ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

5/9/18

کیا اعلانیہ گناہ کرنابےحیائی نہیں؟

کیا اعلانیہ گناہ کرنابےحیائی نہیں؟

ہائے افسوس
خرد کا نام جنوں رکھ دیا. جنوں کاخرد
از....رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار
برائی کوبھلائی کہنا. بدتمیزی کو ادب وتميز گرداننا اور بےحیائی کو شرافت کا عنوان دینا کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں.
کیونکہ مسلمان تو وہی ہے جو قرآن وحدیث کے واضح احکامات میں معمولی سی تبدیلی بھی برداشت نہیں کرسکتا.
غلط تعبیر کو کبھی بھی گوارہ نہیں کرسکتا. اور خودساختہ مفہوم کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتا ہے لہذا کسی مسلمان کے بارے میں یہ تصور ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ بےحیائی کو بےحیائی نہ کہے. برائی کو برائی نہ مانے اور غلط کو غلط تسلیم نہ کرے.
عمل کے اعتبار سے کوئی مسلمان بےعمل توہوسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ برائی کو بھلائی کہنے لگے. غلط راہ کو صراط مستقیم ماننے لگے اورجنون کو عقل و خرد باور کرنے لگے.
جب ایک عام مسلمان کےتعلق سے ایسا تصور مشکل ہے تو پھرکسی عالم دین کے تعلق سے ایسا تصور کیونکر ممکن ہوگا؟
وہ تو دین کا راہبر ہے. شریعت کا ترجمان ہے اور قرآن وحدیث کا محافظ ہے. بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عالم دین بےحیائی کو بے حیائی نہ مانے اور جنون وخبط کو عقل و دانش مانتے ہوئے اس کی تحسین کرنے لگے؟
جی ہاں بظاہر تو کسی عالم دین سے ایسا ہرگز ہرگز ممکن نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ 2 مارچ کونمازجمعہ کے بعد میرے ایک دوست نے اورنگ آباد اجتماع سے منسوب ایک مختصر سی کلپ بھیجی جس میں صاف صاف یہ کہا جارہا ہے کہ ::::خداکی قسم کھلم کھلا کوئی گناہ کرنا ہرگز ہرگز بے حیائی نہیں ہے. بےحیائی تو یہ ہےکہ چھپ کر کیا جائے :::افسوس صد افسوس.
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
میں نہیں جانتا کہ یہ بیان کس پس منظر میں ہے؟
اور آگے پیچھے کا مضمون کیا ہے؟
لیکن سیاق و سباق تو اس وقت دیکھنا ضروری ہے جبکہ بات واضح نہ ہو.
یہاں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہے اور بات اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی تاویل کی گنجائش نہیں اس لئے آئیے قرآن کریم کی عدالت سے فیصلہ لیتے ہیں اور حدیث رسول سے تصفیہ کراتے ہیں کہ کیا واقعی کھلم کھلا گناہ کرنا بےحیائی نہیں؟
قرآن وحدیث میں فحش. فحشاء. فاحشہ اور تفحش وغیرہ کا استعمال جب بھی ہوتاہے تو اس کا ترجمہ اردو میں  بیحیائی سے کیا جاتا ہے اور بیحیائی کا لفظ اسقدر عام ہےکہ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہےاعلانیہ گناہ بھی بےحیائی ہے اور پوشیدہ گناہ بھی بےحیائی ہےچنانچہ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ (ماتقولون في الشارب  والزاني والسارق فقالوا الله ورسوله أعلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هن فواحش الخ
تم لوگ شراب پینے والے. زنا کرنے والے اور چوری کرنے والے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
تو صحابہ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں تب رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ سب بے حیائی ہیں.... السنن الکبری للبیہقی جلد8ص209)
ایک دوسری جگہ ہےکہ
(عن علی انہ سئل عن قول الرجل للرجل یافاسق یاخبیث قال ھن فواحش..
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو کسی دوسرے شخص کو کہےکہ اے فاسق.. اے خبیث... تو آپ نے فرمایا کہ یہ بےحیائی ہے. ارواء الغلیل 2393)
اب غور کیجئے کہ زنا کرنا چوری کرنا اور شراب پینا بھی بےحیائی ہے اور کسی کو فاسق وفاجر کہنا اور خبیث کہہ کر پکارنابھی ہے حیائی ہے
کیابند کمرے میں اگر یہ سارے کام ہونگے تو بے حیائی ہوگی؟
اورکھلم کھلم ہون تو بے حیائی نہیں ہوگی؟ ہائے ہائے کیا کہا جائے اور کیسے سمجھایا جائے؟
کہ کسی کو گالی دینا. غلط نام سے پکارنا اور خبیث ومردود کہنا بالعموم کھلم کھلا ہی ہوتا ہے اس کے باوجود روایت یہ کہہ رہی ہے کہ بےحیائی ہے مگر کلپ میں کہا جارہا ہے کہ یہ بے حیائی نہیں..
احادیث میں تو اس طرح کی بیشمار روایات ہیں مگر نمونہ کے لئے اتنا بھی کافی ہے اسلئے اب قرآن کی طرف آئیے اور مفسرین کی بارگاہوں میں جانے کی ابھی کوئی زحمت نہ اٹھائیے کہ  قرآنی الفاظ ہی اس قدر واضح ہیں کہ کسی تفسیر کے بغیر بھی کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی
قرآن کریم سورہ انعام کی آیت نمبر 151 میں ہے
( لاتقربواالفواحش ماظھر منھا ومابطن.
یعنی بےحیائیوں کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ بےحیائی علانیہ ہو یاپوشیدہ.....)
اسی طرح سورہ اعراف آیت نمبر 33 میں ہے
( قل إنما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا ومابطن الخ
یعنی آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حرام کردیا ہے تمام بے حیائیوں کو خواہ وہ بے حیائی علانیہ ہوں یاپوشیدہ)
اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں ہے (الاان یاتین بفاحشۃ مبینہ...
یعنی مگر یہ کہ عورتیں کھلم کھلا بے حیائی کرلیں)
غور فرمائیے کہ قرآن تو کہہ رہا ہے کہ بے حیائی پوشیدہ بھی ہوتی ہے اور اعلانیہ بھی.
اور ہم کہیں کہ اعلانیہ گناہ ہرگز ہرگز بے حیائی نہیں.... فیاللعجب
قرآن مجید نے توکئی جگہوں پر فیصلہ سنا دیا کہ اعلانیہ گناہ بھی بے حیائی ہے اور صرف چھپ کر گناہ کرنے کو بےحیائی کہنا قرآن کریم کے خلاف ہے اس کے باوجود اگر ہم میں سے کوئی جان بوجھ کر اعلانیہ گناہ کرنے کو بےحیائی نہ مانے اور قسم کھا کھا کر یہ اعلان کرے کہ اعلانیہ گناہ بیحیائی نہیں ہے تو کیا یہ گمراہی نہیں؟
ہائے ہائے کیا کہوں اور کیا نہ کہوں؟
کہ جس قرآن کو ماننے سے ہم مسلمان ہیں. جس نبی کے فرمان کو درست جاننے سے ہم مومن ہیں اور جس شریعت کی گود میں بیٹھ کر ہم عالم ہیں اسی شریعت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں.
اسی قرآن کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں اور وہ بھی علانیہ. لاکھوں کی موجودگی میں. داعی کا روپ دھار کر. بھلا ایسے میں کوئی حکم لگائے تو کیا لگائے؟
کوئی فیصلہ کرے تو کیا کرے؟
اور کوئی کچھ کہے تو کیا کہے کہ یہ تو اظہر من الشمس ہے.
فقط.. رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار
٣مارچ ٢٠١٨بروز ہفتہ

RaddeFST+2


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم