ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

7/2/19

تبلیغی جماعت کو بچانے کے لیے بت شکنی ضروری ہے

تبلیغی جماعت کو بچانے کے لیے بت شکنی ضروری ہے


کچھ دنوں کے بعد یہ بھی سننے کو مل جائے کہ نظام الدین کی حاضری ایک عمرہ کا ثواب ہے۔ یا مسلمانوں کو اب فلاں پارٹی کو ووٹ دینا چاہئے اور نظام الدین کی حیثیت ڈیرہ سچا سودا اور مولانا سعد کی بابا رام رحیم بن جائے۔


از: حفیظ نعمانی

اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ حضرت مولانا الیاسؒ نے دین کی دعوت کے لئے تبلیغی جماعت جیسی ایک تنظیم بنائی اور سب سے پہلے ہریانہ کے میوات کے ان مسلمانوں کو نئے سرے سے مسلمان بنایا جن کا رہن سہن، کھان پان، مرنا جینا، شادی بیاہ، ہر چیز ایسی ہوگئی تھی جیسی وہاں رہنے والے ہندوئوں کی تھی۔
حضرت مولانا کو برسوں لگ گئے لیکن انہوں نے سنگلاخ زمین میں اسلام کے پیڑ میں ایسا قلم لگادیا جو ایک تناور درخت نہیں باغ بن گیا۔ اور اس کے بعد مولاناؒ نے ان کو صرف عبادت تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دین کا داعی بنا کر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں جماعت بنا بنا کر بھیجا اور وہ میواتی جو سر سے پائوں تک نیچے درجہ کے دیہاتی تھے دین کے داعی بن گئے۔

حضرت مولانا الیاسؒ نے میوات سے فارغ ہو کر حضرات علماء کو آواز دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی حضرت مولانا الیاسؒ سے ملنے اور ان کی دعوت کو سمجھنے کے لئے دہلی گئے تھے۔ اور یہ بھی تاریخ کا ایک ورق ہے کہ حضرت مولانا الیاسؒ نے مولانا منظور نعمانی کے لئے خاص طور پر دعا کی اور اجتماعی دعا کی تھی کہ وہ آکر تبلیغ کے کام میں لگ جائیں۔ اور یہ سب کو معلوم ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی آیا تھا کہ ملک کے جس میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی تھے سیکڑوں ممتاز عالم جماعت کے کام میں ایسے لگے تھے کہ اتنے عالم جمعیۃ علماء میں بھی نہیں ہوں گے۔

یہ صرف تبلیغی جماعت کا کارنامہ ہے کہ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جس کے ہر لڑکے کیلئے مسٹر جناح قبلۂ عالم تھے اور مسٹر جناح نے تمام لڑکوں کو بدتہذیب، بدتمیز اور بد لحاظ بنا دیا تھا جن کے منھ سے علمائے کرام کے لئے صرف شرمناک جملے نکلتے تھے ان ہی لڑکوں کو نہ صرف نماز روزے کا پابند بنایا بلکہ مسلم یونیورسٹی کو تبلیغی جماعت کا ماڈرن مرکز بنا دیا اور جماعت نے جو پوری دنیا میں اسلام پھیلایا یورپ، امریکہ، افریقہ، چین، جاپان، روس اور آسٹریلیا میں ہزاروں کو مسلمان بنایا وہ صرف مسلم یونیورسٹی کے قابل پروفیسروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طالب علموں کا کارنامہ ہے۔

چند روز پہلے پروفیسر اخترالواسع صاحب کا ایک مضمون انقلاب میں نظر سے گذرا۔ انہوں نے دل کے درد کے ساتھ تبلیغی جماعت کے قضیہ پر روشنی ڈالی ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ وہ جو جماعت کی چھ باتیں بنیاد مانی جاتی ہیں ان میں ایک اکرام مسلم پر ہی سب کو جمع کرلیا جائے تو قضیہ کم ہوسکتا ہے۔

اختر الواسع صاحب علیگ ہیں اور انہوں نے اپنی مادر علمی میں جماعت کے کام کو اور اس کے اثر کو دیکھا ہے۔ اور وہ تمام حضرات جنہوں نے حضرت مولانا یوسف صاحبؒ اور حضرت مولانا انعام الحسنؒ کا دَور دیکھا ہے وہ تصور نہیں کرسکتے کہ آج بات کہاں سے کہاں پہونچ گئی ہے؟
حضرت مولانا انعام الحسنؒ تک جانشینی اور مجاوری نہیں تھی۔
ہمارے والد مولانا منظور نعمانیؒ کے اندر محبت بہت تھی مگر مروّت بالکل نہیں تھی۔ حضرت مولانا الیاسؒ کے آخری دنوں میں وہ دہلی میں ان کے پاس تھے ان ہی دنوں میں انہوں نے ملفوظات مولانا الیاس جمع کئے تھے۔ اور یہ بھی دیکھا تھا کہ فرزند ہونے کے باوجود حضرت مولانا یوسف صاحب باپ سے بس بلانے پر ملتے تھے یہ بات سب کو عجیب لگتی تھی۔ حضرت مولانا نے ایک دن یوسف کو بلایا اور فرمایا آ یوسف گلے لگ جا اب ہم جارہے ہیں۔ (الفاظ میں فرق ہوسکتا ہے) مولانا یوسف گلے لگے تو دیر تک والد نے چمٹائے رکھا اور دعا کرتے رہے۔

