اہلِ باطل کی تین پہچان
از: مسعودقاسمی دھولیہ
ایک مرتبہ غالباً نسائی شریف کے درس و میں مرجعُ الاساتذہ بحرالعلوم علامہ نعمت اللہ صاحب اعظمی حفظہ اللہ و رعاہ نے فرمایا :-
اہلِ باطل کی تاریخ میں غور کرنے سے یہ تین خصوصیتیں قدرِمشترک کے طور پر نظر آتی ہے:-
1- اپنے نظریات کے علاوہ سب کو باطل کہنا۔
2 - پہلےنظریات قائم کرنا پھر نصوص سےدلائل لانا۔
3- اپنے نظریات پر شاذّاور متفرِّد اقوال کا سہارا لینا۔
جتنی بھی باطل جماعتیں اورشخصیتیں گزری ہیں ان میں غور کرنے سے بِالاِستِقراء یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ تین قدر مشترک خصوصیتیں اہل باطل کی علامت کے طور پر بن چکی ہیں ۔
پہلی علامت
جوباطل جماعت یاشخصیت بھی اپنے نظریےکو پیش کرتی ہیں وہ یہ کہتی ہے کہ یہی حق ہے اور اپنے علاوہ سب کو اہلِ حق سمیت صراحۃََ یا اشارۃََ باطل کہتی ہیں ۔
اور دوسروں کو باطل قرار دینے کے پیچھے دراصل یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ دوسروں کی نفی اورتردیدکے بغیر ہماری دوکان نہیں چمک سکتی ۔ اپنے مسلک کی ترویج ان کو دوسرے مسلک کی تردید میں نظر آتی ہے۔
مولانا احمد لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کے کسی اہلِ حق جماعت کا اپنے علاوہ دوسروں ( اہلِ حق ) کو غلط سمجھنا یہ اس اہلِ حق جماعت کا باطل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔
حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے کام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر استدراج کا اندیشہ کرکے روتے تھے ۔نیز ان کے ملفوظات میں جابجا یہ کیفیت جھلکتی نظر آتی ہے۔
نیز
دوسری علامت
یہ کہ باطل پہلے اپنے ذہن سےکسی نظریہ کی تشکیل دیتا ہے اور پھر اس کو حتمی شکل دے کر اس کے مطابق نصوص میں دلیل تلاش کرتا ہے اورکھینچ تان کر (اصولِ استدلال کی ہڈیاں توڑتے ہوئے ) کسی نہ کسی نص کو اپنے نظریہ پر منطبق کر ہی لیتا ہے۔
کیوں کہ قرآنی وحدیثی نصوص میں بہت لچک (عموم) اور ظاہری تعارُضات ہیں ۔اور نظمِ قرانی میں اسی لچک (عموم) کی وجہ سے قرآن کی تفسیرمیں ہمارے علماء متوارث (منقول ) تفسیروں کے پابندرہے ہیں جو متدا ول بھی ہوں ۔اور اس پابندی سے آزاد ہونا ہردورمیں باطل شخصیات کے لئے اپنے باطل نظریات کے اثبات اشاعت کے لئے نہایت سہل الحصول راستہ رہا ہے۔
ہمارے علماء نے علامہ مودودی وغیرہ کی تفسیروں کو اسی لئے رد فرمایا ہے کہ وہ جا بجا اپنی تفسیروں میں اس توارث و تداول کی پابندی سے آزاد پھر ٹھوکر کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نیزنصوص میں (ظاہراََ) تعارض ہوتاہے ۔ان متعارض نصوص میں جمع و تطبیق اور ترک و اختیار اور تاویل و ترجیح کے کچھ اصول و ضوابط متعین ہیں جن کی پابندی ہی انسان کو صراطِ مستقیم کی روش سے باندھے رکھ سکتی ہے۔ ان اصولوں سے آزاد ہونے کے بعد ہر کوئی ان نصوص کواپنے اپنے باطل نظریات کی دلیل بناکر پیش کرسکتا ہے۔
تیسری علامت
اہلِ باطل کی اپنے باطل نظریات کے اثبات کے لئے شاذّ اور متفرِّد اقوال کا سہارا لینا ہے۔
چونکہ قرآن پاک کی کسی ایک ہی آیت یا ایک ہی مضمون کی تفسیر میں متعدد مگرمتقارب ومزاجِ شریعت سے ہم آہنگ اقوال علماءِ تفسیر سے منقول اور ماثور ہوتے ہیں مگر انھیں تفسیری اقوال میں ایک غریب(شاذ) اور انوکھا (متفرِّد) قول بھی مل جاتاہے جو ان تمام تفسیروں سے متباعدنیزمزاجِ شریعت سے ہٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کاقائل کوئی غیر معتبر مفسر ہی ہو بلکہ کبھی کبھی ایسا شاذومتفردقول کسی معتبر اور معتمد علیہ مفسر سے بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ جیسے "کتے" کی تفسیر "شیر" سے معتبر مفسر علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے ۔اوراس میں کوئی استبعاد اور قدح بھی نہیں ہے کہ کبھی کبھی کسی صحیح الفکرمعتبر عالم کا قول تفرّد کے دائرے میں آجائے ۔اس سے اسکی معتبریت متأثر نہیں ہوتی۔
اس لئے تفسیر بالمأثورکے سلسلے میں ہمارےاسلاف کا مذاق ومزاج یہی رہا ہے کہ وہ تفسیر متوارث ہونے کے ساتھ ساتھ متداول بھی ہو۔ اوررہا شاذ ومتفرِّدقول تو وہ صرف وہ بیانِ استیعاب کے لئے ہوتا ہے نہ کہ بیانِ استدلال کے لئے۔
یعنی یہ نہیں کہ شاذ قول کو بطورِتفسیرعمومی اور عوامی حلقوں میں بیان بھی کیا جانے لگے اور اس سے استدلال بھی کیا جانے لگے۔ ہاں درسی طور پر تمام تفسیری اقوال کا استیعاب اور احاطہ کرنے کے لئے متعلقہ حلقوں میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔
مسعودقاسمی دھولیہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں