فتویٰ کی ناقدری کرنے والے اپنی خیر منائیں
(رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار)
عوام تو عوام ہیں، بے ضمیر علماء بھی اسی صف میں کھڑے ہیں کہ اپنے مفادات کے آگے نہ شریعت کا پاس ولحاظ ہے، نہ عاقبت کا کوئی خوف، زبان بولتی ہے مگر متاع قلیل کے لئے، قلم چلتا ہے مگر سیم و زر کے واسطے، اور چلت پھرت ہوتی ہے مگر دنیوی فوائد کے حصول کی خاطر۔
دارالعلوم دیوبند نے جب کسی پر گمراہی کا فتویٰ دے دیا، ازھر ھند نے جب کسی کو غلط ٹھہرا دیا اور مادر علمی نے جب کسی کو بھٹکا ہوا بتلا دیا، تو اب اسی مادر علمی سے اپنا رشتہ جوڑنے والوں کے لئے کچھ سوچنا ہی نہیں تھا، اور شبھات وتشکیک کے قریب پھٹکنا بھی زیبا نہ تھا، کیونکہ یہ فتویٰ کسی ایک دو فرد کا نہیں. ادارہ کا ہے. دوچار فرد کی آواز نہیں. پورے دارالعلوم کی ہے، اور چند معتوب بزرگوں کا فیصلہ نہیں. دارالافتاء کی پوری باڈی کا فیصلہ ہے. اس کے باوجود
*شورزاغوں نے یوں گلشن میں مچا رکھا ہے*
*نغمہ بلبل وقمری کو دبا رکھا ہے*
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ آجانے کے بعد خود وہیں کے کسی مفتی کی بھی رائے اگر اس فتویٰ کے خلاف ہو تو بھی وہ فقط ایک ذاتی رائے کہلائے گی. دارالعلوم کا فیصلہ نہیں کہلائے گا، اسی لئے پوری دنیا کے دارالافتاء نے اس فتویٰ کی تائید و تصویب کی ہے مگر افسوس کہ خود ہمارے ضمیر فروشوں نے بے ضمیری کی حد پار کردی ہے. اور بغیر تحقیق کے فتویٰ جاری کردینے کا شور مچارکھا ہے....
کاش کوئی دوسرا عنایت اللہ التمش پیدا ہوجائے تاکہ
*داستان ایمان فروشوں کی*
اگلی جلدیں لکھنا شروع کر دے اور ایمان فروش اور علم و تحقیق سے یتیم مولویوں کی داستان بے ضمیری کو بے نقاب کردے،
کسی مفتی کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ استفتاء کی تحقیق بھی کرے. اور پوچھے گئے سوال کی اس طرح جانچ پڑتال بھی کرے کہ نفس الأمر میں یہ سوال صحیح ہے بھی یا نہیں؟
اسی لیے جواب دیتے وقت یہ لکھا جاتا ہے کہ *بشرط صحت سوال* اب جن لوگوں نے مولانا سعد کے تعلق سے استفتاء کیا ہوگا تحقيق کی ذمہ داری ان کی ہے نہ کہ دارالعلوم کی......
یہ الگ سی بات ہے کہ سالہا سال سے موصوف کو سمجھایا جاتا رہاہے. انہیں غلط تفسیر اور بے سر و پیر کے اجتہاد سے روکا جاتا رہا ہے اس کے باوجود جب ان صاحب نے رضاء و تسلیم کے بجائے باغیانہ تیور دکھلایا تو پھر دارالعلوم نے اپنا فتویٰ جاری کردیا.
اب ایسے میں کوئی بتلائے تو سہی....
کہ تحقیق کسے کہیں گے؟
اور غور و فکر کا معیار کیا ہوگا؟
کیا تحقیق یہی ہے کہ غلط کو غلط نہ کہا جائے؟
شر کو خیربتلایاجائے؟
اور گمراہی کو ہدایت کا نام دیا جائے؟
اے ضمیر فروشو!
اگر تم صرف مولانا سعد کے خاندانی پُرکھوں کو مانتے ہو تو آؤ دیکھو کہ ان کے بڑوں نے کسی بھی فتویٰ کی ناقدری پر کیا تیور دکھلایا ہے؟
اور کسی بھی فتویٰ کے خلاف ادنیٰ سی لب کشائی پرکتنی سخت پکڑ کی ہے؟
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی کے ملفوظات میں ہے کہ
*ایک بزرگ حافظ فخرالدین صاحب حضرت سہارنپوری کے مجاز غازی آباد ریلوے میں ملازم تھے مسلم لیگ کے حامی تھے اسی زمانہ میں عنایت اللہ مشرقی لیڈر خاکسار تحریک کے خلاف فتاویٰ شائع ہوئے کہ اس کے عقائد غلط ہیں ادھر مسلم لیگ نے اس جماعت کو تحریک آزادی کے سلسلہ میں اپنے ساتھ شریک کرلیا اسی دوران سہارنپور حضرت شیخ الحدیث کی مجلس میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب اور انھیں حافظ فخرالدین صاحب کی موجودگی میں خاکساریوں کا ذکر آگیا کسی نے کہا کہ ان کے خلاف تو فتاویٰ شائع ہو رہے ہیں اس پر حافظ صاحب موصوف نے کہا کہ ارے فتویٰ تو چلتے ہی رھتے ہیں. فتووں کا کیا؟
اس پر شیخ نے تیور بدل کر فرمایا کہ یہ آپ نے کیا کہا؟
مجھے خطرہ ہے کہ آپ کی نسبت نہ سلب ہوجائے یعنی شرعی فتاویٰ کے بارے میں لا ابالی پن سے ایسا کہہ دینا بے محل جرآت ہے غیر عالم کو فتاویٰ پہ تنقید کا حق نہیں اس پر حافظ صاحب نے بار بار استغفار پڑھا...... اور کوئی لفظ نہیں کہا پھر بعد میں مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ ہم تو میاں زکریا کے تیور بدلے ہوئے دیکھ کر سہم گئے تھے ان کی ہمت تھی کہ ایسے بڑے شیخ کو ایسا کہہ دیا
(ملفوظات فقیہ الامت اول قسط ثالث ص 96/944)
اس واقعہ سے عبرت لیجئے اور سوچئے کہ حافظ فخرالدین صاحب بھی اسی شیخ کے مجاز ہیں جن کے مجاز حضرت شیخ الحدیث ہیں. اور مجلس میں حضرت مولانا الیاس بھی تشریف فرما ہیں. نیز ایسا لگتا ہے کہ حافظ صاحب نے شاید یوں ہی کہہ دیا تھا اس کے باوجود شیخ الحدیث کا جملہ کیا ہے؟
کہ کہیں آپ کی نسبت نہ سلب ہوجائے،
جبکہ آج کل چند کتابوں کے کالے کالے حروف پڑھ لینے والے بلکہ صرف ڈگری کے لیے مدرسوں میں وقت گذارنے والے. نہ جانے کیا کیا بول رہے ہیں. دارالعلوم کے فتوی کا وزن کم کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں اور عوام کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ میٹنگیں کر رہے ہیں. کیا ایسے لوگوں سے علم وعمل کی نسبت سلب نہیں ہوگی؟
یاد رکھئے کہ اگر آپ کو کسی فتویٰ میں علمی سقم نظر آئے تو براہ راست اس ادارے سے رابطہ قائم کیجئے جس نے وہ فتویٰ جاری کیا ہے نہ یہ کہ اس کے خلاف آوازیں کسئے اور اپنی عاقبت کو خراب کیجئے .اس لئے کہ دارالعلوم کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا.
ان شاء اللہ.
البتہ ہماری آخرت ضرور بگڑجائے گی.
خدارا عقل کے ناخن لیجئے اور ضمیر فروشی کو چھوڑ کر خود داری کا دامن تھامئے _
20 اکتوبر 2018ء مطابق 10 صفر 1440ھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں