جو شخص جماعت کو چھوڑ دے اور اپنے امیر کو ذلیل کرے ؟
از قلم : حضرت مولانا مفتی شکیل منصور القاسمی
(شیخ الحدیث و مفتی سورینام، ساؤتھ امریکہ)
اسلام میں مرکزیت اور اجتماعیت پہ بڑا زور دیا گیا ہے۔
انتشار و تفریق کی بڑی مذمت آئی ہے ، سفر جیسی عارضی اور وقتی حالت میں بھی یہ گوارا نہیں کیا گیا کہ کوئی اجتماعیت کے بغیر تنہا سفر کرے :
الراكب شيطان والراكبًان شيطانان والثلاثة ركب .
(سنن أبي داود - الرقم: 2607 سكت عنه)
اسی لئے کسی امیر سلطنت و حاکم کے ماتحت میں مسلمانوں کو زندگی گزارنے اور اس کے زیر امارت اپنے مسائل حل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے :
من مات ولیس في عنقہٖ بیعۃ ، مات میتۃ جاہلیۃ ۔( صحيح مسلم:4793)
یعنی جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت نہیں ہے ،تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
پھر جب اسلامی طریقے کے مطابق امیر و حاکم کی تنصیب ہوجائے تو اس کی تابع داری کو لازم اور اس کے خلاف خروج و بغاوت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
حتی کہ فاسق و فاجر و کالا کلوٹا حبشی غلام حاکم بھی اگر شرعی حدود میں رہ کر فیصلہ کرے تو اس کی اتباع کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
“اسمعوا وأطيعُوا ، وإن استُعمل عليكم عبدٌ حبشيٌّ ، كأنَّ رأسَه زبيبةٌ .” أنس بن مالك (صحیح البخاري - الرقم: 7142 )
اگر مسافر امیر سفر کی اور عوام الناس امیر مملکت کی تابع داری نہ کریں تو اجتماعی معاملات بدنظمی کا شکار ہوجائیں گے اور پھر شیطان ان میں دخل اندازی کر شر و فساد مچانا شروع کر دے گا۔
اس معنی کی حدیث حضرت عبدالله بن عمرو سے مروی ہے :
الراكب شيطان والراكبًان شيطانان والثلاثة ركب .
سنن أبي داود - الرقم: 2607
سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
و أخرجه الترمذي (1674 )، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (8798 )، وأحمد (6748 )
اثنائے سفر ، اجتماعی امور اور خصوصاً امور مملکت میں بحیثیت منتظم ومقتدر ایک آدمی کے طے ہونے سے سارے اجتماعی کام افرا تفری کے بغیر بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں۔
سبیل المومنین سے انحراف اور حاکم وقت سے بغاوت کرنے سے مسلمان مختلف فتنوں آزمائشوں اور الجھنوں کا شکار ہوکر بے حیثیت جاہلیت کی موت مرتا ہے ،
منتظم و مدبر کی حیثیت سے حضر، یا اثنائے سفر تبلیغی جماعتیں بھی اصول مذکور کی روشنی میں تجربہ کار ، حلم مزاج ، متبع سنت ، اور مسائل شرعیہ سے واقف امیر منتخب کرلیں تو بہتر ہے۔
لیکن خصوصیت سے اس (تبلیغی )منتظم کے بارے میں کوئی نصِ حدیث وارد نہیں۔
امیر کو حقیر سمجھنے والی مسند احمد اور مجمع الزوائد کی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت اس بابت پیش کی جاتی ہے
( مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ وَاسْتَذَلَّ الْإِمَارَةَ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا وَجْهَ لَهُ عِنْدَهُ)
وہ روایت مختصر ہے ، ربعی بن حراش رحمہ اللہ اس حدیث کا پس منظر یوں بتاتے ہیں :
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا كَثِيرٌ أَبُو النَّضْرِ عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ قَالَ انْطَلَقْتُ إِلَى حُذَيْفَةَ بِالْمَدَائِنِ لَيَالِيَ سَارَ النَّاسُ إِلَى عُثْمَانَ فَقَالَ يَا رِبْعِيُّ مَا فَعَلَ قَوْمُكَ قَالَ قُلْتُ عَنْ أَيِّ بَالِهِمْ تَسْأَلُ قَالَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُمْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَسَمَّيْتُ رِجَالًا فِيمَنْ خَرَجَ إِلَيْهِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ وَاسْتَذَلَّ الْإِمَارَةَ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا وَجْهَ لَهُ عِنْدَهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ أَتَاهُ بِالْمَدَائِنِ فَذَكَرَهُ
(مسند أحمد:23283،إسناده حسن )
ترجمہ:
ربعی بن حراش رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس دور میں فتنہ پرور لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے تھے مدائن میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا انہوں نے مجھ سے پوچھا اے ربعی ! تمہاری قوم کا کیا بنا؟
میں نے پوچھا کہ آپ ان کے متعلق کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟
انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف کون کون روانہ ہوئے ہیں ؟
میں نے انہیں ان میں سے چند لوگوں کے نام بتا دیئے وہ کہنے لگے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جماعت کو چھوڑ دیتا ہے اور اپنے امیر کو ذلیل کرتا ہے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہاں اس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی ۔
اسی طرح مستدرک حاکم علی الصحیحین میں ہے :
417 - الحديث السادس فيما يدل على أن الإجماع حجة " . أخبرنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ ، ثنا حامد بن أبي حامد المقري ، ثنا إسحاق بن سليمان القاري ، ثنا كثير بن أبي كثير أبو النضر ، عن ربعي بن حراش ، قال : أتيت حذيفة بن اليمان ليالي سار الناس إلى عثمان ، فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : " من فارق الجماعة واستذل الإمارة لقي الله ولا حجة له " . تابعه أبو عاصم ، عن كثير
(المستدرك على الصحيحين، أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري، دار المعرفة
سنة النشر: 1418هـ / 1998م كتاب العلم » من فارق الجماعة واستذل الإمارة لقي الله ولا حجة له)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کا پس منظر صریح بتا رہا ہے کہ یہاں امیر سے کیا مراد ہے ؟
اسلامی حکومتی امور میں امیر کی ضرورت اور اس کی اتباع کے لزوم میں توسیع بیجا کر کے تبلیغی جماعت کے منتظم و مدبر (امیر ) پہ اسے منطبق کرنا تزویراتی عمل ہے جو جائز نہیں ہے ،
کیا جس کا کوئی امیر نہیں، شیطان اس کا امیر ہے ؟
*من لا أمير لهم فالشيطان أميرهم*
ان لفظوں میں کوئی بھی حدیث حتی کہ مقطوع حدیث بھی نہیں ہے۔
یہ لوگوں کی خانہ ساز، اور اپنی چلائی ہوئی باتیں ہیں۔
مذکورہ عربی مقولے کو انہی الفاظ میں حدیث نبوی کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنا ہے جو حرام وموجب جہنم ہے۔
واللہ اعلم
*شکیل منصور القاسمی*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں