بیعتِ امارت اور بیعتِ سلوک میں فرق
سوال(۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بندہ کو درج ذیل حدیث کی تحقیق مطلوب ہے، امید کہ تحریر فرمائیں گے:
من خلع یدا من طاعۃ لقي اللّٰہ یوم القیامۃ لاحجۃ لہ، ومن مات ولیس في عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ۔ (صحیح مسلم ۲؍۱۲۸)
مذکورہ حدیث میں لفظ ’’بیعۃ‘‘ سے کیا اس زمانے میں مشائخ وبزرگوں سے بیعت ہونا بھی مراد ہوسکتا ہے یا اسلامی ملکوں میں امیر المؤمنین سے بیعتہونا ہی مراد ہے؟ اور مشائخ وبزرگوں سے بیعت ہونا قرآن حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
سوال میں مذکور حدیث کا مصداق وہ بیعت ہے جو اسلامی حکومت میں امیر المؤ منین سے کی جاتی ہے جو اس کی اطاعت کی علامت ہو تی ہے، اس کو ’’بیعتِ امارۃ‘‘ کہتے ہیں۔ پس اسلامی حکومت میں رہنے والے لوگوں پر اپنے شرعی امیر کی اطاعت کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قابلِ مذمت ہیں، جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ ایسے لوگ جہالت کی موت مرنے والوں کی طرح ہوں گے، اس کے برخلاف مشائخ اور بزرگوں میں جو بیعت اور سلوک کا سلسلہ جاری ہے اس کو ’’بیعتِ اصلاح‘‘ کہا جاتا ہے، یہ بیعت حدیثِ مذکور کا مصداق نہیں ہے؛ تاہم یہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اس طرح بیعت لی ہے اور قرآنِ کریم کی آیت: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ الخ [الممتحنۃ: ۱۲] میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ بیعت کوئی لازم یا فرض نہیں ہے؛ بلکہ سنت اور مستحب ہے، اور اگر کوئی شخص کسی بزرگ سے بیعت نہ ہو؛ لیکن وہ شریعت پر عمل کرتا ہو اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو، تو وہ ہر گز قابل ملامت نہیں۔
سوال میں مذکور حدیث کا مصداق وہ بیعت ہے جو اسلامی حکومت میں امیر المؤ منین سے کی جاتی ہے جو اس کی اطاعت کی علامت ہو تی ہے، اس کو ’’بیعتِ امارۃ‘‘ کہتے ہیں۔ پس اسلامی حکومت میں رہنے والے لوگوں پر اپنے شرعی امیر کی اطاعت کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قابلِ مذمت ہیں، جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ ایسے لوگ جہالت کی موت مرنے والوں کی طرح ہوں گے، اس کے برخلاف مشائخ اور بزرگوں میں جو بیعت اور سلوک کا سلسلہ جاری ہے اس کو ’’بیعتِ اصلاح‘‘ کہا جاتا ہے، یہ بیعت حدیثِ مذکور کا مصداق نہیں ہے؛ تاہم یہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اس طرح بیعت لی ہے اور قرآنِ کریم کی آیت: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ الخ [الممتحنۃ: ۱۲] میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ بیعت کوئی لازم یا فرض نہیں ہے؛ بلکہ سنت اور مستحب ہے، اور اگر کوئی شخص کسی بزرگ سے بیعت نہ ہو؛ لیکن وہ شریعت پر عمل کرتا ہو اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو، تو وہ ہر گز قابل ملامت نہیں۔
عن عبادۃ بن صامت رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وحولہ عصابۃ من أصحابہ: بایعوني علی أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادکم ولا تأتوا ببہتان تفترونہ بین أیدیکم وأرجلکم ولا تعصوا في معروف - إلی - فبایعناہ علی ذلک۔ (صحیح البخاري رقم: ۱۸، صحیح مسلم رقم: ۴۱، مشکاۃ المصابیح ۱؍۱۳)
اعلم أن البیعۃ سنۃ ولیست بواجبۃ …: ولم یدخل دلیل علی تأثیم تارکہا ولم ینکر أحد علی تارکہا۔ (القول الجمیل ۱۱)
فالحق أن البیعۃ علی أقسام، منہا: بیعۃ الخلافۃ، ومنہا بیعۃ الخلافۃ، ومنہا بیعۃ الإسلام، ومنہا بیعۃ التمسک بحبل التقویٰ، ومنہا: بیعۃ الہجرۃ والجہاد، ومنہا: بیعۃ التوقف في الجہاد۔ (القول الجمیل ۱؍۶ رحیمیۃ دیوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۱؍۱۴۳۵ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