*کیا صفہ مدرسہ نہیں تھا؟*
رضوان احمد قاسمی
مہتمم جامعہ اسلامیہ محفوظ العلوم للبنات
منوروا شریف سمستی پور بہار
میرے ایک دوست نے بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی کے مولانا سعد صاحب کی ایک چھوٹی سی کلپ میرے پاس بھیجی ہے جس میں یہ کہا جارہا ہے کہ مسجد نبوی کامشہور چبوترہ جسے صفہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ کوئی مدرسہ نہیں تھا بلکہ وہ قیام گاہ تھی۔
مدرسہ تو درحقیقت مسجد نبوی تھی۔
سیکھنے سکھانے کا کام مسجد میں ہوتا تھا نہ کہ چبوترہ میں۔
لہٰذا صفہ کوئی مدرسہ نہیں تھا بلکہ وہ صرف ٹھہرنے کی جگہ تھی۔
میں نہیں جانتا کہ اس بیان کا پس منظر کیا ہے؟
اور یہ بیان کب کا ہے؟
مگر چونکہ ام المدارس صفہ نبوی کو محض قیام گاہ قرار دینا تاریخ اسلامی کے اعتبار سے ایک صریح غلطی ہے اس لئے آئیے ذرا اس کی حقیقت پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ صورتحال کیا ہے؟
چنانچہ تین باتیں بطور تمہیدکے سامنے رکھئے تا کہ فیصلہ کرنا آسان ہو
مدرسہ تو درحقیقت مسجد نبوی تھی۔
سیکھنے سکھانے کا کام مسجد میں ہوتا تھا نہ کہ چبوترہ میں۔
لہٰذا صفہ کوئی مدرسہ نہیں تھا بلکہ وہ صرف ٹھہرنے کی جگہ تھی۔
میں نہیں جانتا کہ اس بیان کا پس منظر کیا ہے؟
اور یہ بیان کب کا ہے؟
مگر چونکہ ام المدارس صفہ نبوی کو محض قیام گاہ قرار دینا تاریخ اسلامی کے اعتبار سے ایک صریح غلطی ہے اس لئے آئیے ذرا اس کی حقیقت پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ صورتحال کیا ہے؟
چنانچہ تین باتیں بطور تمہیدکے سامنے رکھئے تا کہ فیصلہ کرنا آسان ہو
(1)سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ مدرسہ کسی بھی سنگ وخشت کے مجموعے کا نام نہیں۔
بلکہ ہر اس جگہ کو مدرسہ کہنا حق بجانب ہے جہاں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ہو اور سیکھنے سکھانے کا نظام ہو اسی لئے کھلے آسمان کے نیچے بھی اگر پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ہو تو وہی مدرسہ ہے۔
بغیر کسی سائبان کے اگر درخت کے نیچے بھی تعلیم کا حلقہ ہو تو وہ بھی مدرسہ ہے۔
اسی طرح تازہ دم ہونے کے لئے اگر سویا جائے اور اگلے سبق کی تیاری کے لئے اگر سیروتفریح کی جائے توایسا نہیں ہے کہ سونے کے یہ اوقات اور سیروتفریح کے یہ لمحات خارج تعلیم گردانے جائیں گے بلکہ ان تمام اوقات ولمحات کو تعلیم کا جزو لاینفک سمجھا جائے گا۔
بلکہ ہر اس جگہ کو مدرسہ کہنا حق بجانب ہے جہاں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ہو اور سیکھنے سکھانے کا نظام ہو اسی لئے کھلے آسمان کے نیچے بھی اگر پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ہو تو وہی مدرسہ ہے۔
بغیر کسی سائبان کے اگر درخت کے نیچے بھی تعلیم کا حلقہ ہو تو وہ بھی مدرسہ ہے۔
اسی طرح تازہ دم ہونے کے لئے اگر سویا جائے اور اگلے سبق کی تیاری کے لئے اگر سیروتفریح کی جائے توایسا نہیں ہے کہ سونے کے یہ اوقات اور سیروتفریح کے یہ لمحات خارج تعلیم گردانے جائیں گے بلکہ ان تمام اوقات ولمحات کو تعلیم کا جزو لاینفک سمجھا جائے گا۔
(2) اسی طرح یہ بھی ذھن میں رکھنا چاہئے کہ آجکل جو مدارس اسلامیہ کی عمارتیں ہیں ان میں تمام کے تمام حصے درسگاہ ہی نہیں ہوتے بلکہ کچھ حصے سونے اور دوسری ضروریات کے لئے بھی ہوتے ہیں اس کے باوجود پوری عمارت کو ساری دنیا مدرسہ کہتی ہے ایسا نہیں کہ درس و تدریس کے مقامات تو مدرسہ ہوں اور دوسری ضروریات کی جگہیں مدرسہ سے خارج ہوں
(3) ہم مسلمانوں کے نزدیک نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم نے جہاں بھی کچھ ارشاد فرمایا ہے اور جس مقام پر بھی صحابہ کرام کو کچھ سکھایا ہے وہ ساری جگہیں مدرسہ کہلانے کی اولین حقدار ہیں۔
ان تینوں مسلمہ تمہید کے بعد یہ عرض ہے کہ بیشک مسجد نبوی کا چبوترہ واردین وصادرین کے لئے قیام گاہ تھا۔
فقراء ومساکین صحابہ وہاں رہائش پذیر رہتے تھے۔
اور جن کا کوئی شناسا نہیں ہوتا یا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تو ایسے لوگوں کے لیے صفہ نبوی بہترین ٹھکانے کا کام دیتا تھا
مگر یہ خیال کہ صفہ صرف أقامت کی جگہ تھی سو فیصد غلط ہے۔
اور یہ دعویٰ کہ تدریس کا کام مسجد نبوی میں ہوتا تھا اور صفہ صرف رھنے اور سونے کی جگہ تھی۔
کسی طرح درست نہیں۔
چنانچہ آئیے احادیث رسول کے جھروکے سے تھوڑا سا جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کیا صفہ میں خود معلم انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے درس دیا ہے یا نہیں؟
کیا صفہ کے مکین طلبہ اپنی رہائش گاہ پر تکرار ومذاکرہ کرتے تھے یا نہیں؟
اور دئیے ہوئے اسباق کوچبوترہ میں بیٹھ کر یاد کرتے تھے یا نہیں؟
اسی طرح یہ دعویٰ بھی حدیث پاک سے کہاں تک میل کھاتا ہے؟
کہ مدرسہ صفہ کے طلبہ صفہ میں آرام کرتے تھے اور مسجد میں اسباق لیا کرتے تھے؟
فقراء ومساکین صحابہ وہاں رہائش پذیر رہتے تھے۔
اور جن کا کوئی شناسا نہیں ہوتا یا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تو ایسے لوگوں کے لیے صفہ نبوی بہترین ٹھکانے کا کام دیتا تھا
مگر یہ خیال کہ صفہ صرف أقامت کی جگہ تھی سو فیصد غلط ہے۔
اور یہ دعویٰ کہ تدریس کا کام مسجد نبوی میں ہوتا تھا اور صفہ صرف رھنے اور سونے کی جگہ تھی۔
کسی طرح درست نہیں۔
چنانچہ آئیے احادیث رسول کے جھروکے سے تھوڑا سا جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کیا صفہ میں خود معلم انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے درس دیا ہے یا نہیں؟
کیا صفہ کے مکین طلبہ اپنی رہائش گاہ پر تکرار ومذاکرہ کرتے تھے یا نہیں؟
اور دئیے ہوئے اسباق کوچبوترہ میں بیٹھ کر یاد کرتے تھے یا نہیں؟
اسی طرح یہ دعویٰ بھی حدیث پاک سے کہاں تک میل کھاتا ہے؟
کہ مدرسہ صفہ کے طلبہ صفہ میں آرام کرتے تھے اور مسجد میں اسباق لیا کرتے تھے؟
دوستو! صفہ ایک مسقف چبوترہ تھا جو کہ مسجد نبوی کے صحن سے باہر مشرق کی طرف قبلہ کے مخالف سمت یعنی شمال میں مسجد کے دروازہ سے باہر بنایا گیا تھا جس کے طول و عرض کی مکمل صراحت تو میرے سامنے نہیں لیکن چند تحریروں کی روشنی میں اندازہ یہ ہے کہ 20 فٹ لمبا اور 15 فٹ چوڑا یہ چبوترہ تھا.
اسی کے ساتھ محدثین کے اس اقرار کو بھی ملا لیجئے کہ اصحاب صفہ کبھی 70 افراد ہوتے اور کبھی اس سے زیادہ بھی.
بھلا غور کیجئے کہ 20 فٹ لمبی جگہ میں 70 افراد کیا سوسکتے ہیں؟
ہرگز نہیں۔
اسی لیے ابونعیم نے حلیۃ الأولياء جلد 1 ص 352 پر حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم کی خدمت سے فارغ ہوئے تو
*اوی الی المسجد وکان ھو بیتہ*
گویا ابوذر غفاری جوکہ صفہ کے مشہور طالب علم ہیں ان کی آرام گاہ صفہ نہیں مسجد نبوی تھی۔
بلکہ اسی سے آگے خود ابوذر غفاری کا قول یوں نقل ہے کہ
*ناموا فی المسجد*
گویا طلبہ صفہ میں سے صرف ابوذر نہیں بلکہ اور بھی طلبہِ صفہ مسجد نبوی ہی میں سوتے تھے۔
امام بن حبان نے اپنی صحیح میں 5550 نمبر حدیث میں ایک دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پانچ طلبہ صفہ سے رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ
*ان شئتم اتیتم المسجد فنمتم فیہ قال قیس بن طغفہ الغفاری احد من أصحاب الصفہ فنمنا فی المسجد*
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور کتاب فتح الباری جلد 11 ص 291 میں رقمطراز ہیں کہ
*کان اھل الصفۃ ناسا فقراء لا منازل لھم فکانو ینامون فی المسجد*
مشہور اھل حدیث عالم علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ جلد 7ص 1412 پہ یہ صراحت کی ہے کہ
*کان اھل الصفۃ یبیتون فی المسجد*
اسی کے ساتھ محدثین کے اس اقرار کو بھی ملا لیجئے کہ اصحاب صفہ کبھی 70 افراد ہوتے اور کبھی اس سے زیادہ بھی.
بھلا غور کیجئے کہ 20 فٹ لمبی جگہ میں 70 افراد کیا سوسکتے ہیں؟
ہرگز نہیں۔
اسی لیے ابونعیم نے حلیۃ الأولياء جلد 1 ص 352 پر حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم کی خدمت سے فارغ ہوئے تو
*اوی الی المسجد وکان ھو بیتہ*
گویا ابوذر غفاری جوکہ صفہ کے مشہور طالب علم ہیں ان کی آرام گاہ صفہ نہیں مسجد نبوی تھی۔
بلکہ اسی سے آگے خود ابوذر غفاری کا قول یوں نقل ہے کہ
*ناموا فی المسجد*
گویا طلبہ صفہ میں سے صرف ابوذر نہیں بلکہ اور بھی طلبہِ صفہ مسجد نبوی ہی میں سوتے تھے۔
امام بن حبان نے اپنی صحیح میں 5550 نمبر حدیث میں ایک دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پانچ طلبہ صفہ سے رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ
*ان شئتم اتیتم المسجد فنمتم فیہ قال قیس بن طغفہ الغفاری احد من أصحاب الصفہ فنمنا فی المسجد*
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور کتاب فتح الباری جلد 11 ص 291 میں رقمطراز ہیں کہ
*کان اھل الصفۃ ناسا فقراء لا منازل لھم فکانو ینامون فی المسجد*
مشہور اھل حدیث عالم علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ جلد 7ص 1412 پہ یہ صراحت کی ہے کہ
*کان اھل الصفۃ یبیتون فی المسجد*
گویا یہ دعویٰ کسی طرح بھی درست نہیں کہ صفہ کے مکین مسجد نبوی میں درس لیتے اور صفہ میں سوتے تھے کیونکہ أولا تو صفہ میں اتنی جگہ ہی نہیں کہ سارے لوگ وہاں سوسکیں
ثانیاً محدثین کی صراحت آپ کے سامنے ہے کہ اصحاب صفہ مسجد ہی میں سوتے تھے ممکن ہے کہ کچھ لوگ صفہ میں سوتے ہوں اور اکثر لوگ مسجد میں سوتے ہوں۔
لیکن سونے کی جگہ بہرحال مسجد تھی۔
ان تفصیلات کے بعد اب تو آپ کو یہ کہنا چاہئے کہ طلبہ کے لیے مسجد ہی باضابطہ قیام گاہ بھی ہے درسگاہ بھی۔
آئیے اب ذرا دوسرے رخ پر بھی غور کرتے ہیں کہ صفہ درسگاہ ہے یا نہیں؟
تو ذخیرہ احادیث کو دیکھ کر حیرت واستعجاب کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ بذات خود نبی اکرم کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ صفہ میں تشریف فرما ہیں اور کبھی قرآن مجید سکھلا تے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی دوسرے اسباق دیتے ہوئے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔
مثلاً علامہ عینی کی نخب الإفکار جلد 12 ص 176 پہ ایک طالب علم حضرت اوس کی یہ روایت موجود ہے کہ
*انالقعود عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی الصفہ وھو یقص علینا ویذکرنا الخ وقال الالبانی اسنادہ صحيح*
یعنی ہم طلبہ صفہ رسول اللہ کے پاس صفہ ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ مسند درس پہ رونق افروز ہوکر ہمیں نصیحت فرما رہے ہیں اور واقعہ بیان کررہے ہیں۔
