ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

3/8/18

مرکزکےموجودہ انتشار پراستفتاء اوراس کا تفصیلی جواب

*مرکز کے موجودہ انتشار پر استفتاء اور اس کا تفصیلی جواب*


مولانا مفتی جنید صاحب!
السلام علیکم
مجھے دعوت و تبلیغ کے بارئے میں سوال کرنا تھا

سوال (١)سب سے پہلا سوال یہ تھا کے کیا دعوت کے کام میں امارت ہونی چاہئے یا شورہ ؟

سوال (٢) کیا دور صحابہ کی مثال دینا درست ہوگا کے صحابہ میں امارت تھی چار خلیفہ وغیرہ؟

سوال (٣) کیا مولانا سعد صاحب کو دیوبند کے فتوے کے بعد بھی حق پر سمجھنا درست ہے؟

سوال (٤) مجھے کسی نے کہا علماء کا اختلاف رحمت ہیں کیا اسے رحمت کہا جائگا یا یہ سنگین فتنہ ہیں۔

سوال (٥) آخری سوال میں مولانا سعد صاحب کا ساتھ دو یا مولانا ابراہیم صاحب دیولہ اور احمد لاٹ صاحب کا؟

المستفتی: محمد ایوب میمن

الجواب:حامداومصلیاومسلما:-

(١) فساد زمانہ اور خصوصا جب کہ امیر بننے کا شوق غالب ہو، تبلیغی کام کی حفاظت اور افادیت شوری ( جس کا طریقہ کار آگے آرہا ہے) کے تحت کام کرنے میں ہے.
شوری کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہر ہفتہ یا مہینہ کا امیر طے ہوتا ہے، اب امیر اس ہفتہ یا مہینہ کے درمیان آنے والے تمام امور کا فیصلہ اہل شوری سے صلاح و مشورہ کے بعد کرتا ہے، پھر دوسرے ہفتہ یا مہینہ دوسرا امیر طے کیا جاتا ہے، ھلم جرا،      
گویا شوری بھی کسی امیر ہی کے ماتحت کام کرتی ہے، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ امیر تاحین حیات نہیں ہوتا۔

(٢) صحابہ کے دور میں مطلقاً تمام امور میں خلافت تھی، لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا دعوت و تبلیغ کا کام کوئی امور خلافت نہیں کہ مستقلا امیر کا محتاج ہو ویسے دعوت و تبلیغ کا کام امیر سے خالی بھی نہیں کہ شوری میں ہر ہفتہ یا ماہ کا امیر بنایا جاتا ہے.

خلافت وامارت میں انتخاب امیر کے شرعی طریقے صرف چار ہیں.

(١) علماء، قضاۃ وغیرہ ارباب حل و عقد کا کسی لائق شخص پر اتفاق کرلینا، جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تقرری اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آئی.

(٢)شرعی طورپر منتخب شدہ امیر یا خلیفہ اصحاب الرائے کے صلاح و مشورہ یا اپنی صواب دید سے کسی لائق شخص کو نامزد کردے، جیسا کہ خلافت فاروقی کا قیام اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آیا.

(٣) جامعین شرائط شوری اہل الرائے کے مشورہ سے غور وفکر کر کے کسی کو مقرر کر دے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مقرر کردہ شوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو منتخب کیا، اور صحابہ نے اسے قبول کر لیا.

(٤) غلبہ اور استیلاء کے ذریعہ کوئی لائق شخص منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر تالیف قلوب اور قوت کے ذریعہ سب کو اپنا مطیع بنالے.
(استیلاء کی بعض صورتیں غیر شرعی اور ناجائز ہیں، جس کی تفصیل اپنے مقام پر کتب فقہ میں مذکور ہے) (مستفاد:ازالۃ الخفاء، مقصد اول، فصل اول صفحہ نمبر ٢٤،٢٥).
خلیفۃ المسلمین کے تقرر کے چار طریقے اوپر مذکور ہوئے، ان میں سے کسی ایک بھی طریقے پر موجودہ صورت میں کسی کو امیر نہیں بنایا گیا۔
بل کہ شوری کے تحت کام جاری وساری رکھنا  یہ تقرر امیر کے تیسرے طریقے پر عمل ہوا، کہ چند دنوں پر اہل الرائے کے مشورہ سے امیر بدلا جائے.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امارت طلب کرنے بلکہ دل میں خواہش اور طمع رکھنے پر اللہ کی مدد نہ آنے کا حدیث میں فرمایا ہے. 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ سے فرمایا :
اے عبد الرحمن بن سمرۃ!  امارت کو طلب نہ کرنا؛ اس لئے کہ اس لئے کہ اگر یہ تیری طلب پر دی گئی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائیگا، اور اگر تجھے تیری طلب کے بغیردی گئی تو تیری اس پر مدد کی جائیگی. 
ایک روایت میں ہے کہ ابو موسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے دو چچیرے بھائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے، میرے چچیرے بھائیوں یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سےولایت(امارت) چاہی تو آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھا کر فرمایا کہ میں ایسے شخص کو امیر نہیں بناتا جو اس کا سوال کرے یا دل میں خواہش رکھے.
ایک روایت میں ہے کہ اگر تم امارت کی خواہش رکھوگے تو کل قیامت کے روز نادم ہوں گے.
في الصحيحين عن النبي صلى الله عليه وسلم أن قوماً دخلوا عليه فسأ لوه الولاية ، فقال ” إنّا لا نولي أمرنا هذا من طلبه "
عن أبي موسى قال : دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم أنا ورجلان من بني عمي ، فقال أحدهما : يا رسول الله أمرنا على بعض ما ولاك الله عز وجل ، وقال الآخر مثل ذلك ، فقال : إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا يسأله أو أحدا حرص عليه.
وعن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عبد الرحمن بن سمرة لا تسأل الإمارة ، فإنك إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها ، وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها (متفق عليهما )
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة ، فنعم المرضعة ، وبئست الفاطمة( رواه أحمد والبخاري والنسائی)

اب موجودہ دور میں امت کے کیا حالات ہیں، آپ کے سامنے ہے، لہذا اللہ عزوجل کی مدد کیسے آئیگی؟

(٣) دارالعلوم دیوبند کی تحریر کے بعد بھی محترم موصوف کا رویہ نہیں بدلا بل کہ جن باتوں کی وجہ سے انھیں گمراہی کے راستے پر بتلایا تھا ان باتوں میں سے کچھ کو دوبارہ دوہرایا گیا. 
احقر کے نزدیک ان باتوں کو صرف "غلط مسئلہ"  کہہ کر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان غلط مسائل کے نتائج انتہائی خطر ناک اور بھیانک ہیں.
کیمرہ والے موبائل سے متعلق مسئلہ میں بہ قول محترم موصوف "جو علماء اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں وہ علماءسو ہیں(نیز اور بھی سخت کلام کیا ہے) الخ"
دنیا کا کوئی بھی عالم یا مفتی جس نے صحیح تعلیم اور فکر پائی ہوگی نماز کے جواز ہی کا حکم دیگا،  اب محترم موصوف کے کہے موجب یہ تمام علماء علمائے سو ہوئے، گویا دنیا میں کوئی صحیح مفتی اور عالم بچا ہی نہیں، اب جو حضرات محترم موصوف کے اس مسئلہ اور بیان سے متاثر ہوئے ہوں گے ان کے دلوں میں ان تمام علماء ومفتیان کرام کی نفرت آئیگی نیز علماء سے بھی دور ہوگا.
 موصوف کا "حضرت موسی علیہ السلام والے واقعہ کی غلط توجیہ کرنے نیز اصلاحی تعلق والی" بات سے لوگوں کے قلوب میں خانقاہوں کی اہمیت گھٹیگی.
موصوف کی "ہدایت ملنے کی جگہ مسجد کے علاوہ کوئی نہیں" الخ والی بات سے مدارس کی افادیت لوگوں کے دلوں سے کم ہوگی.
موصوف کی یہ بات "اجرت لے کر دین کی تعلیم دینا دین کو بیچنا ہے، زنا کار لوگ تعلیم قرآن پر اجرت لینے والوں سے پہلے جنت میں جائیں گے" تو انتہائی خطرناک ہے، ایک سمجھ دار عالم تو کیا ایک سمجھ دار مومن بھی یہ جملے اپنی زبان پر لانا گوارا نہیں کرے گا، اس بات سے لوگوں کے دلوں میں علماء کی کیا قدر رہ جائیگی؟
موصوف محترم کی ہر غلط بات کا نتیجہ دین کے دیگر شعبوں کی تنقیص اور اہل علم کی برائی ہی نکلیگا۔
لہذا اسے صرف "غلط مسئلہ"  نہیں کہا جاسکتا.

(٤) اس اختلاف سے امت میں سوائے انتشار اور افتراق کے کچھ بھی نہیں، جس اختلاف سے لوگوں میں گالم گلوچ اور مار پیٹ تک بات پہونچی ہو اسے شیطانی حربہ کہا جائیگا، نہ اختلافِ علماء.
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ "اختلاف امتی رحمۃ"  سے علماء کا ہر اختلاف مراد نہیں ہے بل کہ مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے کہ جس سے عوام کے لئے وسعت ہو. 
(ﻗﻮﻟﻪ: ﺑﺄﻥ اﻻﺧﺘﻼﻑ) ﺃﻱ ﺑﻴﻦ اﻟﻤﺠﺘﻬﺪﻳﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﻭﻉ ﻻ ﻣﻄﻠﻖ اﻻﺧﺘﻼﻑ. ﻣﻄﻠﺐ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ «اﺧﺘﻼﻑ ﺃﻣﺘﻲ ﺭﺣﻤﺔ» .
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﻦ ﺁﺛﺎﺭ اﻟﺮﺣﻤﺔ) ﻓﺈﻥ اﺧﺘﻼﻑ ﺃﺋﻤﺔ اﻟﻬﺪﻯ ﺗﻮﺳﻌﺔ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ، ( مقدمہ رد المحتار)

(٥) اوپر کی تحریر سے بالکل واضح ہے کہ شوری کی بتلائی ہوئی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ہی امت کے لئے نافع ہوگا، اسی میں کام کی حفاظت اور افادیت مضمر ہے.
فقط والله تعالى أعلم وعلمہ اتم واحکم. 
*کتبہ:مفتی جنید بن محمد عفی عنہ پالنپوری*
*دارالافتاءوالإرشاد،مجلس البرکہ(کولابہ، ممبئی) *
مؤرخہ ٢٨ ربیع الاول ١٤٣٨ ہجری
*muftijunaid1979@gmail.com*
9820982844/9820992292
IMG-20180905-WA0029

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم