ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

17/8/18

اسلامی مراکز تاریخ کی روشنی میں

*اسلامی مراکز تاریخ کی روشنی میں*

*تحریر۔۔۔ابن عیسی محمدی*

*وجہ تحریر*
جب سے مرکز نظام الدین کا تنازعہ شروع ہوا ہے مولانا سعد صاحب اور انکے متبعین کی جانب سے ایک طرف بے بنیاد باتوں ،مرجوح ومتروک تفسیروں اور مخالف جمہور اقوالوں کا ایک تانتا بندھ گیا ہے تو دوسری طرف ثابت شدہ باتوں کا انکار بھی ان لوگوں کا شعار بنتا جارہا ہے مرکز نظام الدین کو قیامت تک کے کے لئے بتایاجارہا ہے اور اس پر جرات یہ کہ اسکو منجانب اللہ بتلایا جارہا ہے (نعوذ باللہ من ذلک) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی مراکز ہمیشہ بدلتے ہوے آئے ہیں
اسی لئے بعض ساتھیوں نے یہ گزارش کی کہ اسلام کی تاریخ کے مراکز کا مختصر جائزہ امت کے سامنے ہیش ہو جائے تا کہ معصوم بھولے بھالے مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ کام اصل ہے مرکز نہیں کیونکہ وہ تاریخ میں ہمیشہ بدلتا رہاہے ۔
ذیل میں اسلامی مراکز کی تاریخ کو مختصرطورپر ملاحظہ فرمائیں ۔

*اسلام کا پہلا مرکز کعبۃ اللہ*

اسلام کا پہلا بلکہ پورے عالم کا مرکز کعبۃ اللہ ہی ہے جسکے بارے میں خود اللہ تبارک تعالی نے ارشاد فرمایا کہ
ﺇِﻥَّ ﺃَﻭَّﻝَ ﺑَﻴْﺖٍ ﻭُﺿِﻊَ ﻟِﻠﻨَّﺎﺱِ ﻟَﻠَّﺬِﻱ ﺑِﺒَﻜَّﺔَ ﻣُﺒَﺎﺭَﻛﺎً ﻭَﻫُﺪًﻯ ﻟِّﻠْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦَ{ آل عمران96}
پہلا گھر جس کو عبادت کے لئےوضع کیا گیا وہ مکہ مکرمہ ہی تھا۔

*اسلام کا دوسرا مرکز دار بنی ارقم*
*1نبوت تا 6 نبوت ھ*

ابتدائے اسلام میں چونکہ اسلام کا نام لینا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنا تھا اس لئے اس وقت کے حالات کی مصلحت کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا مرکز اور جڑنے کی جگہ دار بنی ارقم تھی چنانچہ تمام اہل سیر نے اسکو نقل کیا ہے صاحب الرحیق المختوم صفی الرحمن مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں کہ :
کان(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یجتمع مع المسلمین سراً لمصالحھم ۔۔۔۔وکانت دارالارقم ترجمہ: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ خاموشی سے دارابنی ارقم میں جڑا کرتے تھگ(1)
حافظ ابن حجر عسقلانی رح اپنی شہرہ آفاق تالیف *الاصابہ* میں مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
"کانت دارہ علی الصفا وھی الدار التی کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یجلس فیھا فی الاسلام "
ترجمہ : آپ (حضرت ارقم رض ) کا گھر صفا پہاڑی پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں نششت ہواکرتی تھی
نیز ابن حجر رح لکھتے ہیں کہ دار بنی ارقم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے تک مرکز تھا اسکے بعد مسلمان جہاں چاہتے جڑتے تھے (2)

*اسلام کا تیسرا مرکز مدینہ*
*1ہجری تا35ھ*

مکہ والوں نے جب از حد ظلم وستم شروع کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خدا مکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور پھر تادم حیات اسی کو اپنا مسکن بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر تینوں خلفاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک تقریبا سن 35 ہجری تک مدینہ ہی عالم اسلام کا مرکز رہا ۔
    مدینہ کے اسلام کا مرکز ہونے میں کسی کو ادنی شک بھی نہیں اسلئے حوالے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

*اسلام کا چوتھا مرکز کوفہ*
*35 ہجری تا40 ھ*

حضرت علی رضی اللہ نے اپنے دور خلافت میں کوفہ کو اسلام کا مرکز بنایا اگر چہ بعض صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ ہی
کو دارالخلافہ بنانے کی گزارش کی مگر بہت سی مصلحتوں کے پیش نظر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کو مرکز اسلام باقی رکھنا مناسب نہ سمجھا۔(3)