حضرت مولانا الیاسؒ کا اسی رات یا دوسرے دن انتقال ہوا تو جو حضرات علماء جمع تھے ان سب نے مشورہ کرکے مولانا یوسف صاحب کو جانشین منتخب کرلیا۔ یہ والد نے خود بتایا کہ مجھے بہت دُکھ ہوا کیونکہ وہ صرف بیٹے تھے اور ان کو جانشین بنانا وہی رسم ہوئی کہ باپ کے بعد بیٹا۔ لیکن صبح فجر کے بعد جو مولانا یوسف صاحب کھڑے ہوئے اور تقریر کی تو محسوس ہوا کہ وہ زبان سے نہیں دل سے بول رہے ہیں اور ہر ایک نے مانا کہ واقعی جانشین ہیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ملک اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جو کام بھی ہوا وہ صرف مولانا یوسفؒ کا کارنامہ ہے۔ مولانا یوسف صاحب کے زمانہ میں مولانا عبید اللہ بلیاوی، مولانا پالن پوری اور درجنوں عالم رہتے بھی تھے اور آتے جاتے بھی تھے۔ مولانا انعام الحسن صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ جتنا کام پھیل گیا تھا اس کو انہوں نے سنبھالے رکھا بکھرنے نہیں دیا۔ جماعت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سب کے بڑے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ صاحب نہیں رہے اور ایسا کوئی نہیں رہا جو اتنے بڑے کام کو سنبھال سکے۔ حضرت مولانا یوسفؒ کے پوتے مولوی سعد تحریک نہیں چلا رہے دُکان چلا رہے ہیں، انہوں نے بنگلہ والی مسجد نظام الدین کو خواجہ غریب نواز اجمیر کے مزار، دیویٰ میں حاجی وارث علی شاہ کے مزار، سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی کے مزار کی طرح آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ مکہ مدینہ کے بعد اگر کوئی جگہ قابل احترام اور قابل اجتماع ہے تو وہ صرف نظام الدین ہے۔ اور کہنا کہ نظام الدین کے بارے میں غلط سوچنا مکہ مدینہ کے بارے میں غلط سوچنے کے برابر ہے۔ اور اسی طرح کے بیان ایسے ہی ہیں جیسے بریلی کے مولانا احمد رضا خاں کے ماننے والوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اجمیر جانے کے بجائے بریلی آنا چاہئے۔

پروردگار نے اتنی عمر دی ہے کہ ملک کے پہلے عالمی اجتماع بھوپال میں ہونے والے سے لے کر اب تک کے ہونے والے اکثر اجتماعات کا علم ہے۔ اپنی زندگی میں یہ تو سنا کہ ضلع کا ڈی ایم کہہ رہا ہے کہ اتنی بڑی ریلی ہورہی ہے اور ہم معلوم کررہے ہیں کہ کس چیز کی ضرورت ہے تو جواب ملتا ہے کہ کچھ نہیں۔ مراد آباد کے ڈی ایم اجے وکرم سنگھ نے ہم سے کہا کہ بجلی پانی ٹریفک سیکورٹی کوئی خدمت تو لے لیں۔ ہم نے کہا تھا کہ یہ اللہ والے ہیں ان کا ہر کام اللہ کرادیتا ہے آپ تو بس دیکھتے رہئے۔ اور اب جگہ جگہ سے خبر آرہی ہے کہ فلاں جگہ عالمی اجتماع کیلئے سرکار نے 10  کروڑ روپئے دیئے ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد یہ بھی سننے کو مل جائے کہ نظام الدین کی حاضری ایک عمرہ کا ثواب ہے۔ یا مسلمانوں کو اب فلاں پارٹی کو ووٹ دینا چاہئے اور نظام الدین کی حیثیت ڈیرہ سچا سودا اور مولانا سعد کی بابا رام رحیم بن جائے۔ جماعت سے متعلق ایک عالم نے ہم سے کہا کہ 10  کروڑ کی خبر کہاں سے آئی ہم نے الفرقان اور منصف اخبار کا نام بتا دیا۔ اس کے بعد ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا سعد دماغ سے پیٹ سے اور زبان سے بولتے ہیں جبکہ جماعت کو زمین سے آسمان تک انہوں نے پہونچایا جو دل سے بولتے تھے۔ آج پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں زلزلہ آیا ہوا ہے اور تینوں ملکوں کے عالم کسی بھی طرح جماعت کو اس کے راستے پر لانا چاہتے ہیں، لیکن ہماری اطلاع یہ ہے کہ وہ طبقہ جو شیطان کا پیرو ہے اس نے مولانا سعد کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، اب اگر کوئی فیصلہ کام کرسکتا ہے تو نظام الدین کے بت کو توڑا جائے۔ اور یہ کام وہ علماء ہی کرسکتے ہیں جو پاکستان میں اور بنگلہ دیش میں مصالحت کی تجاویز لئے گھوم رہے ہیں۔ وہ اب جن ہاتھوں میں پھنس گئے ہیں وہاں سے نہیں نکل سکتے۔ اس لئے کہ وہ سب سے مقبول کام والوں کے سجادہ نشین بن چکے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم