*نرگسیت (Narcissism)*
تحریر: فقیر ابوخنساء الحنفی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
*رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک.*
*مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضاء.*
آج بعد نماز فجر جناب علامہ سلمان ندوی صاحب کا یہ کھلا خط بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوا جس میں مفتی زید صاحب مظاہری دامت فیوضہم کی ایک تحریر پر رد کیا گیا ہے. اولا تو میں یہ طے نہیں کر سکا کہ سلمان ندوی صاحب "رفع" نزاع باہمی سے نزاع باہمی کو اٹھانا مراد لیتے ہیں یا نزاع باہمی کو ختم کرنا؟ اس لیے کہ ان دنوں موصوف کی فارغ البالی اور مخصوص نوعیت کا جذبہء خدمت دین دیکھ کر رفع نزاع باہمی خود بھی سہما ہوا سا لگ رہا ہے۔
مولانا موصوف کی تحریر و تقریر کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے حادثاتی طور پر کچھ زیادہ کتابیں پڑھ لیں جو کہ ان سے سنبھل نہیں پارہی ہیں اور اب مولانا موصوف "اپنا" صغریٰ کبری جوڑ کر اپنا خود کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں انہیں ایجابِ صغریٰ اور کلیہ کبری سے کوئی سروکار نہیں انکی سوچ اس دریا کی سی ہے جسے اسکا قطعی علم نہ ہو کہ کرہ ارضی کا ایک ٹکڑا پیاسا ہے اور دوسرا اسکی تری سے بےزار، فکری اعتدال نے موصوف کا ازل سے کچھ نہ بگاڑا، انکی فکر ایک مخصوص سمت پر چلتی ہے اور وہ اسے حرف آخر منوانا چاہتے ہیں۔
*موصوف کی اس سیمابی طبیعت کو دیکھ برملا یہ شعر زبان زد ہوتا ہے:*
*عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یکساں*
*ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے*
حضور والا جب ظرف نہیں تو پینا کیوں..؟؟؟
*اُدھر اہل دیوبند ""سب جام بکف بیٹھے ہی رہے... ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے"" کے مصداق لگتے ہیں.*
بہر کیف....
گذشتہ تحریرات و تقاریر اور 2 مارچ 2019 کی اس حالیہ تحریر میں بھی موصوف نے صرف اس طبقے کو قوت بخشی ہے جنہیں یا تو علم اور مطالعے سے اللّٰہ واسطے کا بیر ہے یا جنہیں علم کی جھوٹی کہانی سنا کر عربی انگریزی کے کچھ ترجمے رٹوائے گئے اور اپنے مدرسے کی چہاردیواری کے تاریک کمروں میں بیٹھ کر چند امور کا نام "وسعت" چند کا "تنگ نظری" اور چند کا نام "اعتدال" رکھ لیا اور اسے تھوپنے پر تشدد کرنے لگے اور انہیں بھی اسکی تنفیذ پر لگا دیا۔
علامہ موصوف ایک طرف کہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند مرحوم ہوچکا اور اسکی قبر پر فاتحہ خوانی کی تشکیل بھی کرتے ہیں اور حالیہ دارالعلوم دیوبند کو نقلی اور مردہ قرار دیتے ہیں جبکہ مولانا موصوف 2011 میں امام حرم عبدالرحمن السدیس کی آمد پر دارالعلوم دیوبند حاضر ہو کر اسی نقلی اور مردہ دارالعلوم دیوبند میں خطاب فرماتے ہیں اور مولانا ارشد مدنی صاحب کو امیر المسلمین فی الہند کے لقب سے نوازتے ہیں۔
مولانا..!!
ذرا مزاج میں توقف پیدا فرمائیں عالیہ ثالثہ کے طالب علم کی طرح کب تک گفتگو کریں گے..؟؟
یہ کوئی کمپیوٹر گیم نہیں ہے جہاں جیسے من چاہا کھیل لیا آپ طے کیجیے کہ وہ قول و عمل کیا تھا.؟ اور یہ کیا ہے؟؟؟
کیا اُس وقت تک دارالعلوم دیوبند کی روح پوری طرح پرواز نہیں کر پائی تھی؟؟
کیا اُس وقت تک اس دارالعلوم دیوبند کے نقلی ہونے کا کچھ پروسیس رہ گیا تھا؟؟؟
کذب و تقیہ اس وقت کررہے تھے یا اب کر رہے ہیں؟؟
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات 1957میں ہوئی،اپنی تحریر میں "اشارۃََ" علامہ موصوف نے حضرت مدنی کی موجودگی تک دارالعلوم دیوبند کو اصلی اور زندہ گردانا ہے... اور اس دیوبند کو لائق اقتدا مانا ہے.
اب چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
1. موصوف نے لکھا کہ 1894 سے 1927 تک ملک بھر میں ندوۃ العلماء کے اجتماعات ہوتے رہے جس میں اہل علی گڑھ، اہل حدیث، صوفیاء نے شرکت کی لیکن دیوبند نے خاموش بائیکاٹ کیا آگے لکھتے ہیں "" بنیاد و اساس ہی مسلک کی علیحدگی پر پڑگئی"" . مولانا موصوف یہ واضح کریں کہ اس وقت "اصلی دیوبند" کے مسلک سے علیحدگی کر کے آپکا ندوۃ صحیح تھا یا غلط؟؟؟
جب اصلی اور زندہ دارالعلوم ہی سے ندوۃ جڑنے کو راضی نہیں ہوا اور اس وقت ہی اصلی دارالعلوم سے وحشت رہی تو آج کے "نقلی اور مردہ دارالعلوم" سے توحش کیوں کر قابل ذکر امر ہوا..؟؟؟
ثانیاً یہ کہ اس وقت کے اصلی دارالعلوم دیوبند کا بقول آپکے، ندوے کا بائیکاٹ کرنا صحیح تھا یا غلط؟؟؟
مولانا..!! معلوم ہوا کہ آپ کے گوناگوں اجتہادات آپکے معدے کی پرت پر کچھ اس طرح پر اثر انداز ہوئے ہیں کہ آپکو "اصلی دیوبند" تو حلق سے نہ اتر سکا اور "نقلی دیوبند" کو بھی کچھ نگلتے اگلتے موصوف نے بالآخر اگل ہی دیا. اور اب علامہ نے کلہاڑا تھام لیا ہے کہ شروعات نقلی کے نام پر کی جائے پھر آگے کارواں بنتا گیا تو اصلی کو بھی اکھاڑنے کی سعی ہوگی. 2 مارچ 2019 کی یہ تحریر اس پیش قدمی کی عکاس ہے اور اب مولانا موصوف نقلی سے اصلی کی طرف رواں دواں ہیں۔
2. اصلی دیوبند فقہ حنفی پر قائم تھا اور اب بھی ہے لیکن سلمان صاحب کے ندوۃ کی بنیاد حنفی شافعی دونوں پر ہے.... مالکیہ اور حنابلہ نہ جانے کس آسیبی اثر کا شکار ہوئے کہ ندوے سے خارج کر دیے گئے۔
3. "اصلی دیوبند" خالص ماتريدیہ اور اشاعرہ کے مسلک پر ہے اور عقائد سلفیت سے کلیۃََ بیزار ہے ( حضرت امام نانوتوی، حضرت رشید احمد گنگوہی، امام انور شاہ الکشمیری، حضرت تھانوی، حضرت مدنی وغیرہ وغیرہ اساطین کی تحریرات اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں) لیکن سلمان ندوی صاحب کا ندوہ اس "اصلی دارالعلوم دیوبند" کے مسلک کے خلاف "سلفی" بھی ہے.
(نوٹ: یہ فلسفہ اتحاد کی بڑی ہی بھونڈی مذاق اڑاتی تصویر ہے کہ سلفیوں کو بھی یارانے میں شامل کر لیا ہے جبکہ سلفیوں کے عقائد، خلق قرآن، جہت باری تعالیٰ، حوادث لا اول لہا، ازلیت کرسی، میں کلیۃََ اہل سنت والجماعت سے الگ ہیں، سلفیہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں تشبیہ و تجسیم کے قائل ہیں، نزولِ باری کو اسکے حقیقی معنی پر محمول کرکے اسکا ذات باری پر انطباق بھی کرتے ہیں... لاحول ولا قوۃ الا باللہ)
4. مولانا موصوف آگے لکھتے ہیں کہ مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ مودودی صاحب سے وابستہ رہے اور انہیں ندوہ بلایا اور تقریر کروائی اور مودودی صاحب کی وفات پر تعزیتی جلسہ ہوا۔
یہ عمل بھی اصلی دارالعلوم دیوبند کے منہج سے مختلف ہے اس لیے کہ اصلی دیوبند کے جس ستون کی دہائی دیتے ہوئے موصوف نے اپنی قیمتی روشنائی خرچ کرتے ہوئے کاغذ سیاہ کیے ہیں وہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے مودودی صاحب پر قدغن لگائی اور انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج گمراہ ضال مضل اور قادیانی کے ہم پلہ قرار دیا. اسکے بعد شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فتنہ مودودیت لکھ کر مودودی صاحب کے فتنہ ہونے پر مہر لگا دی.(دیکھیے مکتوبات مولانا حسین احمد مدنی صاحب رح، بسلسلہ مودودی جماعت)
5. جیسا کہ اوپر عرض کیا مولانا موصوف نے حادثاتی طور پر کتابیں کچھ زیادہ پڑھ لیں جو کہ ان سے سنبھل نہیں رہیں اب ہوا یوں کہ رکشہ ڈرائیور کو ٹرک چلانے کے منصب پر فائز کر دیا گیا تو ظاہر ہے کہ راہ چلنے والوں کے حق میں اسکے نتائج قابل تحسین تو کبھی نہ نکلیں گے... اگر قوت ہضم( Digestive Metabolism) درست نہ ہو اور معدہ متحمل نہ ہو تو اطباء کثرت طعام کو منع کرتے ہیں اور ثقیل چیزوں سے کلیۃ پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں ورنہ نتیجۃََ مریض قے کرے گا جس سے شدید قسم کی سڑاند بھی پھوٹے گی.... یہی مولانا موصوف کے ساتھ بھی ہوا کہ جو پڑھا اسکے صغریٰ کبری ملانے اور حد اوسط کے سمجھنے میں غلطی کردی اور شدید ترین غلطی کردی اور یوں ایک پانچوے مسلک کی دعوت بھی دے ڈالی اور یہ مسلک ہے مسلکِ ولی اللہی...کل کو علامہ صاحب کا کوئی مرید بغلیں بجاتے ایک چھٹے مسلک "مسلک سلمانی" کی دعوت دیتا نظر آئے گا اور وہ چھٹا مسلک 1400 سال کا سب سے معتدل مسلک ہوگا اور اس مرید کا مرید ساتویں مسلک کا علم بردار ہوگا اور وہ مسلک بھی اقرب الی النصوص اور اَلْصق بالاعتدل ہوگا اور پھر کچھ اس طرح مسالک کی باڑ آئے گی جو قیامت کی تیسری شام تک بھی شاید ختم نہ ہوگی۔
بہر کیف علامہ صاحب کا بیان کردہ مذکورہ طرز جہاں ایک طرف اصلی اور زندہ دیوبند کے خلاف ہے وہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی فکر کے بھی خلاف ہے اس لیے کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خود کو مسلک اربعہ میں مقید رکھتے تھے( دیکھیے العقد الجید) جبکہ سلمان ندوی صاحب ایک پانچوے مجتهد کی آراء کو اپنا مسلک باور کروا رہے ہیں۔
6. آگے فرماتے ہیں :ندوۃ العلماء نے "ماتریدی، اشعری، سلفی نظریات میں تطبیق کے ساتھ آزادانہ اجتہاد کی ترجمانی کی ہے"...
سوال یہ ہے کہ اس آزادانہ اجتہاد کی اجازت میں حکمت کیا ہے؟؟
اگر باب عقائد میں بھی آزادانہ اجتہاد کی گنجائش کے ساتھ اتحاد محمود ہے تو معتزلہ مرجیہ جہمیہ کرامیہ قدریہ جبریہ مشبھۃ مجسمہ وغیرہ وغیرہ تمام فرقوں پر پچھلے ایک ہزار سال سے تمام علماء اہل سنت والجماعت رد کیوں کرتے چلے آئے ہیں اور ان ردود کی صرف اہم کتابوں کی محتاط تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے غنیہ میں تمام فرقوں کے نام بھی نقل فرمائے ہیں اور انکی گمراہی کی وجوہ بھی ذکر کی ہیں۔
7. موصوف ایک ضدی بچے کی طرح ضد کر رہے ہیں کہ ندوہ دیوبند کے فتوے کو سکہ رائج الوقت نہیں مانتا...
میرے بزرگ..!! یہ جملہ آپ ہی کے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرما گئے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کی جانب سے مودودی صاحب، غیر مقلدین، بریلویوں پر فتوی لگائے جانے کے بعد فرما گئے ہیں۔
نیز یہ کہ یہ علامہ موصوف کا یہ قول بھی اصلی دارالعلوم دیوبند کے منہج سے مختلف ہے اس لیے کہ بزعم علامہ موصوف، حضرت مولانا حسین احمد مدنی اصلی دیوبند تھے.... اور حضرت مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی نے خود مودودی صاحب پر قدغن لگائی اور انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج گمراہ ضال مضل اور قادیانی کے ہم پلہ قرار دیا۔
8. دارالعلوم دیوبند کی عالمیت مولانا موصوف کو بڑا پریشان کیے ہوئے ہے رہ رہ کر علامہ موصوف اس درد سے بلبلا اٹھتے ہیں اور دارالعلوم کی عالمیت کو ڈھانے کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں. اللّٰہ انہیں اس کڑے وقت میں صبر، علو ہمتی اور برداشت کی قوت عطاء فرمائے. خیر کافی تیاری اور بڑی سوچ بچار کے بعد موصوف نے سوالنامہ تیار کیا اور ایک انٹرویو ارینج کروایا، اُنیس ندوی کے براد خورد صہیب نے جوکہ ندوے میں زیر تعلیم ہیں انہوں نے اسکی ذمہ داری لی اور اس طرح علامہ دوراں کی کڑی محنت سے 40 منٹ پر مشتمل عالم انسانیت کا " محض ایک سوال والا" پہلا عجیب ترین انٹرویو معرض وجود میں آیا۔(اسکرین شاٹ محفوظ ہے)
علامہ صاحب نے پہلے بیان میں دارالعلوم کی عالمیت کی بنیاد صرف فتاوی کی قبولیت اور عدم قبولیت پر رکھی تھی لیکن موصوف کو شاید خود اس بات پر شرح صدر نہ ہو سکا تو اب کچھ باتیں اور جوڑ دیں اور اب اپنے آپ کو گویا محفوظ محسوس کرنے لگے۔
بہر حال..!!! علامہ صاحب پہلے یہ طے فرما لیں کہ کسی بھی ادارے کے عالمی ہونے کا معیار و مقیاس کیا ہے..؟؟؟
کیا عرب، الجزائر، تیونس، مراقش، انڈونیشیا وغیرہ کی اسلامی تحریکات کا محرک ہونا یہ عالمی ہونے کا معیار ہے..؟؟
کیا دنیا بھر کی جتنی بھی حق جماعتیں، تنظیمیں، تحریکیں اور جتنے بھی اقسام کے کام ہیں ان تمام میں محرک بنے بغیر کسی ادارے کی عالمیت مخدوش ہے..؟؟؟
اگر یہ مفروضہ درست ہے تو لفظ عالمی(انٹرنیشنل) کا اطلاق تاریخ انسانی میں کسی بھی دینی یا غیر دینی ادارے جماعت فرد تنظیم وتحریک پر نہیں کیا جا سکتا۔
اللّٰہ کے نبی علیہ السلام اور قرآن کریم پر بھی نہیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کی عالمیت بھی آپکے اس پلپلے وہم کی بنا پر خطرے میں پڑ جائے گی.... اس لیے کہ اللّٰہ رب العزت، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اور قرآن کے ماننے والے دنیا میں بہت کم ہیں بلکہ اکثریت نہ ماننے والوں کی ہے... تو پھر علامہ صاحب اللّٰہ رب العزت، اللّٰہ کے نبی اور قرآن مجید کی عالمیت پر کب قدغن لگائیں گے؟؟؟
(نعوذبااللہ من ذلک)
یہ اعتراض ان دہریوں کا سا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام نے انسانی دنیا کو کیا دیا؟؟
ساری نئی ایجادات اور انسانی سہولت کی چیزیں تو مغرب ہی بنارہا ہے پچھلے ایک ہزار سال میں یہ کام مسلمانوں نے کیوں نہیں کیا؟؟؟
9. علامہ موصوف صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ 1894 سے 1927 تک ملک بھر میں ندوۃ العلماء کے اجتماعات ہوتے رہے جس میں اہل علی گڑھ، اہل حدیث، صوفیاء اور مشائخ نے شرکت کی لیکن دیوبند نے خاموش بائیکاٹ کیا آگے لکھتے ہیں "" بنیاد و اساس ہی مسلک کی علیحدگی پر پڑگئی"". اگر یہ بات درست ہے کہ ندوہ کی بنیاد دیوبند سے الگ مسلک پر پڑی ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات کیسے کہی کہ""ہم صاف کہتے ہیں کہ ہمارا مسلک وہی ہے جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور انکی اولاد و خلفاء کا تھا سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تھا اور جس پر علماء دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ قائم تھے، اور اخیر میں حضرت مدنیؒ حضرت رائے پوریؒ اور حضرت شیخ الحدیثؒ جس پر تھے.""
محترم علامہ صاحب..!! ندوے کو "دیوبند کا ضمیمہ" خود حضرت مفکر اسلام علی میاں ندویؒ ہی بنا گئے ہیں مفتی زید صاحب دامت فیوضہم محض ناقل ہیں لہٰذا ادباََ درخواست ہے کہ توپ کا دہانہ مفتی زید صاحب دامت فیوضہم کی طرف سے پھیر لیں اور اصل "ضمیمہ گر" کی طرف موڑ دیں ... یہ تو ایسا ہی ہوا کہ یہودی حضرت جبریل علیہ السلام سے چڑ بیٹھے تھے کہ یہی ساری آیتیں لیکر اترتا ہے۔
10. دارالعلوم دیوبند کی اصلی نقلی، عالمی علاقائی کی تقسیم کے تئیں علامہ موصوف کی فکری سیمابیت یا نفسانیت ملاحظہ ہو...
الف) کبھی تو علامہ کے مطابق عالمی اور اصلی دارالعلوم تب تک تھا جب تک قاری طیب صاحبؒ مہتمم تھے اور دارالعلوم دیوبند تقسیم نہیں ہوا تھا... تو اس حساب سے اصلی اور عالمی دیوبند 1983 تک تھا...
اس حساب سے نقلی دارالعلوم کی شوری میں حضرت علی میاں ندویؒ بھی تھے... تو علی میاں ندویؒ بھی نقلی اور مردہ دارالعلوم دیوبند کے معین و مددگار بن گئے...
ب) کبھی حضرت علامہ کہتے ہیں کہ اصلی و عالمی دیوبند حضرت حسین مدنیؒ کے دور میں تھا... یعنی 1957 تک... لہٰذا قاری طیبؒ کی حیات و اہتمام والا دیوبند بھی 1957 سے 1983 تک مردہ ہی قرار پایا...
ج) کبھی کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد کانگریس نے ظلم کیا تو اگر اصلی دیوبند ہوتا تو کانگریس کی مخالفت کرتا.... تو گویا اب حضرت مدنیؒ کی حیات والا دیوبند بھی اصلی نہ ہوا کہ آزاد ہندوستان اور کانگریس کی حکمرانی میں حضرت مدنیؒ دس سال زندہ رہے... (حضرت مدنیؒ کی وفات سن 1957 میں ہوئی)
د) کبھی کہتے ہیں کہ 1894 سے 1927 تک ندوہ کے جلسہ کا دیوبند نے خاموش بائیکاٹ کیا کیونکہ بنیاد ہی مسلک کے اختلاف پر تھی۔
لہٰذا اس جوڑ گھٹاؤ سے آزادی سے پہلے والا دیوبند بھی حیات سے عاری نکلا... بلکہ 1894 سے ہی دیوبند بے جان، غیر عالمی اور نقلی ٹھہرا...
ح)چونکہ دیوبند بھی مسلک ولی اللہی پر قائم ہے تو علامہ موصوف اب آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ ندوہ اصل مسلک ولی اللہی پر قائم ہے... اور دیوبند اس کے خلاف... تحریر میں مسلک ولی اللہی کی ندوی تشریح فرما کر یہ باور کرا گیا ہے کہ دیوبند مسلک ولی اللہی کا محض دعوےدار ہے... عامل نہیں...
تو اب ماشاءاللہ اس صغریٰ کبری کی اٹھا پٹخ اور حد اوسط کی گھسائی سے بالآخر دیوبند اپنے قیام کے روز اول ہی سے نقلی اور غیر عالمی قرار پایا....
دراصل علامہ موصوف اپنے جن اجتہادات کی تکمیل و تنفیذ چاہتے ہیں اسکو ثابت کرنے کے لئے وہ دیوبند کو ناقابل تسخیر قلعہ پاتے ہیں... اسکا حل یہ نکالا کہ اپنی مطلب براری کا حصول جہاں تک لکیر کھینچنے سے پورا ہوتا ہے وہاں سے وہ عالمی اور اصلی کی لکیر کھینچ دیتے ہیں... لیکن پورے دارالعلوم کو یکلخت مردہ بھی نہیں کہ سکتے اس لیے کہ اسی دارالعلوم کے اعتماد کو بنیاد بنا کر عوام کے سامنے اپنے بہت سے مسلمات کا اثبات بھی کرنا ہے اس لیے علامہ دوراں نے ایک "معتدل" راہ نکالی... اصلی نقلی معتبر غیر معتبر کی مختلف لکیریں کھینچیں تاکہ مختلف اوقات میں ان لکیروں کا "معتدل" استعمال کیا جاسکے.... یعنی حضرت کے اجتہادات سے بھرا ٹرک راستے اور مسلک کا پابند نہیں، بلکہ راستے اور مسلک انکے پابند ہیں۔
11. تحریر کی آخری سطروں میں علامہ صاحب نے اپنی تمام تر خدماتِ دین کی مساعی جلیلہ اور دقت ریزی کا نچوڑ پیش فرمایا اور گویا "اپنا" "صغری کبری" ملا چکنے کے بعد، بطور مدعا بالآخر "اپنا" نتیجہ سجا دیا کہ دیوبند سعد صاحب کو گمراہ کہتا ہے جبکہ ندوہ انکا استقبال کرتا ہے، انہیں امیر جماعت تسلیم کرتا ہے انکی تقریر کرواتا ہے.....
ان سطروں کو پڑھ کر اس فقیر کی آنکھیں اشکبار ہوکر رہ گئیں پتہ نہیں یہ آنسو اب کب سوکھیں..!!
جی میں آتا ہے کہ حضرت کی گود میں سر رکھ کر پھڑپھڑا کر جان جان آفریں کے حوالے کردوں۔
حضرت..!! اس ایک مدعے کے لیے اس درجے کی علمی فقہی اصولی وسعتی اعتدالی "رفع نزاع باہمی" مقالہ لکھنے کی کیا حاجت تھی..؟؟؟
اسکے لیے تو بہترین مؤثر طریقہ یہ ہوتا کہ آپ مسجد مسجد اعلان کروا دیتے کہ سعد صاحب امیر جماعت ہیں انکی تقریر ہر جگہ کروائی جائے.. قریہ قریہ بستی بستی نیز ندوے میں بھی اسکا اعلان چسپاں کروا دیتے کچھ تھوڑا سا خرچ ہوتا البتہ کام مظبوط ہوتا.... نہ اس میں اصلی نقلی کی عظیم المرتبت وفاقی علمی بحث کی نوبت آتی اور نہ ہی زندہ دیوبند اور مردہ دیوبند کے اثبات وابطال کے لیے کسی نص قطعی اور احادیث متواترہ کی حاجت ہوتی، اور اس درجے کی علمی اور اصولی عرق ریزی سے آپ بچ جاتے... جس درجے کے باریک فقہی اور اصولی اجتہادات و استدلالات کو حضرت بروئے کار لائے ہیں اور جتنی "سنجیدہ" اور " معتدل" گفتگو فرمائی ہے اسکے نتیجے میں نہ صرف ایک سعد صاحب بلکہ سعد صاحب کی اگلی کئی نسلیں گمراہی سے محفوظ ہو کر امارتِ تبلیغ کی حقدار ہو گئی ہیں۔
رہا دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ تو علامہ موصوف کی نگاہ عالی جاہ میں وہ محض ذہنی جمود اور غایت درجہ تشدد کا عکاس ہے کہ وہی چودہ سو سال پرانے اصول...
وہی عصمت انبیاء کا پرانا راگ...
وہی اہل سنت والجماعت کے مسلک کی اندھی تقلید...
اہل سنت والجماعت نہ خدا ہے نہ رسول تو اس اہل سنت والجماعت کی اتباع کیوں ضروری ہے.؟؟ اس فکری جمود کی بنا پر امت کی اجتماعیت خاک ہوکر رہ گئی... دراصل "وسعت" نہیں ہے... دراصل "اعتدال" نہیں ہے دراصل "اتحاد باہمی" کا مزاج نہیں ہے... لہذا ان دقیانوسیت زدہ فتووں کی طرف التفات کرنا آپ جیسے "اصلی" مسلمان عالم کی شان نہیں۔
(نعوذبااللہ من ذلک)
*الغرض علامہ موصوف کی باتوں سے معلوم ہوا کہ:*
1. علامہ موصوف نہ تو مولانا علی میاں ندویؒ کے مسلک پر ہیں اور نہ ہی موجودہ ندوے کے مسلک پر، کہ صحابہؓ پر زبان درازی کر کے موجودہ اہل ندوہ کے مسلک کو بھی جوتے نوک پر دے مارا یعنی قدیم و جدید دونوں ندوے کے مسلک سے بیزار...( اب کہیں علامہ صاحب ندوے میں اصلی نقلی والا جہاد بابرکت نہ چھیڑ بیٹھیں... حضرت سے ڈر ہی لگتا ہے.)
2. علامہ صاحب پہلے دارالعلوم دیوبند کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر اولا صرف نقلی اور مردہ دیوبند کے مسلک سے گریزاں تھے پر اب انکے اجتہاد کا رخ انکے اصلی دیوبند کی طرف بھی نوکیلے دانت نکالے کھڑا ہے لہذا انہوں نے اصلی اور زندہ دیوبند کے مسلک سے بھی بیزاری کا اعلان کردیا جیسا کہ موصوف کی تحریر میں صاف لکھا ہے کہ 1894 سے 1927 تک ملک بھر میں ندوۃ العلماء کے اجتماعات ہوتے رہے جس میں اہل علی گڑھ، اہل حدیث، صوفیاء اور مشائخ نے شرکت کی لیکن دیوبند نے خاموش بائیکاٹ کیا آگے لکھتے ہیں "" بنیاد و اساس ہی مسلک کی علیحدگی پر پڑگئی""....
3. باب فقہ میں ندوۃالعلماء تقلید شخصی کا قائل نہیں ہے بلکہ محض تقلید مطلق پر عامل ہے. جبکہ علامہ دوراں کا اصلی دارالعلوم تقلید شخصی کے باب میں کسی قسم کی لچک برداشت نہیں کرتا. (دلائل کی حاجت نہیں، عیاں را چہ بیاں)
(نوٹ: مذکورہ بالا نکتہ محض علامہ صاحب کی تحریر پر مبنی ہے اس فقیر کا ادعا نہیں)
4. باب عقائد میں ندوۃالعلماء ماتریدی اور اشعری کے ساتھ سلفی بھی ہے جبکہ علامہ صاحب کا اصلی دیوبند عقائد سلفیت سے کلیۃََ بیزار ہے۔
(نوٹ: یہ نکتہ بھی محض علامہ صاحب کی تحریر پر مبنی ہے اس فقیر کا ادعا نہیں)
قارئین سے درخواست:
مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوچکی کہ سلمان ندوی صاحب حفظہ اللّٰہ نہ تو دارالعلوم دیوبند کے مسلک پر ہیں اور نہ ہی ندوۃالعلماء کے مسلک پر...علامہ موصوف کا اصلی اور نقلی دارالعلوم کا نظریہ محض مسلک دارالعلوم سے توحش و تنفر پیدا کرنے کی ایک سعی ہے حقیقت یہ ہے کہ موصوف کو اپنی بد اجتھادی منوانے کا شوق ہے... آنجناب کا ہدف اور مقصود یہ ہے کہ جس طرح وہ چلتے ہیں دنیا انکے ساتھ چلے جب کہ یہ ممکن نہیں. ہم نہ مسلم پرسنل لاء کو کمزور کر سکتے نہ دارالعلوم دیوبند کو، نہ ندوۃالعلماء کو، اور نہ ہی بابری مسجد کا سودا کرسکتے ہیں. اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کی شان میں تو ادنی گستاخی کو روا نہیں سمجھتے یہی ندوۃالعلماء کا بھی مسلک ہے اور یہی دارالعلوم دیوبند کا مسلک ہے۔
یہ چند سطریں صرف اس لیے لکھی ہیں تاکہ حضرت علامہ دوراں صاحب کی نرگسیت، پراگندہ ذہنی اور فارغ البالی کی بنا پر اٹھنے والی بے چین فکروں کا یک گونہ تجزیہ سامنے آجائے مقصود مناظرہ نہیں ہے اور نہ ہی جواب در جواب کا سلسلہ دراز کیا جائے گا.
علامہ موصوف اپنی اجتہادی خامہ فرسائی کے ذریعے اپنی نرگسیت زدہ طبیعت کو کھجلاتے رہیں اور اسکے نشے میں مست رہیں۔
میرے محسن حضرت مولانا رابع صاحب دامت فیوضہم اور حضرت مولانا سعید الرحمن صاحب دامت فیوضہم سے بصد احترام عرض ہے کہ مولانا موصوف کے مزاج میں توقف پیدا کی سعی فرمائیں کہ یہ آپ کا سرمایہ ہے جس نے خود کو ضائع کر لینے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔
وما توفيقی الا باللّٰہ
تاریخ 04/03/2019
*فقیر ابوخنساء الحنفی*
1-4-377 high groove apt
مشیراباد کاوادی گوڈا حیدرآباد.
فون: 8074502896 (واٹس ایپ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں