سعد صاحب کو امیر ثابت کرنے کا پرانا دجل نئے انداز میں....
اور اسکا جواب
دجل
حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب نے اپنے انتقال کے بعد صرف اور صرف امیر طے کرنے کے لیے دس افراد طے کیے تھے ان کے نام یہ ہیں ۔
١) حاجی عبد الوہاب صاحب دامت برکاتهم
٢) مفتی زین العابدین صاحب
٣) مولانا سعید احمد خان صاحب
٤) حاجی عبد المقیت صاحب
٥) بھائی افضل صاحب
٦) مولانا عمر پالن پوری صاحب
٧) میاں جی محراب صاحب
٨) مولانا اظہار الحسن صاحب
٩) مولانا زبیر الحسن صاحب
١٠) شیخ الحدیث حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم
نوٹ : فی الحال ان دس افراد میں سے صرف حاجی عبد الوہاب صاحب اور شیخ الحدیث حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم ہی حیات ہے ۔
حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کے انتقال کے بعد میاں جی محراب صاحب نے فیصل بن کر کچھ مصلحت کی بنیاد پر،
مجبوراً ایک امیر طے کرنے کے بجائے تین فیصل طے کئے تھے ۔
١) مولانا اظہار الحسن صاحب
٢) مولانا زبیر الحسن صاحب
٣) شیخ الحدیث حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم
نوٹ: اس فیصلے پر اہل علم حضرات مفتی زین العابدین صاحب، مولانا سعید احمد خان صاحب اور بہت سے افراد،
بڑے افسوس کے ساتھ کہتے تھے کی ہم اپنا ایک امیر طے نہیں کر سکے کیونکہ ایک امیر کا ہونا ہی سنت ہے ۔
(یہ تینوں حضرات مولانا اظہار الحسن صاحب، مولانا زبیر الحسن صاحب اور مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم،
حضرت جی مولانا انعام الحسن کا ۱۹۹۵ میں انتقال کے بعد سے کام کو لیکر چلیں ۔
پھر مولانا اظہار الحسن صاحب کا تقریباً ۱۹۹۷ میں انتقال کے بعد سے،
مولانا زبیر الحسن صاحب اور مولانا محمد سعد صاحب ٢٠١٤ تک کام کو لیکر چلیں ۔
پھر مولانا زبیر الحسن صاحب کے انتقال کے بعد سے اب تک (2017) یعنی تقریباً ٢٢ سال سے،
الحمد اللہ شیخ الحدیث حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب کام کو لیکر چل رھے ہے.
نوٹ : حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب خود سے عالمی امیر بنے نہیں،
بلکہ الله کی طرف سے تبلیغی جماعت کے کام کرنے والے سب سے بڑے اکابرین کے بنائے ہوئے عالمی امیر بچے ہیں یعنی باقی ہے )
الله نے اپنی قدرت کو استعمال کرکے پھر سے اس تبلیغی جماعت والے کام کو الحمد الله عین سنت کے مطابق ایک ہی امیر شیخ الحدیث حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم کے تابع کردیا ۔
الله حضرت جی کو قبول فرمائے آمین
*الجواب*
سعد صاحب کو امیر بنانا اسی وقت ممکن ہے جبکہ اولا وہ منہج اہل سنت والجماعت پر ہو...
ایسا شخص جس کے متعلق علماء دارالعلوم ودیگر علماء حقہ سخت بے اطمینانی کا اظہار کررہے ہوں اور یہ اندیشہ ظاہر کررہے ہوں کہ یہ شخص اہل سنت والجماعت سے ہٹ کر جدید جماعت کو تشکیل دینے کے در پے ہے.... وہ شخص کبھی بھی اولو الامر میں سے نہیں ہو سکتا.....
اور نہ ہی اہل سنت والجماعت کی کسی جماعت، تنظیم وتحریک کا قائد، امیر، صدر، ہوسکتا ہے.
*نیز یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب سعد صاحب پر دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جمہور اہل سنت سے انحراف کا فتوی لگ گیا اور یہ خدشہ بھی ظاہر کر دیا گیا کہ سعد صاحب ایک نئی جماعت بنانے کے در پے ہیں جو اہل سنت والجماعت سے منحرف ہوگی تو اب وہ تمام تر توثیقات و تائیدات کالعدم ہو گئیں جو سعد صاحب کو، ماضی میں جمہور اہل سنت سے انحراف کے فتوے سے قبل حاصل تھیں، جنکی بنا پر سعد صاحب دعوت و تبلیغ کے اہم فرد، یا فیصل اور ذمہ دارسمجھے جا رہے تھے اس لیے کہ جمہور اہل سنت والجماعت سے منحرف شخص اہل سنت والجماعت کی کسی بھی جماعت،تنظیم،تحریک کا ذمہ دار یا فیصل ہرگز نہیں ہو سکتا*
اب حال یا مستقبل میں ان قدیم توثیقات و تائیدات یا فیصلوں کو، سعد صاحب کی فضیلت کے لیے یا ان کے لیے کسی بھی امر کے ترتب کے لیے دلیل بنانا لغو، دجل، احتجاج بغیر حجۃ اور استدلال بغیر دلیل کی قبیل سے ہوگا۔
ثانیاً یہ طے فرمائیں کہ 1995 کے مشورے میں آخر ایک امیر کیوں طے نہیں کیا جا سکا..؟؟؟ وہ کون سی مصلحت تھی جسکی بنا پر امارت کو ختم کیا گیا اور بغیر امیر کی شوری کو اختیار کیا گیا...؟؟؟
یہ کہ کر کہ "کسی مصلحت کی بنا پر ایک امیر طے نہیں کیا" حقائق سے آنکھیں چرانا اور نتیجۃََ امت کو گمراہ کرنا ہے.
اگر یہ تین فیصل عالمی حیثیت کے تھے تو عالمی مشورے میں کتنی بار فیصل بنے؟؟؟
اور عالمی مشورے (حرمین، رائیونڈ، ٹونگی) میں مولانا زبیر صاحب رح اور سعد صاحب کے علاوہ، میانجی محراب رح ،مولانا عمر صاحب پالنپوری رح،مفتی زین العابدین صاحب رح، حاجی عبدالوہاب صاحب دامت فیوضہم 1995 سے تا حال، کیوں فیصل بنتے رہے جبکہ یہ سارے ہی اکابر 1995 کے مشورے میں فیصل بھی نہیں بنائے گئے. اور یہ بات کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں کہ دعوت و تبلیغ میں مولانا الیاس رح سے لیکر مولانا انعام الحسن رح تک عالمی مشورے کا فیصل، عالمی امیر ہی رہا، اسکے علاوہ دوسرا کوئی نہیں رہا....
اگر سعد صاحب کو عالمی فیصل مان لیا جائے تو 2015 کے مشورے میں جب شوری میں ناموں کا اضافہ کیا گیا اس وقت حاجی عبدالوہاب صاحب فیصل کیسے بن گئے جبکہ آپکے قول کے مطابق عالمی فیصل تو سعد صاحب تھے ؟؟؟
نیز جب یہی تین عالمی فیصل بنائے گئے تھے اور یہی تین سارے کام کے اصل ذمہ دار تھے تو 1999 کے خط میں کسی بھی کام چلانے کے لیے پوری شوریٰ کے اتفاق کی بات کیوں لکھی ہے؟؟؟
یہ کیوں نہیں لکھا کہ محض ان دونوں (مولانا زبیر صاحب رح اور سعد صاحب ، اس لیے کہ 1999 میں مولانا اظہار صاحب رح کی وفات ہوچکی تھی) ہی کا اتفاق کافی ہے.؟؟؟
"پوری شوریٰ" کے لفظ کا انتخاب اس بات کی صاف اور صریح دلیل ہے کہ کام کی ذمہ دار "پوری شوری" تھی نہ کہ تین افراد.
*یہ تمام تر حقائق اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ 1995 کے مشورے میں طے کردہ تین فیصل عالمی نہیں تھے بلکہ ملکی تھے، اب ملکی سطح کے تین فیصل میں سے دو کی وفات کے بعد تیسرے فرد کو زبردستی عالمی امیر کہنا خیانت اور بد دیانتی کی بدترین مثال ہے.*
*فقیر ابوخنساء الحنفی*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں