مفتی نوال الرحمن حیدرآبادی سے فقیر عامر شیخ کی گفتگو.
مفتی نوال الرحمن حیدرآبادی نے اپنے کئی بیانات میں یہ دعوٰی کیا ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ "آٹومیٹک" امیر بن گئے تھے اسی طرح گمراہ سعد کاندھلوی بھی آٹومیٹک امیر بن گیا ہے اور یہی بات انہوں نے فقیر عامر شیخ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھی بڑی تاکید سے دہرائی۔
مفتی نوال کے اس دعوے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ متعین کرنے کے لیے چھ صحابہ کی شوری بنائی تھی۔ سن 35 میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر بنے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس شوری کے بقیہ 5 افراد کا انتقال ہو گیا لہذا اس شوری کے آخری فرد حضرت علی رضی اللہ عنہ تنہا باقی رہ گئے جوکہ "آٹومیٹک" امیر بن گئے۔
(یہ مفتی نوال کا دعوٰی ہے)
(یہ مفتی نوال کا دعوٰی ہے)
نوٹ: مفتی نوال نے اولا اس فقیر سے گفتگو کرنے سے گریز کیا اور کچھ بھی بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن جب آنجناب نے صرف ایک جز پر مجبوراً بات کی تو اپنے باطل دعوے کو جھوٹ اور دجل سے مدلل کیا...
اللہ انہی عقل سلیم عطا فرمائے، اے کاش کہ اگر مفتی نوال سارے اجزاء پر مفصّل گفتگو کرتے تو انکے سارے دعوے اور دلائل نما دھوکے راکھ بن کر ہوا ہوجاتے اور موصوف دوبارہ کہیں بھی بیان کرنے کے لائق نہ بچتے۔
مفتی نوال اپنے اس دعوے کی دلیل میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ یہ بات حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں کہیں نہیں لکھی ہے بلکہ اسکے برخلاف حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت کی بنیاد ارباب حل و عقد کی شوری کے فیصلہ کو قرار دیا ہے۔
مزید یہ کہ موصوف کا یہ دعوی کہ "" حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی شوری کے پانچ افراد کے انتقال کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آٹومیٹک امیر بن گئے تھے"" جہاں حضرت شاہ صاحب رح کے متعلق ایک بد ترین جھوٹ، خبیث ترین دجل ہے، وہیں تاریخ صحابہ میں خیانت کی بڑی جرائت اور ایک کھلا بہتان ہے. اس لیے کہ تاریخی حقائق کے اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت (25 ذی الحجۃ بروز جمعہ سن 35 ہجری) کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی شوری کے تین افراد بقید حیات تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ متعین کرنے کے لیے ان چھہ صحابہ کا انتخاب فرمایا تھا:
1.عثمان بن عفان وفات سن 35(تقریب التہذیب ص 385)
2.عبد الرحمن بن عوف وفات سن 32(تقریب التہذیب ص 594)
3.علي بن أبي طالب وفات سن 40(تقریب التہذیب)
4.الزبير بن العوام وفات سن 36( تقریب التہذیب ص214)
5.سعد بن أبي وقاص وفات سن 55( تقریب التہذیب ص 232)
6.طلحة بن عبيد الله وفات سن 36 (تقریب التہذیب ص 464)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی متعین کردہ شوری کے چھہ افراد میں سے مندرجہ ذیل صحابہ بقید حیات تھے۔
حضرت زبیر کی وفات سن 36 میں ہوئی
حضرت طلحہ کی وفات سن 36 میں ہوئی
حضرت سعد بن ابی وقاص کی وفات سن 55 میں ہوئی۔
نیز یہ کہ اگر آٹومیٹک امیر بننے کا مذکورہ طریقہ شرعاً درست ہوتا تو سن 40 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ (وفات 55 ھ) آٹومیٹک امیر بن جاتے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہوا اور نہ ہی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس نوع کی کو روایت ملتی ہے بلکہ اس نوع کی بات کہنا تاریخ میں تحریف کے مترادف ہے۔
اعداد و شمار اور حوالہ جات کے ساتھ کی گئی اس مختصر وضاحت کے بعد یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ مفتی نوال الرحمن حیدرآبادی کا گمراہ سعد کاندھلوی کو "آٹومیٹک" امیر بنانے کا دعویٰ محض کسی دماغی مریض کی بکواس سے کی حیثیت رکھتا ہے.
1. آڈیو: 08:40 (17 ستمبر 2018)
2. آڈیو: 04:42 (17 ستمبر 2018)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کی اصل عبارت اور اس کا اسکین ملاحظہ فرمائیں:
او یجعل شوری بین قوم کما کان عند انعقاد خلافۃ عثمان، بل علی ایضاً رضی اللہ عنھما۔
ترجمہ:
(امارت کا تیسرا طریقہ)
یہ ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان ایک شوری بنائی جائے (اور وہ شوری امیر طے کرے) جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت ہوا، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت بھی ایسا ہی ہوا.
حجۃ اللہ البالغۃ، جلد 2، باب "الخلافۃ" ص 231
(درخواست ہے کہ اس پوسٹ کو خوب دھیان سے سمجھ کر پڑھیں اور دونوں آڈیوز کو مکمل سماعت فرمائیں.)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں