اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
(مولانا سلمان ندوی سے معذرت کے ساتھ ایک سنجیدہ تحریر )
اس وقت مجھے نہ ہی موجودہ تبلیغی بحران پر کوٸی گفتگو کرنا ہے اور نہ ہی شوری وامارت کی ترجیحات پر کچھ خامہ فرساٸی کرنا ہے اور نہ ہی میرا کبھی یہ موضوع رہا ہے بلکہ غیر ضروری اختلافی موضوعات اور غیر راجح عناوین پر کچھ لکھنا یا کہنا بالخصوص شوشل میڈیا پر نشر کرنا یا تو وقت گزاری ہے یا فن آزماٸی ہے۔
مجھے غیر جانبدارانہ طور پر چند گزارشات مولانا سلمان ندوی صاحب کی خدمتِ عالی میں رکھنا ہے۔
وہ یہ کہ ابھی آپ نے دعوت وتبلیغ اور مولانا سعد صاحب کی آپ سے ملاقات کے پس منظر میں ایک انٹرویو کے درمیان اصل موضوع پر گفتگو کرتے ہوٸے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے داٸرہٕ اثر اور اسکے فتاوی کے قبول وعدم قبول اور اسکے تسلیم وعدم تسلیم کے جو حدود بیان فرماٸے اور بلادِ عربیہ اور بلادِ مشرقیہ میں بلکہ خود ہندوستاں کے بعض صوبوں میں دارالعلوم کی پوزیشن پر جو تبصرہ فرمایا ہے، وہ انتہاٸی غیر اصولی اور بے بنیاد تجزیہ ہے جو کسی بھی سنجیدہ فکر اعتدال واعتبار کے حامل شخص کے لٸے بالکل غیر موزوں ہے۔
اس سلسلے میں چند طالب علمانہ معروضات مولاناٸے محترم کی خدمت میں عرض ہیں امید کہ حضرت اور مولانا کی سوچ وفکر سے اتفاق رکھنے والے ضرور غور فرماٸیں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ ہی الحمد للّہ کبھی اکابرِ دارالعلوم نے یہ دعوی کیا کہ یہ عالمی ادارہ ہے اور ہر مکاتبِ فکر کے حاملین کو یہیں سے ہر حال میں رجوع کرنا چاہٸے۔
اور یہ دعوی بھی کبھی منتسبینِ دیوبند نے نہیں کیا کہ عالمِ عرب کو یا بلادِ مشرقیہ میں آباد مسلمانوں کو بھی دیوبند کا فتوی قبول کرلینا چاہٸے اور اس پر عمل کرنا چاہٸے
فتوی کسی بھی حکمِ شرعی کے دلاٸلِ شرعیہ کی روشنی میں واضح کرنے اور اظہار کا نام ہے، جس پر کسی طرح کے کوٸی جبر واکراہ کرنیکا دارالافتاء ہرگز ہرگز روادار نہیں ہوتا اور اسی طرح کسی بھی دینی مسٸلے پر رہبری کا حال ہے جسکا جی چاہے عمل کرے اور جسے اطمینان واعتماد نہ ہو اسکی اپنی مرضی ہے۔
باقی کتاب وسنت سے منصوص بات ہوگی تو گنہگار ہوگا یا کوٸی اجتھاد ی واختلافی مسٸلہ ہے جس میں دوسرے پہلو کی بھی گنجاٸش ہے تو اسے اختیار ہے ایک بات تو یہ ہوگٸی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس ادارے کو عالمی طور پر جو شہرت یا قبولیت حاصل ہوٸی ہے یہ اسکے بانیان کے خلوص وللہیت اور اسکے فرزندان کی یادگار وبے مثال خدمات اور بے لوث کارناموں کی وجہ سے یا پھر دیگر بلاد ِاسلامیہ یا غیر اسلامیہ کے اہل علم و اہل فکر نے دارالعلوم دیوبند کی زرین خدمات اور اسکے تاریخی کارناموں کو پڑھنے دیکھنے اور آٸینہ ٕمشاھدات میں تجربہ کرنیکے بعد اسکی خدمات کو عالمی قرار دیا۔
جیسے امام حرم الشیخ عبد اللہ ابن السبیل ہیں ترکی کے ماٸناز علماء وفقہاء ہیں، اور بعض مصر وحلب کے جھابذہ علماء اور پھر ماضیِ قریب میں تشریف لانے والے اٸمہ حرمین الشیخ الشریم اور الشیخ صالح آل طالب الشیخ عبدالرحمن السدیس اور الشیخ عاٸض القرنی ہیں اسی طرح سعودیہ کے وزارتِ تعلیم واوقاف کے بہت سارے ذمہ داران ہیں، جنھوں نے اس ادارے کی عالمی خدمات کو عالمی قرار دیا اس پر خراج تحسین پیش کیا۔
اسی طرح دیوبندی فکر ومزاج کے حامل وہ عالمی شہرت یافتہ اکابر علماء جنھیں اللّٰہ تعالی نے دنیا کے چپے چپے کی سیر کراٸی ہے جیسے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے علمی و فقہی عالمی اسفار کی داستانِ سفر میں حضرت مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے کٸی اصلاحی ودعوتی بیانات میں اور اسی طرح شیخِ طریقت حضرت مولانا پیر ذو الفقار صاحب نقشبندی جیسی روحانی شخصیات نے یہ تاثر پیش کیا کہ بفضلِ الہی ہمیں سات بر اعظم گھومنے کا موقعہ ہوا ہم وہاں بھی گٸے جہاں سورج چھ چھ ماہ نہیں نکلتا ہم وہاں بھی گٸے جہاں سب سے پہلے سورج کی کرنیں پڑتی ہیں اور ہم وہاں بھی گٸے جہاں سورج سب سے آخر میں ڈوبتا ہے، مگر ہم نے الحمد للّہ ہر جگہ کسی نہ کسی بالواسطہ یا بلا واسطہ فاضل ِدیوبند کو دین وملت کی خدمت کرتے ہوٸے پایا ہے۔
سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوٸے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلاٸیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
اسی طرح کا حسنِ تاثیر عالمِ عرب وعجم کی ممتاز تاریخی وتحقیقی شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے بھی یہی تاثر پیش فرمایا
(دیکھٸے کاروانِ زندگی، جہان دیدہ، لاطینی امریکہ کا سفر، لاہور سے تاخاک بخار وسمرقند، یورپی ممالک کے اسفار) وغیرہ وغیرہ۔
معلوم ہوا کہ اکابر نے اسکا خود سے کبھی بھی دعوی نہیں کیا کہ یہ عالمی ادارہ ہے ہاں اس ادارے کی خدمات عالمی اور اسکے فرزندان کی خدمات دنیا کے کونے کونے پر محیط ہونے کی وجہ سے عالمی ادارہ قرار پایا ہے فللہ الحمد علی ذلک یہ دارالعلوم نے یا اسکے فضلإ نے نہیں طے کیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ اصولی اور قانونی طور پر آج تک کبھی بھی دارالعلوم نے اپنے حلقہ ٕاثر اور اماکن تسلیم واطاعت کی نہ ہی کوٸی تعیین کی اور نہ ہی اسکا کبھی دعوی کیا
کہ اتنی اتنی جگہ یہ فتوی چل سکتا ہے یا چلانا چاہٸے ہرگز نہیں ہمیشہ دارالعلوم نے یہی باور کرایا ہے کہ یہ ہمارا فتوی ہے ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے جس کو اتفاق ہو وہ عمل کرے اور جسے نہ ہو نہ کرے ہمارا موقف دلاٸل کی روشنی میں یہی ہے اور ہم سے اگر کوٸی پوچھے گا تو ہم یہی کہیں گے بس۔
یہی بات اس فتوے پر بھی منطبق ہوتی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اپنی بنیاد میں اکابر علماء دیوبند کے مزاج ومنہاج کی ہم آہنگ وپابند جماعت رہی ہے، بلکہ اسکے بانی اور محرکین بھی اکابرِ دیوبند ہی سے وابستہ اورانکے تربیت یافتہ رہے ہیں، انھیں کے مشوروں اور رہنماٸی سے اس جماعت کا طریقہ کار اور ترتیب مرتب ہوٸی ہے جن میں بالخصوص حضرت مولانا مفتی کفایت اللّٰہ صاحب، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، فخر المحدثین مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی، مولانا ظفر احمد تھانوی، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب قاسمی، فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی، مولانا منظورنعمانی، مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علٕی ندوی رحمہھم اللّٰہ اجمعین کا اس مبارک کام کے خدو خال درست کرنے پروان چڑھانے اور اس مبارک کام کے تعارف وتعاون میں بڑا حصہ رہا ہے اور تادم حال بھی جاری ہے۔
لھذا اول روز سے یہ جماعت دیوبندی افکار کی حامل اہل سنت والجماعت کی پابند اور انھیں کے اکابر کی پروردہ ونظم کردہ ہے
جب یہ جماعت ابتدإ ہی سے اکابرینِ دارالعلوم و مظاھرعلوم بلکہ اکابرِ ندوہ کی بھی رہبری میں چلتی آٸی ہے، تو اسکا داٸرہ کار بعد کو کہیں تک بھی کیوں نہ پہنچ جاٸے؟
یہ ادارےاور انکے اکابر اس بات کے مکمل روادار ومجاز ہیں کہ اپنی جماعت کو اکابر واسلاف کے طریقہٕ کار پر اور انھیں کے سوچ وفکر پر گامزن رکھنے کے لٸے اسکی ضرور رہمناٸی ورہبری کریں۔
اسکے لٸے دیوبند ومظاھر کے حلقہ ٕاثر اور انکے فتووں کے قبول وعدمِ قبول کے حدود گرداننے کی یا اسکی نشاندہی کرنیکی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
دارالعلوم اور اسکے اکابر اہل سنت والجماعت کی صحیح تعبیر اور اعتدالِ فکر کے ساتھ حق کی ترجمانی کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بنگلور میں اپنے ایک وقیع اور بصیرت افروز خطاب میں (جسکے گواہ مفتی سید معصوم ثاقب صاحب راے چوٹی
وغیرہ علمإ ہیں ) حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی نے فرمایا تھا کہ بر صغیر میں حق پہچانا جاتا ہے مولانا قاسم نانوتوی کے نام سے، حق پہچانا جاتا ہے رشید احمد گنگوہی کے نام سے، حق پہچانا جاتا ہے مولانا اشرف علی تھانوی رحمھم اللہ اجمعین کے نام سے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگٸی کہ دیوبند اہل سنت والجماعت کی صحیح ترجمانی کا نام ہے
اور اہل سنت والجماعت (دیوبندی مکتبہ ) فکر سے وابستہ افراد کی رہبری ورہنماٸی کے لٸے ادارے کی پوزیش کا مصر وشام مراکش ولیبیا اور امریکہ وافریقہ میں یا دیگر بلادِ ِعالم میں ہر طرح سے مقبول ومسلم ہونا کوٸی ضروری نہیں اسکا کوٸی بھی ادارہ پابند نہیں ہوتا۔
وہ اپنے سے وابستہ تنظیموں جماعتوں جمعیتوں اور تحریکات کے حد تک ضروری رہبری کرتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں یا اسکی خدمات چاند پر بھی پہنچ جاٸے۔
کیا عیساٸی مملکتوں میں اسلامی تعلیمات کی رہبری نہیں ہوتی ؟
یا سلفی المزاج ماحول میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والے کے لٸے کوٸی رہنما اصول نہیں ہیں ؟
یا شافعی وحنبلی کے لٸے نہیں ہیں ؟
پھر انڈیا میں کٸ افراد جامعہ ازہر یا مدینہ یونیورسٹی یا جامعہ ام القری وغیرہ کے فتوے کو نہیں مانتے یا ان پر عمل نہیں کرتے ؟
اسی طرح دیوبند بھی اپنی جماعت اور اس فکر سے وابستہ تمام تحریکات وتنظمیوں میں ضرور اعتبار واستناد اور استحسان کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دیکھا جاتا رہا ہے بالخصوص بر صغیر میں دیوبند کی مرجعیت سے تو آپ واقف ہی ہیں۔
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہے عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک
آخر میں ایک بات دست بستہ عرض کرتے ہوٸے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ
اگر آپ کو جناب مولانا سعد صاحب کی حمایت اور تاٸید میں کچھ کہنا تھا یا انکے تفردات ونظریات پر اپنے دلاٸل کی روشنی میں انھیں صحیح گرداننا بھی تھا تو آپ اسکے بالکل مجاز تھے اس لٸے کہ وہ آپکی فکر آپکا موقف اور آپکی دلیل؟
مگر اسکے بالمقابل دیوبند کی پوزیشن بیان کرنا اور اسکے حلقہٕ اثر کی تعیین وتخمین کرنا کم از کم آپ اور آپ جیسے نامور علمإ کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتا۔
ہم یہ بات بھی ہرگز نہیں کہتے کہ آپ دارالعلوم کی ہر بات تسلیم کریں یہ کوٸی ضروری نہیں۔
اور کوٸی بھی تسلیم نہ کریں یا دارالعلوم کی باتیں ہمیشہ انکا اپنا موقف یا انکا فتوی ایک تفرد ہوتا ہے یہ سراسر غلط ہے۔
اس لٸے کہ دارالعلوم اپنے فتوے میں کتاب وسنت کے اور جمہورِ امت کے موقف کو واضح کرتا ہے، جسکے نہ ماننے پر شریعت میں سخت وعیدیں بھی آٸی ہیں، ہاں کوٸی اجتھادی مسٸلہ ہے جس میں دونوں طرف آرإ بھی ہیں اور دلاٸل بھی تو کسی ایک پہلو کے اختیار کرنیکا ضرور حق ہے، مگر جمہور کے موقف کے مقابل میں یہ کہدیا جاٸے کہ یہ دارالعلوم کا تفرد ہے تو یہ زیادتی اور تھکم ہوگا جسکے ہم رودار نہیں ہیں۔
ہاں یہ بات غیر آٸینی نہیں ہوگی کہ آپ مولانا سعد صاحب کے کچھ نظریات وتفکرات کے سلسلے میں کسی طریقہٕ اصلاح پر یا مزید مفاہمت ومصالحت پر تبصرہ فرماٸیں تو اسکے آپ رودار ہیں کہ ایسے تنبیہ ہونی چاہٸے تھی یہ انداز اختیار کیا جانا چاہٸے تھا یا پھر تفہیم ومفاہمت کے لٸے مزید دوسری کوٸی تدابیر اپنالی جاٸیں؟
اور اس اختلاف کو کسی طرح ختم کردیا جاٸے وغیرہ وغیرہ یہ بات غور طلب ہوسکتی تھی (اور یہ بجاٸے خود مستقل قابل غور بات ہے کہ امارت وشوری جماعت کا داخلی مسٸلہ ہے دارالعلوم دیوبند فقط دینی مساٸل ونظریات کی حد تک گفتگو کرتا ہے اور رہمناٸی کرتا ہے )
طریقہ إصلاح یا دوسرے پہلو پر گفتگو کٸے بغیر نفسِ مسٸلہ ہی کو غلط قرار دیدینا یا فتوے کی پوزیشن بیان کردینا یہ کم ازکم آپ جیسے شریف النفس خانوادے اور بافیض ادارے کے استاذ کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتا اور نہ ہی اکابرِ ندوہ کا یہ طریقہ ہے اور نہ ہی ہمارے اکابر نے ایسے اداروں کی بے دھڑک پوزیشن بیان کر کے خلیج پیدا کی ہے،
بلکہ وہ تو اختلاف راٸے کے باوجود آپسی قدر و احترام کے داعی اوراس پر کار فرما تھے۔
امید کہ آپ اپنے تبصرے اور راٸے عالی پر نظر ِثانی فرما کر مزید سوچ وفکر کی راہ ہموار فرماٸیں گے اور باہمی مودت ومحاباة کی طرف توجہ فرماٸیں گے۔
وفقنا اللہ تعالی لما یحب ویرضی
یہ تحریر بھی عوام الناس کے علم اور انکی اطلاع کے لٸے ہے تاکہ مولانا کی بات کی کچھ تنقیح ہوجاٸے مولانا اپنے موقف کے متعلق وہ خود غور فرمالیں گے۔
وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العالین۔ آمین
آپکا خادم
سید حسن ذیشان قادری
راےچور کرناٹک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں