ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

12/4/21

سب سے افضل ایمان کس کا ہے؟ فرشتوں کا یا انبیاء کا یا صحابہ کا یا آج کے دور کے مسلمانوں کا؟

IMG-20210412-WA0012


السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

مولانا صاحب! سب سے افضل ایمان کس کا ہے؟ فرشتوں کا یا انبیاء کا یا صحابہ کا یا آج کے دور کے مسلمانوں کا؟ مدلل جواب کی اشد ضرورت ہے۔


سائل: ضیاء الرحمن رام پور


الجواب باسم ملہم الصواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بلاتردد اور دو ٹوک بات یہ ہے کہ سب سے افضل ایمان انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا ہے۔

ایک حدیث؛ الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ملتی ہے، بعض علما نے جس کی تحسین بھی کی ہے اور بعض نے تصحیح بھی کی ہے، اسی حدیث کا مطلب سمجھنے میں بعض نامور علمائے کرام کو زبردست خطا ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ آج کے دور کے مسلمانوں کا ایمان انبیائے کرام کے مقابلہ میں بھی افضل کہتے ہیں۔ ہم ذیل میں اشمل الفاظ نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، پھر کچھ مزید باتیں لکھتے ہیں۔

عَنْ عَمَرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جدِّهِ رضى الله عنهم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَيُّ الْخَلْقِ أَعْجَبُ إِلَيْکُمْ إِيْمَانًا؟ قَالُوْا: الْمَلَائِکَةُ. قَالَ: وَمَا لَهُمْ لاَ يُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ قَالُوْا: فَالنَّبِيُّوْنَ. قَالَ: وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ؟ قَالُوْا: فَنَحْنُ. قَالَ: وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ أَعْجَبَ الْخَلْقِ إِلَيَّ إِيْمَانًا لَقَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِي يَجِدُوْنَ صُحُفًا فِيْهَا کِتَابٌ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِيْهَا.

(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 87، الرقم: 12560، وأبو يعلي عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه في المسند، 1 / 147، الرقم: 160، و الحاکم في المستدرک، 4 / 96، الرقم: 6993، والهيثمي عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه في مجمع الزوائد، 8 / 330، 6 / 65، وقال: رواه البزار وأحمد، وذکرہ الخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3 / 403، الرقم: 6288)


ترجمہ:

حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: کون سی مخلوق تمہارے نزدیک ایمان کے لحاظ سے سب سے عجیب تر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حضوری میں رہتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: پھر انبیائے کرام علیہم السلام۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور انبیائے کرام علیہم السلام کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: تو پھر ہم (ہی ہوں گے)۔ فرمایا: تم ایمان کیوں نہیں لاؤ گے جبکہ بنفس نفیس میں خود تم میں جلوہ افروز ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق میں میرے نزدیک سب سے عجیب تر اور قابل تعجب ایمان ان لوگوں کا ہے جو میرے(انتقال کے)بعد پیدا ہوں گے، وہ لوگ احکام دین کے مجموعہ مصحف یعنی قرآن پاک پائیں گے اور اس میں جو کچھ مذکور ہے سب پر ایمان لائیں گے۔


حدیث کی مختصر وضاحت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تابعین اور ان کے بعد پیدا ہونے والے مومنین کے ایمان بالغیب پر تعجب کا اظہار فرمارہے ہیں کہ واقع میں ان لوگوں نے بن دیکھے ایمان کو اختیار کیا، ان کے مقابلہ میں فرشتوں، انبیاء اور صحابہ کا ایمان اتنا باعث حیرت واستعجاب نہیں ہے، کیوں کہ فرشتے اللہ رب العزت کے قریب ہوتے ہیں، اور عالم بالا کے عجائبات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، پس ان کا ایمان لانا اتنا قابل تعجب نہیں، اسی طرح انبیاء کا معاملہ ہے کہ ان پر آسمان سے وحی اترتی ہے، فرشتہ آسمان سے آتا ہے اور حق تعالیٰ کا پیغام براہ راست ان کو پہنچاتا ہے، وہ فرشتے کو اپنی آ نکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان کے انوار کا مشاہدہ کر تے ہیں، پس ان کا ایمان لانا بھی اتنا قابل تعجب نہیں، اسی طرح صحابہ کا معاملہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ موجود ہیں، اور وہ لوگ وحی اور ایمان کے آ ثار و انوار کا مشاہدہ کر تے ہیں ، نبوت کی نشانیاں اور معجزے دیکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال باکمال سے انوار حق کا دیدار کر تے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وہم نشینی کے ذر یعہ ان میں اسرار حقیقت سرایت کرتے ہیں تو ان کا ایمان لانا بھی اتنا قابل تعجب نہیں، البتہ صحابہ کے بعد کے لوگ یعنی تابعین اور ان کے بعد کے تاقیام ساعت پیدا ہونے والے مومنین نے تو کسی بھی چیز کا مشاہدہ نہیں کیا پھر بھی بغیر دیکھے اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لائے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا بہت زیادہ قابل تعجب اور باعث حیرت ہے۔


ضروری تنبیہ:

اس حدیث کا واضح اور بے غبار مطلب وہی ہے جو اوپر لکھ دیا گیا۔ باقی اس حدیث سے اگر کوئی شخص یہ استدلال کرے کہ آج کے مسلمانوں کا ایمان سب سے افضل ہے، یہاں تک کہ انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات سے بھی افضل ہے تو یہ کج فہمی، صریح غلطی اور عوام کو گمراہ کرنے والی بات ہے، ایسا عقیدہ رکھنا اسلامیات کے خلاف ہے۔


والدلیل علی ماقلنا مایلی:


قال الملا علي القاري رحمه الله: 

6288 - ( وعن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده ) ، وقد سبق الكلام على ما يتعلق بهذا السند من المرام ( قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " أي الخلق " ) ، أي : المخلوقات ( " أعجب " ) ، أي : أغرب ( " إليكم إيمانا " ) ؟ تمييز ( قالوا ) ، أي : بعض الصحابة ( الملائكة ) . أي أعجب الخلق إيمانا ، أو التقدير هم الملائكة ( قال : " وما لهم لا يؤمنون وهم عند ربهم " ) ؟ أي مقربون ومشاهدون عجائب الملكوت وغرائب الجبروت ، فأي عجب وغرابة في إيمانهم ؟ ( قالوا ) ، أي : ذلك البعض أو بعض آخر ( فالنبيون ) ، أي : إن لم يكن الملائكة فالنبيون ( قال : وما لهم لا يؤمنون والوحي ينزل عليهم " ) ؟ بصيغة الفاعل ، وفي نسخة بالمفعول ( قالوا : فنحن . وقال : " وما لكم لا تؤمنون وأنا بين أظهركم " ) ، أي : فيما بينكم تشاهدون معجزاتي وأتلو عليكم آياتي . ( قال ) ، أي : الراوي ( قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " إن أعجب الخلق إلي " ) ، أي : عندي ( " إيمانا لقوم يكونون " ) ، أي : يوجدون ( "من بعدي " ) ، أي : من بعد مماتي من التابعين وأتباعهم إلى يوم الدين ( " يجدون " ) : استئناف بيان أي : يصادفون ( " صحفا " ) بضمتين جمع صحيفة أي : مصاحف وأجزاء ( " فيها كتاب " ) ، أي : مكتوب من عند الله ، وهو القرآن ( " يؤمنون بما فيها " ) . أي بما في تلك الصحف ، ولا يبعد أن يفسر الصحف بما يشمل الكتاب والسنة ، وحيث ورد الكلام في الأعجبية والأغربية ، فلا استدلال بالحديث في الأفضلية بوجه من وجوه المزية هذا . انتهى( مرقاة المفاتيح  11/420 دار الکتب العلمیہ بیروت)

FB_IMG_1618224220970

FB_IMG_1618224224242


قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :

" قَوْلُهُ: ( أَيُّ النَّاسِ أَعْجَبُ إيمَانًا ) إلَى قَوْلِهِ: ( قَوْمٌ يَأْتُونَ بَعْدِي يُؤْمِنُونَ بِالْوَرَقِ الْمُعَلَّقِ ) هُوَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ إيمَانَهُمْ عَجَبٌ أَعْجَبُ مِنْ إيمَانِ غَيْرِهِمْ ، وَلَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ أَفْضَلُ ؛ فَإِنَّ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ ذَكَرُوا الْمَلَائِكَةَ وَالْأَنْبِيَاءَ ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ أَفْضَلُ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْوَرَقِ الْمُعَلَّقِ۔

وَنَظِيرُهُ : كَوْنُ الْفُقَرَاءِ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ ؛ فَإِنَّهُ لَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ بَعْدَ الدُّخُولِ يَكُونُونَ أَرْفَعَ مَرْتَبَةً مِنْ جَمِيعِ الْأَغْنِيَاءِ ، وَإِنَّمَا سَبَقُوا لِسَلَامَتِهِمْ مِنْ الْحِسَابِ.

وَهَذَا بَابُ التَّفْضِيلِ بَيْنَ الْأَنْوَاعِ فِي الْأَعْيَانِ وَالْأَعْمَالِ وَالصِّفَاتِ أَوْ بَيْنَ أَشْخَاصِ النَّوْعِ بَابٌ عَظِيمٌ يَغْلَطُ فِيهِ خَلْقٌ كَثِيرٌ " انتهى من "مجموع الفتاوى"( 11/203)

FB_IMG_1618224227596

FB_IMG_1618224230651


واللہ اعلم وعلمہ اتم

 شاکر عمیر معروفی

احیاء العلوم مبارک پور، اعظم گڑھ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم