ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

27/1/19

کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

از....... رضوان احمد قاسمی

میرا مزاج ہرگز یہ نہیں کہ نوک قلم پہ گستاخ کلمہ آجائے. انداز بیان سخت اور لہجہ بے ادب ہوجائے لیکن کیا کیجیے کہ افتاد طبع کے خلاف ہوتے ہوئے بھی مجھے اپنی موجودہ تلخ نوائی پہ کوئی ملال نہیں کیوں کہ جب آپ ہی نے زہر دیا ہے تو زہریلی آواز بھی سہنی ہی پڑے گی۔

*کیوں مری تلخ نوائی سے خفاہوتے ہو؟*
*مری آواز کو یہ زہر دیا ہے کس نے؟*

بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی کے امام و خطیب مولانا سعد کاندھلوی کا قدیم روایات سے انحراف یقیناً کسی نہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور لگاتار تبلیغی میلوں کا انعقاد بھی کسی نہ کسی بڑی سازش کا نتیجہ ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ بنگلہ دیش میں کشت وخون کا بازار گرم ہو. حملہ آور اپنے بازوؤں پہ پٹیاں باندھ کے حملہ کریں. بڑے بوڑھوں کو بھی گھسیٹ گھسیٹ کے مارا جائے . طلباء و علماء کے خون سے ہولیاں کھیلی جائیں اور نہتے شورائی تبلیغیوں پر مسلح سعدیانی یکلخت ٹوٹ پڑیں،
اسی طرح ہمارے وطن عزیز میں لگاتار تبلیغی میلوں کا انعقاد ہو. سرکاری امداد کے دہانے کھولے جائیں اور اجتماعات کی ایسی تشہیر کی جائے جیسے کسی الیکشن کی تشہیر ہورہی ہو۔
جن لوگوں نے مروجہ تبلیغی جماعت کے قدیم اجتماعات دیکھ رکھے ہیں ان کی آنکھیں خون کے آنسو رونے پہ مجبور ہیں اور جن دوستوں نے اہل تبلیغ کے اکرام مسلم کا سبق یاد کر رکھا ہے وہ حیرت واستعجاب میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ یا خدا یہ ماجرا کیا ہے؟
کیا یہ وہی جماعت نہیں؟
جہاں کشت و خون کا کوئی تصور بھی نہ تھا؟
کیا یہ وہی جماعت نہیں؟
جہاں کسی دوسرے مکتب فکر والوں سے آنکھیں ملانے کی بھی اجازت نہ تھی؟
کیا یہ وہی جماعت نہیں؟
جہاں میڈیائی تشہیر کا دور دور تک کوئی گذر نہ تھا؟
کیا یہ وہی جماعت نہیں؟
جہاں چھ باتوں سے آگے بڑھنا قابلِ مؤاخذہ سمجھا جاتا تھا؟
اور کیا یہ وہی جماعت نہیں؟
جہاں علماء وطلباء کو آنکھوں پہ بٹھانے کا درس ملتا تھا۔
مگر ہائے افسوس...
کہ اب تو سب کچھ بدل چکا ہے نہ ماضی کی وہ روایات ہیں اور نہ ہی وہ پرانے اقدار۔ نہ ہی وہ قدیم روحانیت ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا کوئی پروگرام۔
بس شور ہے تو مختلف اجتماعات کا. ھنگامہ ہے تو اپنی امارت کے پرچار کا. عبادتوں کا ڈھونگ ہے تو کھیت کھلیان میں سجدہ ریزی کا اور فکر و تشویش ہے تو بس اس کا کہ کیسے ہر ایک مرکز پہ قبضہ ہوجائے۔
اس لیے موجودہ صورتحال کے پیش نظر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع

*یہ عبادتیں مرصّع. یہ سجودِ مجرمانہ*
*مجھے ڈر ہے بن نہ جائے تِرے کفر کا بہانا*

ھندوستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ یقیناً مولانا سعد سے ابھی تک عقیدت رکھتا اور سب کچھ کر گذرنے کی حد تک ان سے محبت کرتا ہے۔ مگر چونکہ عوام کو یہ خبر نہیں کہ اندر کیسی کھچڑی پک رہی ہے؟
موجودہ سرکاری طاقتوں نے انہیں کیسے استعمال کر رکھا ہے؟
اور اسلام دشمن عناصر نےان کے ہاتھوں میں کون سی بندوق تھما دی ہے؟
اس لیے عوام کا ان سے عقیدت رکھنا بجا ہے۔ لیکن جو لوگ باریکی سے جائزہ لیتے ہیں اور ماضی و حال کی تبلیغی جماعت کا موازنہ کرتےہیں وہ بالآخر یہ صدا لگانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اے تبلیغ کے متوالو!
تم نے جن کو تبلیغی جماعت کے ایک دھڑے کا امیر سمجھ رکھا ہے وہ تو پوری جماعت کو غریب بنانے کے درپے ہے. تم نے جن کو حنفی اور دیوبندی مان رکھا ہے وہ تو حنفیت اور دیوبندیت کی بیخ کنی میں لگا ہوا ہے اور وہ تبلیغی جماعت جس کا شجرہ نسب دارالعلوم دیوبند سے مل رہا تھا اور جس کو دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ کہا جاتا تھا اب وہی شاخ اپنی اصل کے مد مقابل کھڑی ہے اور ناخلف اولاد کا کردار نبھارہی ہے اس لیے ع

*نگہباں بن کے جو خود ہی چمن کی آبرو لوٹے*
*چمن والو! عقیدت چھوڑ دو ایسے نگہباں کی*

اورنگ آباد کا میلہ ہو یا بلند شھر کا شکتی پردرشن. بنگلہ والی مسجد کی ہفتہ واری مجلس ہو یا کوئی اور بھاشن کا پروگرام۔
ہرجگہ مولانا سعد کی نت نئی ھفوات. اسلام بیزار کلمات. مدارس دشمن ملفوظات. اور دارالعلوم دیوبند کے خلاف  طنزیہ اشارات سے کون واقف نہیں؟
مگر اب تو ڈائریکٹ حملہ ہے ناموس صحابہ پر. دھجیاں اڑ رہی ہیں سیرتِ رسول کی. اور من مانی تشریح ہے مذھب اسلام کی. اس لئے کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ اب ساری خوش فہمیوں کو خیرباد کہئے. (العیاذ باللہ)
نئے نبی کا کلمہ پڑھ لیجئے اور نئے دین میں داخل ہو جائیے تا کہ اکبر کے دین الہی کی طرح دین سعدیانی بھی تاریخ کا ایک حصہ بن سکے اور مکہ و مدینہ کے بجائے نظام الدین کی بنگلہ والی مسجد کو سب کچھ سمجھنا شروع کر دیجئے تا کہ آپ بھی نئے خلیفۃ اللّٰہ کے صحابہ ثابت ہوں (لاحول ولا قوۃ الا باللہ) 
یہ کوئی محض لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ مولانا سعد نے اپنے ایک بیان میں یہ کہہ رکھا ہے کہ 
نظام الدین کی بنگلہ والی مسجد بھی مسجد نبوی کی طرح ہے کہ مسجد نبوی سے منحرف ہونے والے جس طرح مرتد ہیں اسی طرح بنگلہ والی مسجد سے انحراف کرنے والے بھی مرتد ہیں۔
نیز یہ بھی ان کا اعلان  ہے کہ
مساجد سے ھٹ کر جتنے بھی مدارس اسلامیہ ہیں وہ سب دنیوی ضروریات کے تابع ہیں گویا وہ دنیوی مراکز ہیں. دین کے مراکز نہیں. دین کے مراکز تو صرف اور صرف مساجد ہیں۔
گویا مدارس والے دنیا دار ہیں اور مساجد والے دیندار۔
حالانکہ مساجد و مدارس کے درمیان اس طرح کی تفریق کرنا بھی دماغی خباثت کا نتیجہ ہے اور اگر تفریق کا بھوت ہی سوار ہے تو سورہ آل عمران آیت 79 میں خدائی اعلان بھی تو دیکھ لیجیے کہ 
*ولکن کونوا ربانیین بماکنتم تعلمون الکتاب وبما کنتم تدرسون*
یعنی خدائے پاک کا اعلان ہے کہ قرآن مجید سیکھنے سکھانے والا اللّٰہ والا ہے. مرد باخدا ہے اور سبھوں کو ربانی یعنی سچا اور پکا دیندار کا خطاب دیا گیا ہے اور کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے کہ یہ تدریس و تعلیم کہاں ہورہی ہے؟
مساجد کے اندر یا مساجد سے باہر؟
اس کے باوجود بھرے مجمع میں اہل مدارس کو دنیادار بتلانے والا کیا کہلائے گا؟
اور خدائی اعلان وقرآنی ارشاد کے خلاف آواز لگانے والے پر کیا حکم لگے گا؟
آپ ہی فیصلہ کیجئے. میں تو خدائی کا دعویدار نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی ابھی کافر بتلاسکتا. بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ اگر یہی سلسلہ باقی رہا تو کفر کی منزل بھی کوئی زیادہ دور نہیں۔ 
تاہم تھوڑی دیر کے لیے یہاں رک جائیے اور اسلام دشمن طاقتوں کا نظریہ سامنے لائیے کہ ان طاقتوں کا اصل ٹارگیٹ کیا ہے؟
مدارس اسلامیہ کے تعلق سے ان کی خواہش کیا رھتی ؟
اور اہل مدارس کو وہ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
یہی نا؟
کہ جب تک مدارس قائم ہیں اسلام کا چہرہ بدلا نہیں جاسکتا. جب تک مدارس سے مسلمانوں کا قلبی تعلق ہے ان کے دلوں سے اسلام چھینا نہیں جاسکتا. اور جب تک علماء حق سے ان کی عقیدت و روابط ہیں. وہ اسلام سے منحرف نہیں ہوسکتے. لہذا کسی طرح مدارس پہ شب خون مارا جائے اور انہیں نیست و نابود کردیا جائے جیسا کہ اسپین (اندلس) میں یہی حربہ آزمایا گیا تو مسلمانوں کا وجود خود ہی مٹ گیا اسی طرح یہاں بھی اگر کامیابی مل جائے تو پھر کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ چنانچہ جب ہر تجربہ ناکام ہوگیا اور انھوں نے دیکھ لیا کہ دارالعلوم دیوبند اور ان جیسے مدارس سے مسلمانوں کو توڑا نہیں جاسکتا تو سوچا کہ آؤ ان ہی کی ایک اہم تحریک کو یرغمال بنالو. نظر انتخاب مروجہ تبلیغی جماعت پہ پڑی جہاں ان کی خوش قسمتی سے ایک ایسا فرد موجود بھی تھا جسے حرص وہوس کے دام فریب میں گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ آج تک جو کچھ بھی ہوا اور ہورہا ہے وہ سب اسی یرغمالیت کا شاخسانہ ہے اور جس طرح دشمنان اسلام نے پہلے بھی کسی کو نبی اور کسی کو مجدد کی کرسی تھمادی تھی اسی طرح آج پھر مجتھد وقت. اور مہدی موعود کی کرسی تھما دی گئی ہے۔
اس لیے اصل نشانہ تو دارالعلوم دیوبند ہے اور ان جیسے مدارس کی مرکزیت پہ ڈاکہ زنی ہے مولانا سعد اور ان کا گروپ تو محض ایک مہرہ ہے. اصل ٹارگیٹ نہیں. اصل ٹارگیٹ تو تحریک دیوبندیت. فکر قاسمیت. اور شعور ولی اللہی پہ ضرب لگانی ہے۔
لہذا یہ وقت ہاتھ پہ ہاتھ دھرنے کا نہیں. بلکہ صاف لفظوں میں دشمنوں کے آلہ کار کو فیصلہ سنانے کا ہے اور دودھ وپانی کو الگ الگ کر دینے کا ہے۔

*رستے کاانتخاب ضروری سا ہوگیا*
*اب اختتامِ باب ضروری سا ہو گیا*
*ہم چُپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا*
*اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا*

باتیں تو اور بھی ہیں جن سے میرا قلب و جگر چھلنی ہوا چاھتا ہے مگر ابھی اتنا ہی کافی ہے البتہ مولانا عامر عثمانی کے اشعار بھی شاید ایسے ہی وقت کی ترجمانی کے لیے ہیں کہ

*وقت کی گردشوں کا بھروسہ ہی کیا؟ مطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہل چمن*
*ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے. کھوگئے رہ نما لٹ گئے راہ زن*

*کتنے شاھیں بسیرے کو ترسا کئے. باغ پر چھاگئے کتنے زاغ و زغن*
*کتنے اہل وفا دار پر چڑھ گئے. کتنے اہل ہوس بن گئے نورتن*

*دیجئے ترک تقویٰ کاطعنہ مگر. شیخ کا حسن تاویل تو دیکھئے*
*جب قدم زہد کے لڑکھڑانے لگے. رکھ دیا حسن کا نام توبہ شکن*

مورخہ 8 دسمبر 2018ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم