*جنازے پر امامتِ فاسق*
از: مولانا محمد توصیف قاسمی
بہت دنوں تک ہم اس مسئلہ کو صرف جماعت جیسے عالمی اور متبرک کام میں نااہلوں گھس پیٹھ سمجھ رہے تھے ، لیکن کچھ ماہ پہلے مولانا ندیم الواجدی صاحب کے ایک مضمون پر مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کا تبصرہ نظر سے گذرا ، مولانا واجدی صاحب نے جماعت کی اہمیت و معنویت کے ساتھ مبلغ اسلام مولانا شاہ محمد الیاس کاندھلوی صاحب نور الله مرقدہ کے علماء دیوبند میں عالی مرتبت اور نمایاں ہونے کا ذکر کیا تھا ، جوابی تبصرہ میں مولانا راشد کاندھلوی صاحب نے پورا زور اس پر صرف کیا کہ مولانا محمد الیاس صاحب کو علماء دیوبند میں شمار کرنا درست نہیں ، وہ علماء کاندھلہ سے ہیں .
جب یہ تبصرہ سامنے آیا تو سمجھ میں آیا کہ کاندھلہ والے کسی فکری جماعتی یا عالمی کام پر نہیں ، بلکہ علاقائی اور خاندانی بقا کی جنگ میں مولوی سعد کے جائز سے ناجائز ہر دفاع کی کوشش کر رہے ہیں .
مجھے نہایت فضول لگتا ہے کہ جس شخصیت کو دنیا علماء دیوبند میں نمایاں مقام دیتی ہے ، اور چند نسبی ، علاقائی و خاندانی حمیت کے ماروں کے تبصرے کا جواب لکھوں .
جب ایسی شخصیت جنھیں تاریخ کا شناور کہا جاتا ہے وہ اس تعصب کا شکار ہے تو خاندان کے دوسروں کا تو کہنا ہی کیا .
پیر طلحہ صاحب کی اہلیہ کی نماز جنازہ کی مولوی سعد سے کرانا ، اس پس منظر بالکل صاف ہے کہ جنھیں دنیا دھتکار رہی ہے ، جو دارالعلوم دیوبند کو مطعون کرنے کی ناپاک کوشش کر رہا ہے ، سوائے جہلاء کی ٹولی اور عہدہ پرستوں کے اس کا کوئی حامی نہیں ، اسے اگر گھر والوں نے نہ سہارا دیا تو اگلا امیر خاندان سے کیونکر بنانا ممکن ہوگا ؟
ولی عہدوں کے عقد بھی سنا ہے کہ حضرت مولانا افتخار صاحب کے گھرانے سے ہوئے ہیں ، ایسے میں مولانا طلحہ صاحب کا تنہا پڑ یا پس پردہ کرتوتوں کا شکار ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں .
جس نے اپنا حق دینی سمجھ کر اس جماعت کے ذمہ داروں کو اول دن سے سمجھانا چاہا ، اور خیر خواہانہ ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کیں ، ان سے یہ امید نہیں کہ وہ ایسے شخص کو جو بد عقیدگی پر مصر ہو امامت کو آگے بڑھائیں .
مرحومہ کا انتقال امت کے لئے رنج و غم کا اور آخرت یاد کرنے کا موقع تھا ، لیکن بے غیرتی و موقع پرستی کی حد ہے کہ جنازے کو بھی سیاست کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا.
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه ، و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه .
#محمد_توصیف_قاسمی