*اسلام کا پانچواں مرکز دمشق*
*40 ہجری تا 132*

  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حادثہ فاجعہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کے بعد جب زمام حکومت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی تو آپ نے دمشق ہی کو مرکز اسلام قرار دیا کیونکہ آپ
دمشق ہی میں ایک عرصہ دراز سے مقیم تھے(4) چنانچہ ابن سعد رح لکھتے ہیں کہ
کانت ولایتہ علی الشام عشرین سنۃ
ترجمہ : آپ کی حکومت شام (کے شہر دمشق ) میں بیس سال رہی(5)
  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ سے لیکر 127 ہجری تک اسلامی مرکز دمشق ہی رہا(6)

*اسلام کا چھٹا مرکز مکہ مکرمہ*
*64 ہجری تا73*

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ۔عنہ کی وفات کے بعد آپ رض کا بیٹا یزید زیادہ دیر پایہ تخت سنبھال نہ سکا اور یزید کے بعد پھر سے عالم اسلام کا شیرازہ بکھر گیا اس سنگین صورت حال میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی کمان سنبھال لی اور آپ ہی اسکے کے لئے موزوں اور لائق تھے لوگ جوق در جوق آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے جارہے تھے آپ نے ارض مکہ مکرمہ ہی کو دارالخلافہ بنایا اور 64 ہجری میں اپنی نگرانی کعبۃ اللہ کی از سرنو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق دوبارہ تعمیر
کروائی مگر مروان کی چالبازیوں اور شاطرانہ چالوں کی وجہ سے آپ زیادہ برس مسند خلافت پر قائم نہ رہ سکے بالآخر  بدنامِ زمانہ ظالم حجاج بن یوسف نے آپ کو حرم ہی میں شہید کرڈالا ۔
الغرض مکہ مکرمہ زیادہ عرصہ اسلام کا مرکز نہ رہ سکا ۔(7)

*اسلام کا ساتواں مرکز انبار*
*132 ھ تا 149 ھ*

عباسی خاندان کا پہلا خلیفہ ابو عبداللہ السفاح نے اسلامی مرکز کو دمشق سے انبار منتقل کیا چنانچہ یاقوت حموی رح  انبار کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ :
   ثم جددھا ابوالعباس السفاح اول خلفا بنی العباس وبنی بھا قصورا واقام بھا الی ان مات ترجمہ: عباسی خلیفہ ابو عبداللہ السفاح نے انبار کی تجدید(کی اور اسمیں ایک مغل تعمیر کیا اور اسی میں قیام کیا اسکے انتقال تک8)
چنانچہ سن 132ہجری تا149 انبار ہی دارالخلافی رہا
*اسلام کا آٹھواں مرکز بغداد*
*132 ھ تا 656 ھ*
دوسرے عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے اپنے دارالخلافہ کے طور پربغداد کا انتخاب کیا اور پھر بغداد 656 تک اسلام کا مرکز رہا۔ اردو تاریخ کے مشہور مسلم مؤرخ اکبرشاہ نجیب آبادی رح لکھتے ہیں کہ :
سفاح نے انبار کو اپنا دارالسلطنت بنایا تھا اور ابوجعفرمنصور نے بغداد کو دارالخلافہ بنایا ۔(9)
مشہور مستشرق مؤرخ کی لسترنج اپنی کتاب بلدان الخلافۃ الشرقیۃ میں لکھتے ہیں کہ :
ولاسیما فی ایام العباسیین الذین غلبوا خصومھم الامویین ۔۔۔۔۔۔ونقلھا قاعدۃ الخلافۃ من الشام الی العراق واسسوا بغداد
ترجمہ: خاص طورپر عباسی امرا کازمانہ جس میں انہوں نے اپنے فریق اموی خاندان کو شکست۔۔۔۔۔اور نظام خلافت کو شام سے (دمشق) سے عراق(بغداد) منتقل کیا(10).

*اسلام کا نواں مرکز اندلس*
138 ھ تا 427

ابوعبداللہ السفاح نے خلافت بنی امیہ کا خاتمہ تو کردیا مگر عبدالرحمن اول بچ گئے انہوں نے انتھک جد وجہد کے بعد اندلس کو ایک عظیم الشان اسلامی مرکز میں تبدیل کیااور اس کو علوم وفنون کا گہوارہ بنادیا چنانچہ بنوامیہ کے تحت اندلس 138 تا 427 تک مرکز رہا (11)

*اندلس کی عظمت رفتہ*
اندلس اسلامی تہذیب وثقافت علوم وفنون نیز علماء وصلحاء کا گہوارہ بن چکا تھا روئے زمین کی تمام نایاب کتابوں کا مرکز اندلس تھا حاکم اندلس عبدالرحمن الثالث کی صرف ذاتی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں رکھی ہوی تھیں اور عام کتب خانے کی صرف فہرست کتب چالیس جلدوں میں تھی

*جامع قرطبہ*
جامع قرطبہ جو آج ترک جہاد کی وجہ سے مسلمانوں سے چھن گئی اس مسجد کا طول شرق سے غرب تک پانچ سو فٹ تھا ،اسکی خوبصورت محرابیں ایک ہزار چارسو سترہ سنگ مرمر کے ستونوں پر قائم تھیں ،محراب کے قریب ایک بلند منبر خالص ہاتھی دانت اور چھتیس ہزار مختلف رنگ اور وضع کی لکڑی کے تکڑوں سے بنا اور ہرقسم کے جواہرات سے جڑا ہواتھا ،یہ منبر سات برس کے عرصہ میں تیار ہواتھا خلیفہ عبدالرحمن نے اس مسجد کے قدیم میناروں کو گراکر ایک نیا مینار ایک سو آٹھ فٹ بلند تیار کروایاتھا جس میں چڑھنے اور اترنے کے دوزینوں میں ایک سو سات سیڑھیاں تھیں ،اس مسجد میں چھوٹے بڑے دس ہزار جھاڑ روشنی کے جلا کرتے تھے جن میں تین سب سے بڑے جھاڑ خالص چاندی کے اور باقی پیتل کے تھے ،بڑے بڑے جھاڑوں میں ایک ہزارچار سو اسی پیالے روشن ہوتے تھے اور ان تین چاندی کے جھاڑوں میں چھتیس سیرتیل جلا کرتا تھا،تین سو ملازم اور خدام اس مسجد کے لئے متعین تھے (تاریخ اسلام 3/139 )

*اسلام کا دسواں مرکز اور گنج*
575 ھ تا 618

  خوارزم شاہی حکومت کے تحت اورگنج 575 سے618 ہجری تک اسلام کا مرکز رہا چھٹی صدی ہجری کے اواخر اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں میں اگرچہ اسلام کا بڑا مرکز بغداد ہی تھا مگر اسوقت سلطنت عباسیہ برائے نام ہی باقی تھی ۔۔۔۔ادھر خوازم شاہی سلطنت علوم وفنون کا گہوارہ بن رہی تھی علامہ رازی جیسے جبل علم وعمل خوازم کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے (12)اور دین ودنیا کے لحاظ سے خوازم ایک مثالی شہر بن چکا تھا مگر 616 ہجری  میں دجال وقت چنگیز خان کےخوفناک طوفان نے عالم اسلام کی طرف رخ کیا تو اسکے دھارے سے خوارزم بھی محفوظ نہ رہ سکا بلکہ دیگر شہروں کے مقابلہ میں خوارزم پر چنگیز خاں کا ظلم وستم زیادہ ہی تھا اس بے رحم جانور صفت انسان نے خوارزم کے کنارے چلنے والی دریا کا رخ موڑ کر پورے شہر کو دریا میں ضم کرکے خوارزم کو صفحہ ہستی ہی سے مٹادیا۔(13)
(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاتاری یلغار اور سلطان جلاالدین خوارزم شاہ) ۔

*اسلام کا گیارہواں مرکز ترکی (قسطنطنیہ)*
856 ھ تا 1928 ء

ترکی قسطنطنیہ ہی کا دوسرانام ہے تاریخ میں شاید ہی کسی ملک کا نام اتنا تبدیل ہوا ہوگا جتنا ترکی کا ہوا ہے(14)یہ وہی قسطنطنیہ ہے جسکے فاتحین کے لئے احادیث میں مغفرت کے پروانے ذکر کئے گئے ہیں ان احادیث کا مصداق بننے کے لئے کئی حضرات نے قسمت آزمائی کی مگر یہ فضیلت قدرت کی جانب سے سلطان محمد فاتح کے حصہ میں آئی چنانچہ 2 جمادی الاولی 85
6 ہجری میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ موجودہ ترکی کو فتح کیا اور اسی کو دارالسلطنت بنایا(15) اور پچھلی صدی 1928ء تک ترکی عالم اسلام کا تن تنہا مرکز تھا مگر انیسویں صدی کے اوائل میں مصطفی کمال پاشاہ منافق کی ناپاک کوششوں کی وجہ سے عالم اسلام کا شیرازہ بکھرگیا نیز اس غداراسلام نے ترکی سے اسلام کو ختم کرنے کے لئے بہت سخت قوانین بنوائے جسکی وجہ سے کئی نسلیں اسلامی تعلیمات سے محروم رہیں مگر الحمدللہ ترکی کے موجودہ صدر *رجب طیب اردگان* کی شکل میں ترکی پھر سے خلافت کی راہ پر گامزن ہے۔(16)
مصطفی کمال۔پاشاہ ہی کے سلسلہ میں علامہ اقبال رح نے یہ شعر کہا تھا
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
*مرکز نہیں مرکزیت چاہئے*
محترم قارئین!
آپ حضرات نے کن مراکز کا جائزہ اپر ملاحظہ فرمایاہے سہ اپنے وقت پورے اسلام اور اہل اسلام کے مراکز تھے جہاں جہاں بھی خلافت قائم ہوتی تھی وہیں علم وعمل کے عالمی مقام ائمہ بھی جمع ہوجاتے تھے ،وہی سے حجاج کرام کے لئے امیر بھی طٰے ہوتے تھے چنانچہ بغداد اندلس دمشق انبار کے ہزاروں محدثین ورواۃ حدیث وفقہ کے ےذکرے کتابوں میں ملتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جب ایسے مراکز کسی ایک جگہ نہیں رہے تو پھر ایک ایسامرکز جو صرف ایک خاص تحریک ایک خاص عملی محنت مرکز ہے کیوں تبدیل نہیں ہوسکتا ؟
   آج امت کو مرکز کی نہیں مرکزیت کی ضرورت ہے جسکے مولانا سعد صاحب مخالف ہیں کیونکہ مرکز کام کا نام ہے جہاں کام ہوگا خوبخود مرکز بن جائیگا پھر کام جہاں جہاں منتقل ہوگا وہیں وہیں مرکز بھی منتقل ہوگا ۔۔۔۔۔۔اس لئے علماء اور عقل سلیم کے حامل حضرات کو چاہئےکہ امت کو مرکز سے نہیں مرکزیت(شورائیت) سے جوڑنے کی کوشش کریں .
     اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔
*حوالہ جات*
(1) الرحیق المختوم ص 91 ط: وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلانیۃ ،دولۃ قطر
(2)الاصابۃ 1/196 ،دارالکتب العلمیہ بیروت
(3)طبقات ابن سعد 8/134 ط:مکتبۃ الخانجی، قاہر، مصر
(4)امیر المومنین عکی بن ابی طالب شخصیتہ وعصرہ لمحمد علی الصلابی ص 152 دارالتوزیع والنشر الاسلامیہ،مصر
(5)طبقات ابن سعد 9/410 ،مکتبۃ الخانجی ،قاہرہ مصر
(6)دول الاسلام للذھبی 1/35 ،ط:دارصادر ،بیروت
(7)تاریخ الخلفاء للسیوطی 349 ط:وزارۃ الشؤن الاسلامیۃ ،دولۃ قطر
(8)معجم البلدان 1/255 ط: دارصادر بیروت
(9) تاریخ اسلام از اکبر شاہ نجیب آبادی 2/254 مطبوعہ اردو بازار لاہور
(10) بلدان الخلافۃ الشرقیۃ ص 12 ط:مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(11) تاریخ الخلفاء 789 ط:وزارۃ الاوقاف الشؤن الاسلامیہ دولۃ قطر
بلدان الخلافۃ الشرقیہ ص 15 ط: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
اندلس کے عروج وزوال کی تدصیل کے لئے تاریخ اسلام اکبرشاہ نجیب آبادی جلد سوم کا نصف اول ملاحظہ فرمائیں
(12)تاتاری یلغار اور سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ص 76 (مولانا محمد اسماعیل ریحان استاذ تاریخ اسلام جامعۃ الرشید کراچی بحوالہ سیرت امام رازی) مطبوعہ منھل التراث الاسلامی ،کراچی
(13)تاتاری یلغار اور سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ص 181
(14)جہان دیدہ ص 318 ادارۃ المعارف کراچی
(15) جہان دیدہ ص 327
(16) تفصیل کے لٰے ملاحظہ فرمائیں ترک ناداں سے تک دانا تک مصنفہ مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
   
٭٭٭٭

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم