تبلیغی جماعت کا اختلاف اور ندوہ کا موقف
جماعت تبلیغ کے اختلاف سے قبل ششماہی وسالانہ تعطیلات کے مواقع پر ندوہ میں ہمیشہ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب تشریف لایا کرتے تھے، مسجد میں انکا زوردار عمومی بیان ہوتا تھا اور سلیمانیہ زیریں میں ہمیشہ اساتذہ کو بھی خطاب کرتے تھے اور سینکڑوں طلبا جماعت کے لیے وقت فارغ کرکے نکلتے تھے، یہی نہیں بلکہ ندوہ کے یا خانوادہ حسنی کے کسی استاد یا فرد کے انتقال کے موقع پر بھی مرکز سے تعزیت کے لیے حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب ہی تشریف لاتے تھے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے محبوب استاد حضرت مولانا عبدا اللہ حسنی مرحوم کے انتقال کے بعد تعزیت کے لیے مولانا لاٹ صاحب ہی تشریف لاٸے تھے اور خانوادہ حسنی کی مستورات کے درمیان بھی انکا تعزیتی بیان ہوا جو بہت پسند کیا گیا تھا اور دارِعرفات کے آرگن پیام عرفات کے داعٸ اسلام نمبر میں شاٸع بھی ہوا تھا اس بیان کو آج بھی داعٸ اسلام نمبر میں پڑھا جا سکتا ہے۔
لیکن جماعت کے اختلاف کے بعد ندوہ کی انتظامیہ نے جو رویہ اختیار کیا وہ بہت افسوسناک ہے مولانا سعد صاحب کی خاموش تاٸید وحمایت کرنا یہاں تک کہ انکے بیٹوں کا حد درجہ اعزاز واکرام اور نوجوان لڑکوں تک کا ندوہ کی مسجد میں اساتذہ وطلبا کے درمیان خطاب ہونا اور طلبہ ندوہ کو تبلیغی جماعت میں شمولیت پر حددرجہ ترغیب وتحریض، گویا کہ ندوہ کا قیام و وجود ہی صرف دعوت کی موجودہ شکل کے لیے، افراد وکارکنان تیار کرنے کے لیے ہوا ہو، ممتاز علماء وصلحا اور عالم اسلام کے دعاة وماہرین فن کی ندوہ آمد کے موقع پر طلبا کے درمیان انکا خطاب ومحاضرہ اور تاثرات کا اظہار تو ندوہ کی قدیم روایت رہی ہے، لیکن مولانا سعد کے نوجوان جدید فارغ التحصیل لڑکے بھی بیان کریں اسکا کیاجواز ہے؟
یا اس سے طلبہ ندوہ کو کیا فاٸدہ؟
ان صاحبزادگان کے بیان سے طلباء کے علم وفکر میں کیا اضافہ ہوا؟
انکے خطاب سے علم وتحقیق کے کون سے دروازے کھلے؟
دوسری طرف یہ واقعہ بھی ظاہر ہوا کہ ہمیشہ کی طرح فرزندہ ندوہ اور تبلیغی جماعت میں علم وعمر تدین تقوی وصالحیت ہر اعتبار سے نمایاں مقام کے حامل مولانا لاٹ صاحب ندوہ آتے ہیں تو انکو نظر انداز کیا جاتا ہے انکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور کسی طرح کی گفتگو وبیان تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔۔۔!
مولانا محبوب صاحب اور مفتی زید صاحب کا واقعہ اور اسکے بعد کشمیر کے ندوی علماء وفضلا کے ساتھ حادثہ ندوہ کے احاطہ میں پیش آتا ہے، زید صاحب کو علمی تنقید و گرفت پر ڈرانے و دھمکانے کی کوشش ہوتی ہے اور مجرم کو بغیر کسی تادیب وتنبیہ کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کشمیری علماء کو جو شوری کے موید ہیں دہشت گرد قرار دیکر ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے، مہمان خانہ سے نکال دینے کی چال چلی جاتی ہے لیکن معاملہ کو اڑا دیا جاتا ہے۔
ان سب معاملات سے واضح ہے کہ ندوہ مکمل طور پر امارتی گروپ کا سرپرست وتابع ہے اسے مولانا سعد صاحب پر وارد اشکالات کا جاٸزہ لیکر اور اپنی شوری کے سامنے مکمل صورتحال رکھ کر فیصلہ کرانے کی کوئی فکر نہیں۔
جب جماعت کے لوگ حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمہ کا نام لیتے ہیں تو بہت تعجب ہوتا ہے، مولانا الیاس صاحب کی وفات کے بعد مولانا علی میاں نے اکابر تبلیغ کو کام میں وسعت وتنوع پیدا کرنے کے لیے کچھ مشورے دیئے تھے جو ناقابل اعتنا سمجھے گٸے تو مولانا مرحوم نے جماعت کی سرگرمیوں سے خود کو الگ کرلیا اگرچہ تاحیات جزوی تاٸید کرتے رہے اور آخر عمر میں تو تبلیغی اجتماعات میں بیانات وتقریر سے بھی حد درجہ احتراز فرمانے لگے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہیکہ جماعت تبلیغ اور اسکے اکابرین سے اہل ندوہ کا تعلق بہت قدیم ومضبوط ہے، اور اکابر تبلیغ کی سوانح عمریاں ندوی علماء کے قلم سے نکلی ہیں، عالم عربی میں بھی ندوی علماء نے جماعت کا بہترین تعارف کرایا ہے اور جماعت کی رہنمائی میں اہل ندوہ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو لگایا ہے۔
لیکن کیا خانوادہ کاندھلہ وجماعت کے ساتھ اس قدیم تعلق کی وجہ سے م سعد ص کی مکمل تاٸید وحمایت کا اور ان پر علمی تنقید کرنے والوں کی تذلیل تحقیر وتوہین اور اہل شوری کی مخالفت کا جواز پیدا ہو جاتا ہے؟
ہمیں امید ہیکہ ندوہ میں شہرت اور مادی مقاصد حاصل کرنے، اور اسکی پر سکون علمی ومطالعاتی فضا اور تحقیقی وتخلیقی صلاحیتوں کو دفن کردینے کی جو سازشیں ہورہی ہیں، اور بانیان ندوہ کے افکار اور قیام ندوہ کے مقاصد واہداف سے بغاوت وانحراف کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس پر روک لگے گی، اور ندوہ کے چوٹی کے اکابرین وذمہ داران تمام حقاٸق سے واقف ہو کر اور جماعت کے اختلاف کے اصل اسباب وحقاٸق کا تجزیہ کر کے جماعت کے بارے میں زیادہ بہتر اور زیادہ ذمہ دارانہ موقف اختیار کریں گے۔۔۔ انشاء اللّٰہ
حررہ العبد الضعیف ک ا ن (٦ فروری ٢٠١٩)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں