*راقم ابوخنساءالحنفی*
*جواب ملاحظہ فرمائیں:*
قسط (٨٩)
(دعوتی کام اور اس کا اسلوب)
*(اس جواب کو بھی علماء کرام اور ہر تبلیغی ساتھی تک پہونچائیں تاکہ حقیقت حال کا علم ہوسکے)*
*اسکو نمبروار بیان کرتے ہیں:*
*1.یہ دعوٰی کہ سعد کے بیانات میں جو قابل اشکال چیزیں تھیں اسکا مسئلہ مفتیان کرام سے مل کر حل کر لیا گیا ہے، خیانت اور دجل ہے اور ایک گمراہ شخص کے اعتماد کو زبردستی بحال کرنے کی ناکام کوشش ہے. سعد صاحب پر گمراہی کا فتوی لگا ھوا ھے اور ابھی تک سعد صاحب نے اس سے رجوع نہیں کیا ھے.... الحمد للہ کوئی امر مخفی نہیں دارالعلوم دیوبند سے ساری حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے.*
*2.مرکز نظام الدین سے جڑے رہنے کا وجوب کہاں سے ثابت ہے؟؟؟ یہ بے دلیل دعوی ھے.. اسکا وجوب قطعی الثبوت قطعی الدلالۃ سے ثابت کریں اس لیے کہ اصول فقہ کہ رو سے وجوب کے اثبات کے لیے قطعی الثبوت قطعی الدلالۃ نص کا ہونا ضروری ہے. اور اس پر جہل یہ کہ "یہی دین ہے" نعوذبااللہ من ذلک...*
*3. سعد صاحب کی شرعی حیثیت وقف شدہ مکان کی سی ھے....الخ اس پوری بکواس کی شرعی دلیل پیش کریں... اور سعد صاحب تین منزلہ عمارت کے گراؤنڈ فلور ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ سعد صاحب کے بعد آپکے زعم کے مطابق امارت ختم...؟؟؟ یہ آپ مانتے ہیں...؟؟؟*
*4. حضرت جی کا کیا ہوا فیصلہ...؟؟؟؟؟؟؟؟؟*
*یہ دعوٰی ہے کہ:*
"حضرت جی انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ میرے بعد :
۱- مولانا اظہار الحسن صاحب
۲- مولانا زبیرالحسن صاحب
۳- مولانا محمد سعد صاحب
مرکز نظام الدین میں ساری دنیا کی دعوتی محنت کی سرپرستی کریں گے : اور جب یہ تینوں ساتھی اللہ کو پیارے ہوجائیں تو پھر ذمہ داران مرکز کسی اور کا انتخاب کرلیں"
*اس دعوے کی کیا دلیل ہے؟؟؟*
*یہ کس ملفوظ میں لکھا ہے؟؟؟*
*جبکہ یہ بات خبر متواتر کی طرح ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ ان تین احباب کا انتخاب میاں جی محراب نے بطور فیصل کیا تھا جو کہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کی دس افراد شوری کے ایک ممبر تھے....اور یہ بات سعد صاحب صاحب کے حامیوں نے بھی دسویں جگہ نقل کی ہے اور آج کل تو سوشل میڈیا پر اس نوع کے خطوط کی بھر مار ھے. لہذا یہ دعوٰی تو تاریخی حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے. یہ اس دعوے (کہ مولانا انعام الحسن صاحب نے ان تین کو فیصل منتخب کیا تھا) کی اصل بنیاد ہے جو کہ باطل ہے اب اس کے بعد جتنے بھی امور اس دعوے پر متفرع ہونگے سارے ہی باطل ہیں.*
*5. حاجی عبدالوہاب صاحب کا نام اس لیے لیا جاتا ہے کہ وہ عمر، قربانی، تجربہ، اور صحبتِ اکابر میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں، نیز وہ مولانا انعام الحسن صاحب کی دس افراد عالمی شوری کے ممبر ہیں. اس میں کوئی کسی کو استعمال نہیں کررہا ہے بلکہ اس عمل کو مشورہ کہا جاتا ہے جس کے نام سے آپکو شدید چڑ ہوتی ہے لہٰذا "مشورہ" کو "استعمال" کا نام دینا بدترین خیانت ھے. ویسے آپکی بھی غلطی نہیں اس لئے کہ آپ کے پیر صاحب اور انکے حواریین یہ "استعمال" والا عمل خوب کرتے ہیں. اور آپکے پیر صاحب نے جنکو سب سے زیادہ استعمال کیا ھے ان میں ایک نام یسین میواتی کا بھی ہے.... بہر حال... اب میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا.*
*آگے لکھتے ہیں:*
"حضرت جی نے جونام مقرر فرمائے تھے وہ مذکورہ بالا تین نام ہی تھے ! ان ناموں میں چوتھا کوئی اور نام ہرگزنہیں تھا !
حاجی عبدالوہاب صاحب مدظلہ کا نام باغی گروپ والے ایسے ہی اپنی کارروائی میں جان پیدا کرنے ، اور ان کی بزرگی کی آڑ میں اپنی دکان چلانے کے لئے استعمال کررہے ہیں !
حاجی عبدالوہاب صاحب مدظلہ ، اور مولانا احمد لاٹ صاحب اور مولانا یعقوب صاحب وغیرہ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھیں کہ کیا حضرت جی نے مرکز نظام الدین کی قیادت کے لئے ان مذکورہ بالا تین احباب کے سوا کسی چوتھے کا نام بھی ذکر فرمایا تھا ؟
ان بزرگوں کے پاس سے صرف : نا : ہی کا جواب ملے گا"
*عقل کی کجی ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف شوری کی بات کرنے والوں کو "باغی" کہ رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں کو "بزرگ" کا لقب بھی دے رہے ہیں.... گویا ختم اللہ علی قلوبھم الخ کا پرتو ھے.... نعوذبااللہ من ذلک.*
*دوسری بات یہ ہے کہ محرر نے یہ کیسے طے کرلیا کہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے صرف تین ہی نام ذکر فرمائے تھے.... اور اس جھوٹ پر جرات یہ کہ اکابر کو بھی چیلنج کردیا کہ ان کے پاس بھی جواب صرف "نا" ہی ملے گا...... تو کیا یہ سارے اکابر سب جان بوجھ کر خیانت کررہے ہیں...؟؟؟*
6.شوری کو تکمیل کرنے والی بات
*دعوی یہ ہے کہ:*
"یہاں دو باتیں خلط ملط ہورہی ۂیں !
۱- ایک تو یہ کہ مقرر کردہ تین حضرات مرکزی قیادت کریں گے !
اسکا فیصلہ باضابطہ ہوچکا ، اور اس کے گواہ بھی موجود ہیں !
اوراس پر بیس سال سے عمل بھی ہوتا آرہا ہے !"
*اس فیصلے کے ہونے سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ مستقبل میں اس امر پر کبھی کوئی مشورہ نہ ہو...؟؟؟ یا شوری کے افراد کے انتقال پر انکی جگہ دوسرا نہ رکھا جائے..؟؟؟*
*جب دعوت و تبلیغ کے سارے پرانے ارباب حل و عقد شوری کے افراد کے اضافے پر زور دے رہے ہیں تو اس سے اختلاف کرنا فرض ھے...؟؟؟؟*
*(شوری کے متعلق سچی حقیقت کیا ہے؟)*
*خوب اچھی سمجھ لیں کہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے کام کو دس افراد کی شوری کے سپرد کیا تھا اور بعد میں اسی شوری کے فیصلے سے یہ تین افراد (مولانا اظہار صاحب مولانا زبیر صاحب اور سعد صاحب) شوری کے فیصل قرار پائے تھے، اور تین افراد کا باری باری فیصل بننا شوری سے اس لیے طے ہوا تھا کہ "ایک کی امارت" کی وجہ سے خطرناک "اختلاف وانتشار" کا شدید خطرہ تھا نیز ضعف استعداد و صلاح بھی ایک سبب رہا .... اور چونکہ یہ مہلک خطرہ نیز ضعف استعداد و صلاح، آج بھی اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے لہذا عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرز کا حل(نظام شوری) اس اختلاف و انتشار کو ختم کرنے کے لیے اختیار کیا گیا تھا وہی طرز مسئلے کا اصل حل ہو.*
*اسکے دوسرے جز میں یہ لکھا ہے کہ دس آدمیوں کی شوری حضرت جی کی بنائی ہوئی نہیں تھی... یہ تو بدترین جہل ھے.... اسکو تو سعد گروپ کے لوگ بھی نہیں قبول کرتے...اس پر کلام ہی فضول ہے.*
*7. آگے لکھتے ہیں ہیں کہ مرکز میں 150 پچاس اکابر رہتے ہیں ان میں سے صرف 7 ہی لوگوں کو شکایت ہے یہ وہی سات ہیں جو نظام الدین سے الگ ہوگئے ... سبحان اللہ... یہ 150 اکابر کون ہیں ذرا انکے نام گنوائیں.... اور کسی ایک کو بھی مولانا ابراہیم دیولہ، مولانا احمد لاٹ صاحب، مولانا یعقوب صاحب، پروفیسر ثناءاللہ صاحب علیگڑھ، خالد صدیقی صاحب وغیرہ کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں..؟؟؟؟ اور جب یہ احباب مرکز اتنے ہی ہیچ اور بے قیمت ہیں تو کیوں سارا عالم ان پر مجتمع ھے....؟؟؟؟ تمہارے باقی 143 نام نہاد "اکابر" کچھ کیوں نہیں اکھاڑ پارہے ہیں...؟؟؟؟؟*
*8.آگے کہتے ہیں کہ 143 "اکابر" ( جو کہ دراصل کچھ خائن اور جاھل ٹٹپونجیے ہیں، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ کے مثل) کو سعد صاحب کی کسی بات سے اشکال نہیں.... تو جناب..!! سوال صاحب دماغ و صاحب بصیرت کو ہوتا ہے جیسے دارالعلوم دیوبند کو ہوا.... اور آپ اور آپ کے ٹٹپونجیے اکابر کو نہ ہوا ھے اور نہ ہوگا.....یہ کوئی کمال نہیں ہے یہ جہل یا خیانت کی علامت ھے.*
*قارئین اب آپ ہی اندازہ لگائیں اور اللہ کو ہر حاضر و ناظر جان کر یہ فیصلہ کریں کہ جو مجمع سارے عالم کے پرانے ارباب حل و عقد اور دارالعلوم دیوبند کی تائید اور فتوے کے ساتھ ھے وہ حق کے ساتھ ھے یا جو اکابر دعوت اور دارالعلوم دیوبند کے خلاف ھے وہ حق پر ہے...؟؟؟؟؟*
*کیا اب بھی حق غیر واضح ہے..؟؟؟*
*ہرگز نہیں.... خوب سمجھ لیں کہ حق اکابر دعوت جو کہ ارباب حل و عقد ہیں، انکے ساتھ ھے، حق وہی ھے جو دارالعلوم دیوبند کی رائے ہے... اور سعد صاحب دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی رو سے گمراہ ہیں، امارت تو بہت دور کی بات ہے.*
*9.آگے لکھتے ہیں کہ مولانا اظہار صاحب اور مولانا زبیر صاحب، سعد صاحب کی کارکردگی سے بہت خوش رہتے تھے اور دعائیں دیتے تھے.... یہ بات بھی دنیا کے بڑے جھوٹ میں سے ایک جھوٹ ھے... جو لوگ نظام الدین کے مشورے میں کثرت سے شریک ہوئے ہیں وہ اسکی حقیقت خوب جانتے ہیں... سعد صاحب کی من مانی سے زبیر صاحب سخت پریشان اور نالاں تھے.... اور اکثر اس پر روتے رہتے تھے.... اسکی صرف ایک مثال یہ ہے کہ سعد صاحب نے "منتخب احادیث " کو بغیر کسی کے مشورے کے، شروع کردیا ... اور یہ ایک خطرناک فتنہ پرور قدم تھا جو کہ تمام عام کے ارباب حل و عقد کی رائے کے یکسر خلاف اٹھایا گیا... اور اس ہٹ دھرمی والے قدم نے پورے عالم میں ایک زبردست انتشار پیدا کیا...... کہ ایک مجمع نے منتخب احادیث کو پڑھنا شروع کیا اور دوسرے نے اسکی مخالفت کی.... اور گویا امت کو توڑ کر رکھ دیا.*
*اسی طرح سعد صاحب نے شوری کے فیصلے کے خلاف مرکز میں بیعت شروع کی جو کہ مولانا انعام الحسن صاحب کے انتقال کے بعد شوری کے فیصلے سے بند کردی گئی تھی اور اس پر ستم یہ کہ یہ بیعت بھی اپنے پردادا مولانا الیاس صاحب کے نام پر کرتے ہیں جن سے سعد صاحب کو نہ اجازت ہے نہ خلافت ھے اور نہ ہی ملاقات ثابت ھے.... جسکی بنا پر یہ بیعت ہی حرام ھے جھوٹ ہے اور امت کو بیعت کے نام پر گمراہ کرنا ھے... کوئی پوچھے تو سعد کاندھلوی سے کہ یہ بیعت کس طور درست ھے..؟؟؟ کیا یہ شرعاً جائز ھے..؟؟؟*
*کیا مولانا زبیر صاحب اور اکابر ان امور پر سعد صاحب کو دعا دیتے رہے اور دے رہے ہیں ...؟؟؟*
*کیا دیگر اکابر عالم سعد صاحب کو دعا دیتے اور دے رہے ہیں ..؟؟*
*کیوں امت کو گمراہ کررہے ہو میاں.؟؟*
*ان سوالات کے جوابات قیامت میں اللہ کے یہاں بھی دینے ہیں...*
*10. اوپر جب یہ بات واضح ہو گئی کہ سعد صاحب کو مولانا انعام الحسن صاحب نے کوئی منصب دیا ہی نہیں تو سعد صاحب کی امارت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا....*
*لہذا پوری دنیا کے سعد بھکتوں کو چیلنج ھے سب سے پہلے یہ ثابت کریں کہ اہل شوری کے افراد کے مرجانے پر کیا آخری فرد خودبخود امیر بن جاتا ہے...؟؟؟ اسکی شرع میں کوئی نظیر ملتی ہے..؟؟ یا کیا شرع میں اسکا کوئی اصول ملتا ہے..؟؟؟*
*دوسری بات یہ کہ جس علت اختلاف و انتشار اور ضعف استعداد و صلاح کی بنا پر مولانا انعام الحسن صاحب کی وفات کے بعد امارت کے بجائے شوری کو اختیار کیا گیا کیا وہ علت اختلاف و انتشار اور ضعف استعداد و صلاح آج کے وقت میں نہیں پائی جارہی ہے..؟؟؟ ظاہر ہے کہ یہ علت اختلاف و انتشار اور ضعف استعداد و صلاح ابھی بھی پائی جارہی ہے اور پوری شدت کے ساتھ پائی جارہی ہے... تو جب اُسوقت اس علت اختلاف و انتشار اور ضعف استعداد و صلاح کی بنا پر شوری قائم کی گئی تو پھر آج اسی علت اختلاف و انتشار اور ضعف استعداد و صلاح کی بنا پر شوری کیوں نہیں قائم کی جاسکتی..... ؟؟؟؟ اور آج کیوں امارت کا نعرہ لگایا جارہا ہے...؟؟؟*
*11. آگے لکھتے ہیں کہ "اصلاح اندر رہ کر ہوتی ہے اور اور باہر نکل کر فتنہ ہوتا ہے..." سبحان اللہ... پچھلے بیس سال سے اندر رہ کر اصلاح ہی کی جا رہی تھی... لیکن جب سب بے فائدہ رہا تو باہر نکلنا پڑا.... اور یہ بات کسی دلیل اور وضاحت کی محتاج نہیں کہ مرکز کے کیا احوال رہے جس کی بنا پر ہمارے اکابر نے مرکز کو چھوڑا ہے.*
*12. آگے لکھتے ہیں کہ "سعد صاحب پر اعتراض کا حق صرف دو ہی افراد کو تھا ایک مولانا اظہار صاحب اور دوسرے مولانا زبیر صاحب"...یہ بھی شخصیت پرستی کی بدترین دلیل ھے... ایسا محسوس ہورہا ہے گویا سعد صاحب نبی بن گئے کہ اب ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا...*
*13. امیر کی اطاعت کی جو احادیث پیش کی ہیں اس سے امیر المومنین مراد ہے نہ کہ کسی بھی تنظیم کا امیر اور نا ہی تبلیغی جماعت کا امیر .... کل کو جماعت اسلامی کا امیر دعوی کردے کہ میری اطاعت واجب ہے تو کیا اسکو بھی مان لوگے.؟؟؟*
*آگے موصوف نے علماء کرام سے لچھ التماسات کیے ہیں جسکا جواب اس عاجز نے دیا ہے.*
(علمائے کرام سے التماس )
(۱) ہم تمام علمائے کرام سے ملتمس ہیں کہ : اس شرعی مسئلہ پر جذباتی نہ بنیں ، حقائق ودلائل کو ملحوظ خاطر رکھیں !
*جواب :الحمد للہ علماء جذباتی نہیں ہو رہے ہیں بلکہ جذباتی آپ ہورہے ہیں کہ سعد صاحب کی حمایت میں دارالعلوم دیوبند کے علماء کا فیصلہ جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں.*
(۲) کیا حضرت جی انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ کے فیصلہ کی رو سے کسی اور کو اس بات کا استحقاق پہنچتا ہے کہ وہ عالمی یا مقامی شوری مقرر کرسکے ؟
*جواب :جی ہاں یہ کام موجودہ شوری کرسکتی ھے اور اگر شوری نہ بھی ہو تب بھی دعوت و تبلیغ کے ارباب حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اس کام کو سر انجام دیں گے.*
(۳) مولانا محمد سعد صاحب کا وجود حضرت جی انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ کے منتخب شدہ جماعت کی آخری کڑی ہے :
*جواب :اگر یہ آخری کڑی ھے تو کیا اس کے بعد دعوت کا کام ختم ہوجائے گا..؟؟؟ یہ دعوٰی غلط ھے کام شوری کے سپرد ھے اور رہےگا...*
( ۴) جب تک مولانا محمد سعد صاحب حیات ہیں ( اللہ انہیں سوا سو سال زندہ رکھے ) کسی شوری اور کسی امیر کے تقرر کی شرعی کوئی گنجائش نہیں !
*جواب :اپنے اس دعوے کو ادلہ شرعیہ سے مدلل کریں... نہ سعد صاحب کی امارت ثابت ھے اور ناہی شورائیت کے تقرر کاعدم امکان... اس لیے کہ مولانا انعام الحسن صاحب نے کام شوری ہی کے سپرد کیا تھا تو اب کام شوری ہی کے سپرد رہےگا، حالانکہ مولانا انعام الحسن صاحب اگر چاہتے تو مولانا زبیر صاحب کو امیر بنا سکتے تھے.... اس واقعے کی پوری تفصیل موجود زندہ اکابر سے معلوم کی جاسکتی ھے... جو سارے حقائق کو جانتے ہیں اور اسی وجہ سے نظام الدین سے الگ ھوے.*
ہمارا یہ بیان دنیا بھر کے علماء اور خاص کر تبلیغی ساتھیوں کے اطمینان کے لئے ہے ، تاکہ وہ دلجمعی وشرح صدر کے ساتھ مولانامحمد سعد صاحب کی امارت کے تحت دعوتی کام پر جمے رہیں اور خوب قربانی سے چلتے رہیں !
*جواب : جب سعد صاحب کی امارت ثابت ہی نہیں تو کس طرح انکو امیر مانا جائے... اور جس شخص کو انبیاء کی قدر کرنی نہ آئے اور علماء عزت کر ی نہ آئے وہ کیا خاک امیر بنےگا... وہ ایک ٹھیک ٹھاک مسلمان ہی بن جائے تو غنیمت... (مزید تفصیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں)*
فائدہ : تبلیغی عوام سے گذارش ہے کہ : ان اختلافی مسائل میں ہر گز نہ پڑیں ، سو فیصدی نظام الدین مرکز سے جڑے رہیں اور اطاعت کریں ، اگر کوئی ان مسائل میں الجھانے کی کوشش کرے تو ان سے کہیں کہ بھئ ! مرکز نظام الدین جاؤ اور وہاں بزرگوں سے بات کرو ، اور ہمیں اپنا کام کرنے دو !
*جواب :یہ عوام کو علماء سے کاٹنے کی بدترین یہودیانہ سازش ہے... عوام کے لئے صحیح حل یہ ھے کہ علماء سے رجوع ہوں اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے فتوے کو لازم پکڑیں.*
*اس سے آگے موصوف نے مفتیان کرام سے کچھ التماسات کیے ہیں جسکا جواب اس عاجز نے دیا ہے.*
( مفتیان کرام سےچند سوالات )
۱- مفتی محمد زید مظاہری صاحب نے اپنے مکتوب میں مولانالیاس صاحب رحمہ اللہ والی حسرت کو دہراتے ہوئے فرمایا ہے کہ : الیاس رحمہ اللہ تبلیغی کام کو شوری کے حوالے کرنا چاہتےتھے ؟
مفتی صاحب دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ : الیاس صاحب رحمہ اللہ کے انتقال کے
بعد مولانا محمد یوسف صاحب رحمہ اللہ امیر تھے ، ان کے بعد مولانا انعاالحسن صاحب رحمہ اللہ امیر تھے -
۲- ان دونوں بزرگوں کی امارت کے آپ قائل ہیں یا انکاری ؟
اگر آپ ان دونوں بزرگوں کی امارت کےانکاری ہیں تو پھر آپ کے قلم کو جنبش کیوں نہیں ہوئی ، اور کیوں ان بزرگوں کی امارت پر اعتراضی مکتوب نہیں لکھےگئے ؟
*جواب : ان دونوں کی امارت ارباب حل و عقد کے اتفاق سے تھی... اس لیے اس میں کسی قسم کے اشکال کی گنجائش نہیں... اور جہاں اختلاف ہوگا وہاں ارباب حل و عقد کا فیصلہ حرف آخر ہوگا... اور یہ بات ذھن نشین کرلیں کہ مولانا الیاس صاحب رح کی بات کوئی آیت قرآنی نہیں ہے کہ اسے بدلا نہ جاسکے.. انکی بات عام حالات کے اعتبار سے ھے... ورنہ جہاں ضرورت ہو وہاں ارباب حل وعقد آپسی اتفاق سے دوسری بات بھی طے کر سکتے ہیں. اور یہی شرع کا تقاضہ بھی ہے اور اسی اصول کی بنا پر ہم بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رح کے اقوال کو بھی ترک کردیتے ہیں.*
۳ - اگر آپ ان دونوں بزرگوں کی امارت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر مولانا سعد صاحب کی امارت پر یہ اعتراض و شور وشرا با کیوں ؟
*جواب :اسکا جواب اوپر لکھ دیا ہے... مختصر یہ کہ مولانا انعام الحسن صاحب نے کام کو شوری کے سپرد کیا تھا.حالانکہ مولانا انعام الحسن صاحب اگر چاہتے تو مولانا زبیر صاحب کو امیر بنا سکتے تھے.... اس واقعے کی پوری تفصیل موجود زندہ اکابر سے معلوم کی جاسکتی ھے... جو سارے حقائق کو جانتے ہیں اور اسی وجہ سے نظام الدین سے الگ ھوے.*
۴- کیا تبلیغی محنت کے دھارے کو ( ما انا علیہ واصحابی ) کی سمت موڑنا ، اور محنت کو اس نہج پر لانے کی مساعی وکوشش کرنا ، مستحسن اور جائز ہے ؟
یا پھر غیر درست و ناجائزو بدعت ہے ؟
*جواب :اگر یہی نیت ھے کہ امت "ما انا علیہ واصحابی" پر عمل پیرا ہو تو دارالعلوم دیوبند کے فتوے کو عام کیجیے اور امت کو اسے قبول کرنے کی دعوت دیجیے اور نفس پرستی اور شخصیت پرستی سے اجتناب کیجیے.*
*آخر دارالعلوم دیوبند کی مخالفت کرکے کیون سی سعادت مل جائے گی.؟؟*
۵- دعوتی کام کرنے کے لئے اکابرین ، واسلاف کی ترجیحات کو سامنے رکھیں یا : سیرت نبوی
وسیرت صحابہ کو اپنا یا جائے ،؟
۶- اہل سنت والجماعت اور جمہور اور اسلاف میں کون کون شامل ہیں ؟
*جواب : یہ نکتہ تو غیر مقلدین سے لیا گیا ھے..... وہ بھی یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی بات لی جاےگی یا اماموں کی بات لی جائے گی....*
نعوذبااللہ من ذلک البکواس.