ایک جہالت کا جواب
حال ہی میں مولانا سعد نے ولیمہ پر بات کرتے ہوے یہ فرمایا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس بات پر فخر کرتی تھی کہ ان کی شادی میں روٹی اور گوشت کھلایا گیا، جبکہ تفسیر ابن کثیر اور سیرت مصطفی میں فخر کی جو تین وجوہات مذکور ہیں اس میں روٹی اور گوشت کا ذکر نہیں ہیں، اور دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ سنت کھجور پنیر وغیرہ کھلانا ہے، تو یہ بات بخاري (5167) و مسلم (1427) کی حدیث کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "أولم ولو بشاة" ولیمہ کرو اگر چہ ایک بکری کے ذریعہ، لہذا اگر کھجور وغیرہ کھلانا سنت ہے تو پھر رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے بکری کا حکم کیسے دیا؟
اور مذکورہ بخاري ومسلم کی حدیث کی شرح میں مذکور ہے:
"ويستفاد من السياق طلب تكثير الوليمة لمن يقدر، قال عياض: وأجمعوا على أن لا حد لأكثرها، وأما أقلها فكذلك، ومهما تيسر أجزأ، والمستحب أنها على قدر حال الزوج، وقد تيسر على الموسر الشاة فما فوقها،"(فتح الباري للعسقلاني)
" وقوله صلى الله عليه وسلم : ( أولم ولو بشاة ) دليل على أنه يستحب للموسر أن لا ينقص عن شاة . ونقل القاضي الإجماع على أنه لا حد لقدرها المجزئ بل بأي شيء أولم من الطعام حصلت الوليمة . وقد ذكر مسلم بعد هذا في وليمة عرس صفية أنها كانت بغير لحم . وفي وليمة زينب أشبعنا خبزا ولحما وكل هذا جائز تحصل به الوليمة ، ولكن يستحب أن تكون على قدر حال الزوج."(المنهاج شرح مسلم للنووي)
"قال القاضي: والإجماع أنه لاحد لقدرها المجزئ"(إكمال المعلم: ٤/٥٨٨)
"قال الخطابي: الشاة للقادر عليها وإلا فلا حرج، قد أولم صلى الله عليه وسلم على بعض نسائه بسويق وتمر."(أعلام الحديث: ٢/٩٩٥)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں