ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

5/9/18

یہ تجاھل عارفانہ. یہ تغافل کا شعور

*یہ تجاھل عارفانہ. یہ تغافل کا شعور*

*دعوت گمراھیت سے دین بدلےگاضرور*


از.... رضوان احمد قاسمی 
مہتمم جامعہ اسلامیہ محفوظ العلوم للبنات 
منوروا شریف سمستی پور بہار...*

ٹیلی گرام چینل پہ محبین دارالعلوم دیوبند کے نام سے مخالفین دارالعلوم دیوبند نے اپنا ایک گروپ بنا رکھا ہے جس میں مولانا سعد صاحب کی ہر اس بیان کی بے جا تاویلیں کی جاتی ہیں جس پر علماء امت کو اعتراض ہوتا ہے اور ایسی بےتکی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جنہیں دہرانا بھی ادب کے خلاف ہے چنانچہ ابھی حال ہی میں مولانا کا ایک بیان یہ آیا تھا کہ صفہ مدرسہ نہیں تھا
اس پر میں نے ایک مدلل تبصرہ کیا تھا اور احادیث وتاریخ کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ صفہ نہ صرف یہ کہ مدرسہ تھا بلکہ مدنی دور کی اولین درسگاہوں میں صفہ سرفہرست تھا۔
یہ ایک مثبت تبصرہ تھاجس میں نہ توکسی کی مخالفت تھی اور نہ ہی بے ادبی کا کوئی شائبہ. اس کے باوجود دوستوں نے اس کے رد میں کبھی بیت الخلاء کی مثال پیش کی اور کبھی کسی اور گندی جگہ کی البتہ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ اس کے رد میں کوئی تاریخی یا حدیثی دلیل پیش کردیں.....
اسی طرح ایک بیان یہ بھی آیا تھا کہ جماعت میں نکلنے کے لیے فرض روزہ بھی چھوڑنا جائز ہے. ظاہر ہے کہ اہل حق کو یہ مسئلہ کب منظور ہوسکتا تھا؟
چنانچہ اس پر بھی ایک مختصر تبصرہ میں نے کرڈالا. تو مخالفین دارالعلوم دیوبند اس پہ بھی چراغ پا ہورہے ہیں.
اور اب تو ایک دوسرا بیان یہ آگیا ہے کہ تبلیغی جماعت میں نکلنا فرض عین ہے۔
جبکہ آج تک امت کے کسی قابل ذکر عالم نے یہ جرآت نہیں دکھلائی تھی کہ جماعت میں نکلنے کو ہرشخص کے لئے فرض عین کہا ہو۔
یسے بیانات سن کر اور ان کی تاویلات کو پڑھ کر بے ساختہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ

*یہ تجاھل عارفانہ یہ تغافل کا شعور*
*دعوت گمراھیت سے دین بدلےگاضرور*

کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے بیانات دینے والے یا ان کی تاویلات کرنے والے حقیقت سے بے خبر ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جماعت میں نکلنا فرض عین نہیں ہے اسی طرح ایسا نہیں کہ انہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں ہے کہ فرض روزہ کی اھمیت کیا ہے؟
اور معمولی معمولی حیلوں کا سہارا لے کر فرض روزوں کا چھوڑنا جائز نہیں. بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی محض حق کی مخالفت کرنی ہے اور جمہور امت سے ھٹ کر ایک نئی راہ اپنانی ہے اس لیے ہر غلط بات کی تاویلیں کی جاتی ہیں اور نئے نئے شگوفے چھوڑے جاتے ہیں مگر شاید انہیں پتہ نہیں کہ تاریخ اسلامی کے ہر دور میں گمراہی وضلالت کے فتنوں نے سر ابھارا ہے اور نت نئے روپ میں دین اسلام کو بدلنے کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن اسلام کے متوالوں نے اپنی بے سر وسامانی کے باوجود تمام فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ہر فتنے کو کیفر کردار تک پہونچا کے چھوڑا ہے
یہ الگ سی بات ہے کہ زیر بحث گمراھیت کا انداز ماضی کے فتنوں سے یقیناً جدا گانہ ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ علماء حق کی زبان وقلم میں زنگ لگ چکا ہے اور عوام الناس کا مزاج دیکھ کر علماء حق کو سانپ سونگھ گیا ہے.
نہیں نہیں ہرگز نہیں.
بلکہ ہم تو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ

*اے وقت مجھکو کھو کھلی دیوار مت سمجھ*
*صدیوں سے زلزلوں کے مقابل رہا ہوں میں*

(1) اب نئے بیان ہی کو دیکھئے کہ جماعت میں نکلنے کو جب فرض عین کہا گیا تو مخالفین دارالعلوم دیوبند بنام محبین دارالعلوم دیوبند نے اس کے ساتھ یہ دلیل چسپاں کر دی کہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی محمودیہ میں یہی لکھا ہے چنانچہ جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 203اور 204 پہ ایک سوال یہ ہے کہ تبلیغ اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟
اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت نے لکھا ہے کہ تبلیغ ہر زمانے میں فرض رہی ہے اور آج بھی فرض ہے.
اب اس عبارت کو دیکھ کر ہرکوئی یہی کہے گا کہ یہ فتویٰ تو خود دارالعلوم دیوبند کا ہے ایسا نہیں کہ کوئی نیا مسئلہ بیان کیا گیا ہے مگر ہمارے دوستوں کی خیانت تو دیکھئے کہ اسی فتویٰ میں آگے کا جملہ انہوں نے گول کردیا کیونکہ آگے اس فرض کی حیثیت بھی متعین کر دی گئی ہے کہ فرض علی الکفایہ ہے یعنی امت کے کچھ لوگ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تبلیغ کرتے رہیں تو کافی ہے.
مگر چونکہ اس جملہ سےان کا دعویٰ سراسر ریت کا گھروندا بن جاتا اس لئے اسے غائب کردیا.
اچھا چلئے یہاں تو صرف ایک جملے کی بات تھی مگر آگے اسی جلد نمبر 4 کے صفحہ 208 کا فتویٰ تو ہمارے دوستوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے کیونکہ وہاں سائل نے یہی سوال کیا ہے کہ کیا تبلیغی جماعت میں جانا فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟
تو حضرت نے جواب دیا ہے کہ تبلیغ میں جانا فرض عین نہیں ہے البتہ دین سیکھنا فرض عین ہے الخ.
لیجئے فتاوی محمودیہ کی عبارت سے جو یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کا قدیم فتویٰ بھی یہی ہےاس کی درگت آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے
یہ تو مخالفین دارالعلوم دیوبند کا مستور چہرہ تھا کہ جس کتاب کی عبارت پہ انہیں ناز ہے اسی کتاب کے ایک صریح فتویٰ نے ان کا پردہ فاش کردیا لیکن اسی پردہ دری پہ بات ختم نہیں ہوتی.
بلکہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ فرض عین کا بیان دینے والے نے اپنے گھڑے ہوئے مسئلہ کی دلیل کیا دی ہے؟
تو آئیے دیکھئے کہ مولانا سعد صاحب نے اپنے بیان میں اس مسئلہ کی دو دلیل پیش کی ہے پہلی دلیل یہ ہے کہ جماعت میں جو بھی چیزیں سکھائی جاتی ہیں ان سب کو سیکھنا فرض عین ہے تو جماعت میں نکلنا فرض عین کیوں نہیں ہوگا؟
اور دوسری دلیل یہ دی ہے کہ ہروہ چیز جو اپنے لئے ہوتی ہے وہ فرض عین ہوتی ہے اور جو دوسروں کے لیے ہوتی ہے وہ فرض کفایہ ہوتی ہے اور چونکہ جماعت میں نکلنا اپنے لئے ہے اس لیے یہ بھی فرض عین ہے.
حضرت والا کے طرزاستدلال پر غور فرمائیے کہ فرض عین اور فرض کفایہ کی یہ خود ساختہ تعریف دنیا کے کسی بھی فقیہ یا مفتی کی دکان میں نہیں.
اور اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں میرے علم کے مطابق کوئی ایسی کتاب نہیں جہاں فرض عین وفرض کفایہ کو اس طرح مدلل کیا گیا ہو بلکہ یہ تو نئے مجتہد کی نئی شان ہے اور نئے امام کی نئی دریافت ہے اس لیے بیٹھ کے سر دھنئے اور کچھ مت کہئے
کیونکہ اگر آپ کہنے پہ آئیں گے تو آپ کو جماعت کا مخالف ٹھہرا دیا جائے گا حالانکہ بات جماعت سے نہیں. ایک خطیب سے ہے. اور مسئلہ جماعت کا نہیں. بنگلہ والی مسجد نظام الدین کے امام و خطیب کا ہے لیکن کیا کیجئے کہ اس گمراہ  مسئلہ پر خاموش رھنا بھی بے ضمیری سے کم نہیں. 
ذرا استدلال پر ایک بار نظریں دوڑائیے اور انصاف سے بتائیے کہ دنیا کا کون سا مزدور ہے جو اپنے لئے مزدوری نہیں کرتا؟
کون سا تاجر ہے جو اپنے لئے تجارت نہیں کرتا؟
اور کون سا پیشہ ہے جس کے پیشہ ور اپنے لئے اسے نہیں اپناتے؟
لہذا حضرت والا کے استدلال سے تو ہر جائز مزدوری بھی فرض عین ہوگی.
ہرجائز تجارت بھی فرض عین بن جائے گی اور ہر جائز پیشے کو فرض عین کہنا پڑے گا.
اب آپ خود ہی بتلائیے کہ مثلاً مزدور نے اگر تجارت کو چھوڑا ہے تو اس نے فرض عین کو چھوڑا یا نہیں؟
اور کسی بھی فرض عین کو چھوڑنے کا حکم کیا ہوگا؟
اس کا فیصلہ خود آپ کے ہاتھوں میں ہے.
اسی کو دوسری دلیل کے طرز استدلال سے بھی پرکھ لیجئے کہ ایمان کا سیکھنا اور قرآن کا سیکھنا چونکہ فرض عین ہے اس لیے ان کے سیکھنے سکھانے کی درسگا ہیں قائم کرنا بھی فرض عین ہے اور ہرشخص کے لئے فرض عین ہوگا کہ وہ مدارس ومکاتب قائم کرے ورنہ فرض عین کا تارک قرار پائے گا....... العیاذ باللہ........

*اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا*
*لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں*

(2)  ٹیلی گرام چینل کے مذکورہ بالا گروپ میں کوئی صاحب ہیں ملا جاھل تبلیغی
جنھوں نے کسی خاص مقصد کے تحت اپنے اصل نام کو چھپا رکھا ہے انھوں نے سفر میں فرض روزہ چھوڑنے کی وکالت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے اور روزہ رکھنے میں کوئی ثواب نہیں.
اور پھر ایک حدیث بھی چسپاں کر ڈالی ہے کہ لیس من البر الصیام فی السفر.
اسی پر بس نہیں بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری سے چند اقتباسات بھی جڑ دئیے ہیں تا کہ لوگوں کو دھوکہ دینا آسان ہوسکے.
مگر انہیں کیا خبر؟
کہ دوسروں کو دھوکہ دینے کے بجائے خود آپ نے دھوکہ کھایا بلکہ جان بوجھ کر آپ نے اغماض سے کام لیا ہے. کیا آپ نہیں جانتے کہ اس حدیث کا شان ورود کیا ہے؟
اور کس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے؟
خود حافظ ابن حجر نے اسی جگہ پوری تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ ایک غزوہ کا ہے جو غالباً غزوہ حنین تھا. اسی سفر میں دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے اور ایک صاحب روزہ سے نڈھال ہوکر کسی درخت کے نیچے پڑے ہیں لوگ انہیں گھیرے ہوئے ہیں تب آپ نے فرمایا کہ ایسے موقع پر اللہ کی دی ہوئی رخصت کو اپنانا ضروری ہے اور ایسے وقت روزہ رکھنے میں کوئی نیکی نہیں.
یہ وہ تشریح ہے جوفتح الباری میں بھی ہے اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے( مثلاً الترغيب والترھیب للمنذری جلد 2 ص86 حدیث نمبر 1602)
مگر افسوس کہ ملا جاہل تبلیغی نے غزوہ کے سفر کو تبلیغی سفر سمجھ لیا اور اس روایت کےذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے حالانکہ مسئلہ بالکل برعکس ہے چنانچہ علامہ شامی یہ فرماتے ہیں کہ
*ویندب لمسافر الصوم لآیۃ وان تصوموا خیر لکم* (شامی جلد 2 صفحہ 423)
اسی لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسی کئی فتاوے موجود ہیں کہ دوران سفر روزہ رکھنا أفضل ہے چنانچہ تمثیلا صرف دو فتوی سامنے رکھتے کہ
*سئل أنس عن الصوم فی السفر فقال إن أفطر فرخصۃ وان صام فالصوم أفضل*(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 8974)
اسی طرح حضرت عثمان بن ابوالعاص نے فرمایا
*الصوم فی السفر أفضل والفطر رخصۃ* (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 8983)
لہذا یہ تاثر دینا کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے بالکل غلط مسئلہ ہے بلکہ درست اور صحیح بات یہ ہے کہ سفر میں اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو روزہ رکھنا ہی أفضل ہے اسی طرح جس مقصد کا سفر ہے اگر روزہ کی حالت میں بھی مقصد میں کوئی خلل نہ آئے تب بھی روزہ رکھنا ہی أفضل ہے۔
ورنہ تو ہر گرمی کے روزوں میں جماعت میں نکل جائیے اور سردی کے زمانہ میں اس کی قضا کرلیجئے۔
خوب رہا آپ کا تقوی اور قابل تعریف ہے آپ کا یہ سفر۔
اے دوست!
ذرا یہ بھی تو سوچو کہ رمضان آتا ہے روزہ رکھوانے کے لئے. مگر آپ کا یہ مسئلہ لوگوں سے گرمی کے رمضان میں سفر کروائے گا۔
تو کیا رمضان کی آمد سفر کے لیے ہوگی یا روزہ کے لئے ہوگی؟
محقق علماء تو یہ کہتے ہیں کہ رمضان کی آمد پر ہر چیز سے یکسو ہوجاؤ تا کہ روزے میں کوئی خلل نہ آئے
چنانچہ اپنی آنکھوں سے دبیز پردہ ھٹانے کے لئے یہ فتویٰ بھی سامنے رکھئے کہ مشہور تابعی حضرت ابن سیرین نے حضرت عبیدہ سے سوال کیا کہ
*اسافر فی رمضان فقال لا
یعنی کیا میں رمضان میں سفر کر سکتا ہوں تو آپ نے فرمایا نہیں*(مصنف ابن ابی شیبہ 9006)
رضوان احمدقاسمی 29 مئی 2018
RaddeFST+3


مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم