھی رمضان کے لئے موقوف رکھے جو دوسرے ایام میں بھی ہوسکتے ہوں بلکہ سہولت ورخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کسی شدید ضرورت کی بنا پر رمضان میں سفر کرنا ہی پڑے تو شریعت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی گنجائش ہے.
ورنہ تو روزہ چھوڑنے کا یہ ایک ایساحیلہ بن جائےگا. جس کی شناعت وقباحت کسی سے مخفی نہیں.
مولاناسعد خود یہ فرمارہے ہیں کہ جماعت کی نقل و حرکت تو فرائض کو زندہ کرنے کے لیے ہے اب اگر اسی نقل و حرکت سے فرائض کا جنازہ نکلے اور رمضان کا فرض روزہ بھی چھوڑنا پڑے تو پھر یہ نقل و حرکت فرائض کو زندہ کرنے والی کہاں رہی؟
یہ تو مارنے والی بن گئی ؟
اسی لیے یہ عنوان دیا گیا ہے کہ بات چاہےجیسی بھی ہو. اگر سلیقے سے کہی جائے. ہر چیز کو اپنے اپنے مقام پہ رکھتے ہوئے حکم لگایا جائےاور غلو سے کام نہ لیا جائے تو ہرگز اس طرح کی تضاد بیانی نہیں ہوسکتی
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جس روزہ کی خاطر خود نبی کریم بھی یکسو ہوجایا کرتے ہوں. جس رمضان کی فضیلتوں کے لئے سرور عالم بھی کمر کس لیتے ہوں. اور جس مہینے کے اعزاز میں یہ ارشاد منقول ہو کہ..
*من صام یومافی سبیل اللہ جعل اللہ بینہ وبین النار خندقا کما بین السماء والأرض (المعجم الأوسط للطبرانی 3598)*
اسی ماہ کے لیے ایک ایسے حیلے کی دعوت دی جائے جسکا شریعت کے مزاج سے کوئی واسطہ نہیں اور غضب بالائے غضب یہ کہ واقعہ جہاد سے دعوتی سفر پر استدلال کیا جائے اور محض ایک جائز ومستحسن کام کی خاطر فرض روزہ کو بھی تیاگ دینے کی کھلے عام اجازت دی جائے تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ
*من صام یومافی سبیل اللہ جعل اللہ بینہ وبین النار خندقا کما بین السماء والأرض (المعجم الأوسط للطبرانی 3598)*
اسی ماہ کے لیے ایک ایسے حیلے کی دعوت دی جائے جسکا شریعت کے مزاج سے کوئی واسطہ نہیں اور غضب بالائے غضب یہ کہ واقعہ جہاد سے دعوتی سفر پر استدلال کیا جائے اور محض ایک جائز ومستحسن کام کی خاطر فرض روزہ کو بھی تیاگ دینے کی کھلے عام اجازت دی جائے تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ
*چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی*
خیال رہے کہ میں نے اس طرح کا حیلہ بتلانے کو کفر نہیں کہا ہے اور نہ ہی نظام الدین کی بنگلہ والی مسجد کو کعبہ سے تشبیہ دی ہے بلکہ یہ تفہیم کا محض ایک انداز ہے اور گمراہی کی محض ایک نظیر ہے کہ اگر عبادت کے مرکز ہی سے ایسے حیلوں کا پرچار ہوگاتو پھر عبادت خاک ہوگی.....؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں