لیجئے! اب تو پہونچی ہےیہاں تک نوبت
اپنے معمول سےھٹنے پہ اذیت ہوگی
از.... رضوان احمد قاسمی
منوروا شریف سمستی پور بہار
نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم کی ذات اقدس بیک وقت شارح بھی شارع بھی ہر عمل آپ کااسوہ ہے اورہرارشاد معیار.
اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کے جس قول وفعل پر من جانب اللہ کوئی نکیر نہیں وہی ہماری شریعت ہے اور وہی ہمارا دستور. اسی لئے آپ نے اپنی امت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ہی عمل کو مختلف روپ دیا ہے تا کہ امت کے لیے جیسے بھی حالات ہوں اور زندگی کا جونسابھی مرحلہ ہو ہردور کے واسطے نبی کی ذات نمونہ بن سکے.
مگر افسوس کہ اورنگ آباد کاحالیہ اجتماع کیا ہواکہ نئے نئے نکتے سامنے آنے لگے.
اعلانیہ گناہ کو بےحیائی سے خارج کردیا گیا اور صرف چھپ کر گناہ کرنے کو بےحیائی کا نام دیا گیا اسی طرح نبی کریم کےایک مختلف معمول سے نئی دلیل گھڑ لی گئی.
یعنی مولانا سعد صاحب نے مجلس نکاح کے بیان میں ولیمے کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ حضرت زینب بنت جحش کے ولیمہ میں چونکہ آپ نے اپنے معمول سے ھٹ کر کھانے کا اھتمام کیا تھا اس لیے آپ اذیت میں مبتلا ہوئے..... العیاذ باللہ
مجھے ذاتی طور پر مولانا سے نہ تو کوئی پرخاش ہے اور نہ ہی کوئی خاص مناسبت . بس ایک دینی رشتہ اوردعوتی تعلق ہے اس لیےمذکورہ جملے پر مشتمل بیان کو سن کر دل کو ٹھیس پہونچی.
ایمانی حرارت میں اضطراب آیا اورقلب وجگر بےچین ہوگئے کہ اے خدا یہ سب کیا ہے؟ اعلانیہ شان نبوت میں گستاخی؟
لاکھوں کے بیچ سردار انبیاء کی بےادبی؟
اور اسلامی اسٹیج سے شارع اسلام پر نکتہ چینی؟
.................افسوس صد افسوس........
حق تو یہ تھا کہ اجتماع کے دوران کسی بھی ایک مجلس میں لاکھوں فرزندان توحید کو ملک شام کی آہیں بھی سنائی جاتیں. وہاں کی چیختی مظلومیت کا آئینہ بھی دکھایا جاتا. معصوم بچوں. عورتوں اور بوڑھوں کے بہتےہوئے خون کا رنگ بھی بتلایا جاتا اور ظالم وجابر بشار الأسد کے لئے بددعائیں بھی کی جاتیں مگر افسوس کہ شامی مظلوموں کا نام تک نہ آیا.
وہاں کی ہزاروں تڑپتی لاشوں پرایک جملہ بھی نہ نکلا اور کسی بھی طرح بشار اور اس کے مددگاروں کی سفاکی پربھولے سےبھی کوئی اظہار افسوس نہ ہوا...
بلکہ الٹے اس ذات کی شان اقدس کو چھیڑا گیا جس کا نام لینے پر آج ملک شام پہ بمباری ہورہی ہے.
اور اس پیغمبر کو نشانہ بنایا گیا جس کا کلمہ پڑھنا ہی شامی مسلمانوں کاجرم عظیم ہے..
آہ صد ہزار آہ.
منوروا شریف سمستی پور بہار
نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم کی ذات اقدس بیک وقت شارح بھی شارع بھی ہر عمل آپ کااسوہ ہے اورہرارشاد معیار.
اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کے جس قول وفعل پر من جانب اللہ کوئی نکیر نہیں وہی ہماری شریعت ہے اور وہی ہمارا دستور. اسی لئے آپ نے اپنی امت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ہی عمل کو مختلف روپ دیا ہے تا کہ امت کے لیے جیسے بھی حالات ہوں اور زندگی کا جونسابھی مرحلہ ہو ہردور کے واسطے نبی کی ذات نمونہ بن سکے.
مگر افسوس کہ اورنگ آباد کاحالیہ اجتماع کیا ہواکہ نئے نئے نکتے سامنے آنے لگے.
اعلانیہ گناہ کو بےحیائی سے خارج کردیا گیا اور صرف چھپ کر گناہ کرنے کو بےحیائی کا نام دیا گیا اسی طرح نبی کریم کےایک مختلف معمول سے نئی دلیل گھڑ لی گئی.