لیجیے اس روایت میں صاف صاف کہا جارہا ہے کہ درس جو ہورہا تھا وہ مسجد میں نہیں بلکہ صفہ میں ہورہا تھا اور سبق دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود رسول اللہ ہیں۔
اسی طرح ابن تیمیہ کی المستدرک علی المجموع جلد 1 ص 99 پر ایک دوسرے طالب علم عبدالرحمن بن سمرہ کا بیان ہے کہ
*....خرج علینارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ونحن فی صفۃ بالمدینۃ فقام علینا فقال إنی رآیت البارحۃ عجباً الخ*
اس روایت کو نقل کر کے البانی صاحب کہتے ہیں کہ وھو من أحسن الأحاديث۔
گویا اس روایت میں رسول اللہ کا کھڑے ہو کر درس دینے کا ذکر ہے مگر کہاں؟
مسجد میں نہیں بلکہ صفہ میں۔
اسی طرح کی اور بھی متعدد روایات ہیں جن میں صاف صاف اقرار ہے کہ صفہ میں درس ہورہا ہے اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ صفہ درسگاہ نہیں بلکہ قیام گاہ ہے تو فیاللعجب ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہاں تک تو محض نمونہ کے طور پر احادیث کی وہ تصریحات دکھلائی گئی ہیں کہ صفہ صرف قیام کے لئے نہیں تھا بلکہ باضابطہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی وہاں قائم تھا ان کے علاوہ صحابہ کرام کا آپسی مذاکرہ اور اسباق کا یاد کرنا اس پر مستزاد ہےجنہیں طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے۔
کیونکہ امید ہے کہ اتنے سے بھی بات واضح ہو چکی ہے۔
ثانیاً محدثین کی صراحت آپ کے سامنے ہے کہ اصحاب صفہ مسجد ہی میں سوتے تھے ممکن ہے کہ کچھ لوگ صفہ میں سوتے ہوں اور اکثر لوگ مسجد میں سوتے ہوں۔
لیکن سونے کی جگہ بہرحال مسجد تھی۔
ان تفصیلات کے بعد اب تو آپ کو یہ کہنا چاہئے کہ طلبہ کے لیے مسجد ہی باضابطہ قیام گاہ بھی ہے درسگاہ بھی۔
آئیے اب ذرا دوسرے رخ پر بھی غور کرتے ہیں کہ صفہ درسگاہ ہے یا نہیں؟
تو ذخیرہ احادیث کو دیکھ کر حیرت واستعجاب کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ بذات خود نبی اکرم کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ صفہ میں تشریف فرما ہیں اور کبھی قرآن مجید سکھلا تے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی دوسرے اسباق دیتے ہوئے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔
مثلاً علامہ عینی کی نخب الإفکار جلد 12 ص 176 پہ ایک طالب علم حضرت اوس کی یہ روایت موجود ہے کہ
*انالقعود عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی الصفہ وھو یقص علینا ویذکرنا الخ وقال الالبانی اسنادہ صحيح*
یعنی ہم طلبہ صفہ رسول اللہ کے پاس صفہ ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ مسند درس پہ رونق افروز ہوکر ہمیں نصیحت فرما رہے ہیں اور واقعہ بیان کررہے ہیں۔
لیجیے اس روایت میں صاف صاف کہا جارہا ہے کہ درس جو ہورہا تھا وہ مسجد میں نہیں بلکہ صفہ میں ہورہا تھا اور سبق دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود رسول اللہ ہیں۔
اسی طرح ابن تیمیہ کی المستدرک علی المجموع جلد 1 ص 99 پر ایک دوسرے طالب علم عبدالرحمن بن سمرہ کا بیان ہے کہ
*....خرج علینارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ونحن فی صفۃ بالمدینۃ فقام علینا فقال إنی رآیت البارحۃ عجباً الخ*
اس روایت کو نقل کر کے البانی صاحب کہتے ہیں کہ وھو من أحسن الأحاديث۔
گویا اس روایت میں رسول اللہ کا کھڑے ہو کر درس دینے کا ذکر ہے مگر کہاں؟
مسجد میں نہیں بلکہ صفہ میں۔
اسی طرح کی اور بھی متعدد روایات ہیں جن میں صاف صاف اقرار ہے کہ صفہ میں درس ہورہا ہے اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ صفہ درسگاہ نہیں بلکہ قیام گاہ ہے تو فیاللعجب ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہاں تک تو محض نمونہ کے طور پر احادیث کی وہ تصریحات دکھلائی گئی ہیں کہ صفہ صرف قیام کے لئے نہیں تھا بلکہ باضابطہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی وہاں قائم تھا ان کے علاوہ صحابہ کرام کا آپسی مذاکرہ اور اسباق کا یاد کرنا اس پر مستزاد ہےجنہیں طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے۔
کیونکہ امید ہے کہ اتنے سے بھی بات واضح ہو چکی ہے۔
رضوان احمد قاسمی