یعنی مولانا سعد صاحب نے مجلس نکاح کے بیان میں ولیمے کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ حضرت زینب بنت جحش کے ولیمہ میں چونکہ آپ نے اپنے معمول سے ھٹ کر کھانے کا اھتمام کیا تھا اس لیے آپ اذیت میں مبتلا ہوئے..... العیاذ باللہ
مجھے ذاتی طور پر مولانا سے نہ تو کوئی پرخاش ہے اور نہ ہی کوئی خاص مناسبت . بس ایک دینی رشتہ اوردعوتی تعلق ہے اس لیےمذکورہ جملے پر مشتمل بیان کو سن کر دل کو ٹھیس پہونچی.
ایمانی حرارت میں اضطراب آیا اورقلب وجگر بےچین ہوگئے کہ اے خدا یہ سب کیا ہے؟ اعلانیہ شان نبوت میں گستاخی؟
لاکھوں کے بیچ سردار انبیاء کی بےادبی؟
اور اسلامی اسٹیج سے شارع اسلام پر نکتہ چینی؟
.................افسوس صد افسوس........
حق تو یہ تھا کہ اجتماع کے دوران کسی بھی ایک مجلس میں لاکھوں فرزندان توحید کو ملک شام کی آہیں بھی سنائی جاتیں. وہاں کی چیختی مظلومیت کا آئینہ بھی دکھایا جاتا. معصوم بچوں. عورتوں اور بوڑھوں کے بہتےہوئے خون کا رنگ بھی بتلایا جاتا اور ظالم وجابر بشار الأسد کے لئے بددعائیں بھی کی جاتیں مگر افسوس کہ شامی مظلوموں کا نام تک نہ آیا.
وہاں کی ہزاروں تڑپتی لاشوں پرایک جملہ بھی نہ نکلا اور کسی بھی طرح بشار اور اس کے مددگاروں کی سفاکی پربھولے سےبھی کوئی اظہار افسوس نہ ہوا...
بلکہ الٹے اس ذات کی شان اقدس کو چھیڑا گیا جس کا نام لینے پر آج ملک شام پہ بمباری ہورہی ہے.
اور اس پیغمبر کو نشانہ بنایا گیا جس کا کلمہ پڑھنا ہی شامی مسلمانوں کاجرم عظیم ہے..
آہ صد ہزار آہ.
دوستو! مودودی صاحب میں آخر کیا کمی تھی؟
کہ ہمارے علماء نے ان کی رفاقت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا؟
اور ان کے نظریات پر کتابوں کے انبار لگا دئیے؟ بس یہی نا؟
کہ انھوں نے پہلے صحابہ پہ ہاتھ ڈالا. ان کی غلطیوں کو گنوایا. نحن رجال وھم رجال کا ایک معقول راگ الاپا اور پھر انبیاء کرام پر بھی ہاتھ صاف کر بیٹھے تاکہ وہ لوگوں کواپنے نظریات کا قائل کرسکیں.......
مگر وہ کچھ زیادہ ہی ذھین تھے اس لیےانھوں نےبراہ راست سراپائے نبوت کو نہیں چھیڑا جبکہ یہاں تو براہ راست انبیاء کرام ہی نشانے پر ہیں آج سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کی تنقیص سامنے آئی تھی اور اب محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی باری ہے.
قرآنی آیات کےنازل ہونے کےکچھ اسباب بھی ہیں اور مختلف وجوہات کی بنا پر متعدد احکام ہمیں عطا ہوئےہیں پردہ کا حکم بھی انھیں میں سے ایک ہے کہ حضرت زینب کے ولیمہ میں سب لوگ کھانے کے بعد چلے گئے مگر تین آدمی بیٹھے رہے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی باہر جاتے کبھی اندرآتے تاکہ یہ تینوں آدمی بھی سمجھ کر چلےجائیں لیکن وہ سمجھ نہ سکےجبکہ اسی روم میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا دیوار کی طرف رخ کرکے بیٹھی ہوئی تھیں اس لئے آپ چاہتے تھے کہ لوگ یہاں بیٹھے باتیں نہ کریں بلکہ باہرچلے جائیں زبان سےکہنا مناسب نہیں سمجھ رہے تھےبالاخر پردہ کی آیات نازل ہوئیں جن میں ایک جملہ یہ بھی ہے کہ اذا دعیتم فادخلوا فاذاطعمتم فانتشروا (أحزاب آیت نمبر53) یعنی جب بلایا جائے تو داخل ہو اور جب کھانا کھالو تو چلےجاؤ..
اس ولیمہ میں دوسرے ولیموں کی بنسبت کچھ زیادہ اھتمام تھا باضابطہ روٹی اور گوشت کا نظم تھااور تین سو آدمیوں نے کھانا کھایا تھاجبکہ دوسرے ولیموں میں گوشت اور روٹی کا اھتمام نہیں ہوا تھا
یہ ہے حضرت زینب کے ولیمہ کا واقعہ.
اسی پر مولانا سعد صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ دوسرے ولیموں میں یہ اھتمام نہیں تھاگویا آپ نے معمول سے ھٹ کر یہ اھتمام کیا تھا اسی لیے آپ کو اذیت ہوئی.
بھلا غور فرمائیے کہ رسول پاک کو جو اذیت محسوس ہوئی وہ عظیم دعوت کی وجہ سے ہوئی یا تین آدمی کے بیٹھے رھنے سے ہوئی؟ ظاہر ہے کہ تین آدمی کے نہ جانے کی وجہ سے اذیت ہوئی ہے نہ کہ دعوت کی وجہ سے.
اگر سارے یااکثر لوگ بیٹھے رہ جاتے تب تو کسی قدر کہا بھی جاسکتا تھا کہ دعوت کی وجہ سے اذیت ہوئی. یہاں تو صرف تین آدمی ہیں جوکہ دعوت کے بغیر بھی آپ کے روم میں آسکتے تھے کیونکہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کایہ واقعہ ہے
علاوہ ازیں اگر اس ولیمہ میں زیادہ اھتمام ہوا تھا جو بقول مولانا سعد کے اپنے معمول سے ھٹ کرتھا تو کیا یہ شادی بھی گذشتہ معمول سے ھٹ کر نہیں تھی؟
ضرور یہ شادی بھی سب سے ممتاز تھی چنانچہ قرآن کہتا ہے کہ حضرت زینب بنت جحش اورنبی کریم کے درمیان جو شادی انجام پائی ہے وہ اس دھرتی پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوئی ہے
( فلماقضی زید منھا وطرازوجنکھا. أحزاب ) تو چونکہ یہ شادی ہی سب سے ممتاز تھی اسلئے ولیمہ بھی ممتاز رہا. اسے معمول سے ھٹنا نہیں بلکہ معمول کے مطابق کہا جائیگا کیونکہ اور شادی سادہ ہوئی تو ولیمہ بھی سادہ رہا اور یہ شادی ممتاز تھی اسلئے ولیمہ بھی ممتاز رہا اب اگر اس شادی کا ولیمہ سادہ ہوتا تب کہا جا سکتا تھا کہ یہ ولیمہ معمول سے ھٹ کر ہوا یعنی جیسی شادی ویسا ولیمہ کے معمول سے ھٹ کر ہوا.
بات اصل یہ ہے کہ آپ کا جوبھی عمل ہوتا وہ امت کی آسانی کے لئے ہوا کرتا تھااس لئے آپ جوبھی کرلیں اسی کو معمول کہا جائے گا ایسا نہیں کہ آجکا عمل اگر کل سے مختلف ہو تو اس کی تعبیر معمول سے ھٹ کر ہوگی کیونکہ ہم اپنے اوپر نبی کریم کو اگر قیاس کرکے کوئی تعبیر اپناتے ہیں تو پھر مولانا مودودی کے تعلق سے تعبیر کی غلطی کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے اس لئے یہاں کی تعبیر صرف اتنی ہوگی کہ ایک معمول آپ کا یہ ہے اور ایک معمول وہ ہے.. پھر مستزاد یہ کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم اپنے معمول سے ھٹے تو اذیت میں مبتلا ہوئے.
ہائے ہائے...
ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ بغیر تنبیہ خداوندی کے جوعمل بھی آپ کا ہم تک پہنچا ہے وہ یقیناً منشأ خداوندی کے مطابق ہے لہذا کسی جگہ اگر ھٹنا کہہ بھی دیا جائے تو اس عقیدے سے کہ آپ کو اسی کااشارہ تھا اور خدا پاک آپ کے اس عمل کے نتیجے میں پردہ کے احکام دینے والا تھا نہ یہ کہ سابقہ طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقہ کواپنانا آنحضور کے لئے کسی طرح بھی نقص وکوتاہی کی دلیل ہے؟
پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ آپکی دیگر ازواج کا ولیمہ کیا صرف کھجور وپنیر سے تھا؟
اور اگر تھا بھی تو کیا سب کا انداز بھی یکساں تھا؟
ہرگز نہیں. حضرت خدیجہ کے ولیمہ میں باضابطہ گائے اور ایک روایت میں اونٹ ذبح ہوئے تھے. ممكن ہے اسے بعثت سے قبل ہونے کی بنا پر رد کردیا جائے تو عام اردو کتابوں میں بھی حضرت عائشہ کا اپنی شادی کے تعلق سے یہ قول منقول ہے کہ بخدا میری شادی میں سوائے ایک چھوٹے سے پیالہ میں کھانے پینےکی چیز کے کچھ بھی نہ تھااور وہ بھی سعد بن عبادہ کے یہاں سے آیا تھا. (فضائل امہات المؤمنين 132)
اسی طرح حضرت صفیہ کا ولیمہ جن سے حضرت زینب کے بعد نکاح ہوا وہ بھی اس انداز سے تھا کہ دوران سفرہی چمڑےکا دسترخوان بچھا دیا گیا اور اعلان کردیا گیا کہ جس کے پاس کھانے کی جوچیز ہو وہ لےآئےچنانچہ کافی لوگ جمع ہوگئے اور آئٹم بھی مختلف رہے تو کیا اسے بھی معمول سے ھٹا ہوا کہیں گے؟
کہ ہمارے علماء نے ان کی رفاقت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا؟
اور ان کے نظریات پر کتابوں کے انبار لگا دئیے؟ بس یہی نا؟
کہ انھوں نے پہلے صحابہ پہ ہاتھ ڈالا. ان کی غلطیوں کو گنوایا. نحن رجال وھم رجال کا ایک معقول راگ الاپا اور پھر انبیاء کرام پر بھی ہاتھ صاف کر بیٹھے تاکہ وہ لوگوں کواپنے نظریات کا قائل کرسکیں.......
مگر وہ کچھ زیادہ ہی ذھین تھے اس لیےانھوں نےبراہ راست سراپائے نبوت کو نہیں چھیڑا جبکہ یہاں تو براہ راست انبیاء کرام ہی نشانے پر ہیں آج سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کی تنقیص سامنے آئی تھی اور اب محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی باری ہے.
قرآنی آیات کےنازل ہونے کےکچھ اسباب بھی ہیں اور مختلف وجوہات کی بنا پر متعدد احکام ہمیں عطا ہوئےہیں پردہ کا حکم بھی انھیں میں سے ایک ہے کہ حضرت زینب کے ولیمہ میں سب لوگ کھانے کے بعد چلے گئے مگر تین آدمی بیٹھے رہے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی باہر جاتے کبھی اندرآتے تاکہ یہ تینوں آدمی بھی سمجھ کر چلےجائیں لیکن وہ سمجھ نہ سکےجبکہ اسی روم میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا دیوار کی طرف رخ کرکے بیٹھی ہوئی تھیں اس لئے آپ چاہتے تھے کہ لوگ یہاں بیٹھے باتیں نہ کریں بلکہ باہرچلے جائیں زبان سےکہنا مناسب نہیں سمجھ رہے تھےبالاخر پردہ کی آیات نازل ہوئیں جن میں ایک جملہ یہ بھی ہے کہ اذا دعیتم فادخلوا فاذاطعمتم فانتشروا (أحزاب آیت نمبر53) یعنی جب بلایا جائے تو داخل ہو اور جب کھانا کھالو تو چلےجاؤ..
اس ولیمہ میں دوسرے ولیموں کی بنسبت کچھ زیادہ اھتمام تھا باضابطہ روٹی اور گوشت کا نظم تھااور تین سو آدمیوں نے کھانا کھایا تھاجبکہ دوسرے ولیموں میں گوشت اور روٹی کا اھتمام نہیں ہوا تھا
یہ ہے حضرت زینب کے ولیمہ کا واقعہ.
اسی پر مولانا سعد صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ دوسرے ولیموں میں یہ اھتمام نہیں تھاگویا آپ نے معمول سے ھٹ کر یہ اھتمام کیا تھا اسی لیے آپ کو اذیت ہوئی.
بھلا غور فرمائیے کہ رسول پاک کو جو اذیت محسوس ہوئی وہ عظیم دعوت کی وجہ سے ہوئی یا تین آدمی کے بیٹھے رھنے سے ہوئی؟ ظاہر ہے کہ تین آدمی کے نہ جانے کی وجہ سے اذیت ہوئی ہے نہ کہ دعوت کی وجہ سے.
اگر سارے یااکثر لوگ بیٹھے رہ جاتے تب تو کسی قدر کہا بھی جاسکتا تھا کہ دعوت کی وجہ سے اذیت ہوئی. یہاں تو صرف تین آدمی ہیں جوکہ دعوت کے بغیر بھی آپ کے روم میں آسکتے تھے کیونکہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کایہ واقعہ ہے
علاوہ ازیں اگر اس ولیمہ میں زیادہ اھتمام ہوا تھا جو بقول مولانا سعد کے اپنے معمول سے ھٹ کرتھا تو کیا یہ شادی بھی گذشتہ معمول سے ھٹ کر نہیں تھی؟
ضرور یہ شادی بھی سب سے ممتاز تھی چنانچہ قرآن کہتا ہے کہ حضرت زینب بنت جحش اورنبی کریم کے درمیان جو شادی انجام پائی ہے وہ اس دھرتی پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوئی ہے
( فلماقضی زید منھا وطرازوجنکھا. أحزاب ) تو چونکہ یہ شادی ہی سب سے ممتاز تھی اسلئے ولیمہ بھی ممتاز رہا. اسے معمول سے ھٹنا نہیں بلکہ معمول کے مطابق کہا جائیگا کیونکہ اور شادی سادہ ہوئی تو ولیمہ بھی سادہ رہا اور یہ شادی ممتاز تھی اسلئے ولیمہ بھی ممتاز رہا اب اگر اس شادی کا ولیمہ سادہ ہوتا تب کہا جا سکتا تھا کہ یہ ولیمہ معمول سے ھٹ کر ہوا یعنی جیسی شادی ویسا ولیمہ کے معمول سے ھٹ کر ہوا.
بات اصل یہ ہے کہ آپ کا جوبھی عمل ہوتا وہ امت کی آسانی کے لئے ہوا کرتا تھااس لئے آپ جوبھی کرلیں اسی کو معمول کہا جائے گا ایسا نہیں کہ آجکا عمل اگر کل سے مختلف ہو تو اس کی تعبیر معمول سے ھٹ کر ہوگی کیونکہ ہم اپنے اوپر نبی کریم کو اگر قیاس کرکے کوئی تعبیر اپناتے ہیں تو پھر مولانا مودودی کے تعلق سے تعبیر کی غلطی کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے اس لئے یہاں کی تعبیر صرف اتنی ہوگی کہ ایک معمول آپ کا یہ ہے اور ایک معمول وہ ہے.. پھر مستزاد یہ کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم اپنے معمول سے ھٹے تو اذیت میں مبتلا ہوئے.
ہائے ہائے...
ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ بغیر تنبیہ خداوندی کے جوعمل بھی آپ کا ہم تک پہنچا ہے وہ یقیناً منشأ خداوندی کے مطابق ہے لہذا کسی جگہ اگر ھٹنا کہہ بھی دیا جائے تو اس عقیدے سے کہ آپ کو اسی کااشارہ تھا اور خدا پاک آپ کے اس عمل کے نتیجے میں پردہ کے احکام دینے والا تھا نہ یہ کہ سابقہ طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقہ کواپنانا آنحضور کے لئے کسی طرح بھی نقص وکوتاہی کی دلیل ہے؟
پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ آپکی دیگر ازواج کا ولیمہ کیا صرف کھجور وپنیر سے تھا؟
اور اگر تھا بھی تو کیا سب کا انداز بھی یکساں تھا؟
ہرگز نہیں. حضرت خدیجہ کے ولیمہ میں باضابطہ گائے اور ایک روایت میں اونٹ ذبح ہوئے تھے. ممكن ہے اسے بعثت سے قبل ہونے کی بنا پر رد کردیا جائے تو عام اردو کتابوں میں بھی حضرت عائشہ کا اپنی شادی کے تعلق سے یہ قول منقول ہے کہ بخدا میری شادی میں سوائے ایک چھوٹے سے پیالہ میں کھانے پینےکی چیز کے کچھ بھی نہ تھااور وہ بھی سعد بن عبادہ کے یہاں سے آیا تھا. (فضائل امہات المؤمنين 132)
اسی طرح حضرت صفیہ کا ولیمہ جن سے حضرت زینب کے بعد نکاح ہوا وہ بھی اس انداز سے تھا کہ دوران سفرہی چمڑےکا دسترخوان بچھا دیا گیا اور اعلان کردیا گیا کہ جس کے پاس کھانے کی جوچیز ہو وہ لےآئےچنانچہ کافی لوگ جمع ہوگئے اور آئٹم بھی مختلف رہے تو کیا اسے بھی معمول سے ھٹا ہوا کہیں گے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں