ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

3/8/18

*بجواب* بنگلہ والی مسجد کی وجہ تسمیہ

*بجواب*

*بنگلہ والی مسجد کی وجہ تسمیہ*

______________
*محمد توصیف قاسمی*
______________
(پہلے اصل تحریر بھی بعینہ نقل کی جاتی ہے جس پر نقد کیا گیا ہے)

مفتی احمد الرحمن قاسمی:
🌻 بنگلے والی مسجد کی وجہ تسمیہ🌻

مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی عرف علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کی زبانی آپ حضرات کو بنگلے والی مسجد مرکز نظام الدین دہلی کی وجہ تسمیہ معلوم ہوگئی وہ یہ کہ " مرزا الہی بخش سمدھی بہادر شاہ ظفر نے اپنے بنگلے میں یہ مسجد بنوائی تھی ، اسی وجہ سے اسکو بنگلے والی مسجد کہتے ہیں " حوالہ مولانا الیاس اور انکی دینی دعوت ، اور مرزا الہی بخش کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین مدنی نور اللہ مرقدہ کی زبانی یہ معلوم ہوگیا کہ " مرزا الہی بخش بہادر شاہ ظفر کا سمدھی تھا ، اور مجاہدین کے غداروں کا  سرغنہ تھا " حوالہ خود نوشت سوانح مولانا حسین احمد مدنی ، لہذا ایسی مسجد جسکو مجاہدین کے غدار نے زمانہء غداری میں اپنے بنگلہ میں  بنوائی  ہو ، وہ یقینا اپنی منافقت اور غداری کو چھپانے کیلئے ، اور نماز کے بہانہ دیگر  غداروں کو رائے و مشورہ دینے کیلئے ہی ہو سکتی ہے ، ایسی مسجد مسجد ضرار  ہے جسکو ڈھا دینے کا حکم ہے ، مسجد تقوی ہرگز نہیں ، اسکی بنیاد کا یہ حال ہے ، کچھ بعید نہیں ہے کہ اپنی غداری اور منافقت کی پالیسی دیرپا ثابت کرنے کیلئے اور مسلمانو ں کو کھوکھلا اور انگریزوں کا ہمنوا بنانے کیلئے مولانا اسمعیل صاحب اور پھر مولانا الیاس صاحب کو استعمال کیا ہو ، اور یہ لوگ اس سے غافل رہے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بات محض امکانی ہے ، اس سے استدلال تمام نہیں ہوتا ، اسلئے مولانا الیاس اور انکے والد سے اس بنیاد پر بدگمانی کی شرعت قطعا اجازت نہیں دیتی ،  یہ شک اسوقت یقین میں تبدیل ہونے لگتا ہے ، جب ہم دیکھتے ہیں کہ قیامت ، قبر ، حشر ، نشر ، جنت ، جہنم ، وعظ و نصیحت وغیرہ نصوص کے ہوتے ہوئے آیات جہاد و قتال پر کیوں ہاتھ صاف کیا گیا ، اس کام کو جہاد کا بدل اور اس سے افضل کیوں قرار دیا گیا ،  اسکی کیا ضرورت تھی ، امیر المومنین ، ہجرت ، نصرت ، گشت ، پہرے داری ، تشکیل وغیرہ اصطلاحات  پر ڈکیتی کیوں ڈالی گئی ، اس کام کو فرض عین کیوں قرار دیا گیا ، اس کام کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دی گئی ، غیر جماعتی علماء کرام سے  لوگوں کو کیوں کاٹا گیا ، اور ایسے جملے بکثرت کیوں بولے جاتے ہیں جس سے کفر سے نفرت ختم ہو جائے ، یہ بھی فقط شک و شبہ اور امکان تک محدود ہے ، اور اس سے بھی استدلال تام نہیں ہوتا ، اسلئے ایسی دلیل کے ذریعہ ہرگز ہرگز ان دونوں حضرات سے بدگمان نہیں ہونا چاہئے ، پھر سونے پر سہاگہ مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ شروع میں تبلیغی جماعت کو انگریزی حکومت پیسہ دیتی تھی ، دیکھئے مکالمت الصدرین ص 8۔۔۔۔۔۔۔مولانا موصوف نے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی ہے ، گرچہ مولانا بڑے آدمی ہیں ، ممکن ہے کہ سنی سنائی بات زبان پر آگئی ہو ، اس سے بھی استدلال تام نہیں ہوتا ، اس لئے اس دلیل کی وجہ سے بھی ان دونوں حضرات سے بدگمان نہیں ہونا چاہئے ۔۔یہ اس دور کی بات ہے جبکہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش زوروں پر جاری تھی ، اس کوشش میں کافروں نے تو حصہ لیا ، لیکن ان لوگوں نے حصہ نہیں لیا ، ایک طرف جمعیت علماء ھند کانگریس کے ساتھ مل کر کوشش کر رہی تھی ، دوسری جانب مسلم لیگ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ بر سر پیکار تھی ، ان دو جماعتوں کی وجہ سے مسلمان پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہو چکے تھے ،  ایک تیسرا دھڑا محترم موصوف نے تیار کر دیا کہ نہ جمعیت علماء ھند کے ساتھ ملکر آزادی کی جنگ لڑی اور نہ ہی مسلم لیگ کے ساتھ ملکر ، بلکہ ایسے درمیانی اور نرم جملے استعمال کئے گئے ، جس سے مسلمانوں کے دلوں میں انگریز ظالم و کافر کی محبت پیدا ہو جائے ، اور تحریک آزادی کا یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے ختم ہو جائے ، مولانا کی یہ ساری محنت سنہ 1927ء سے شروع ہو کر سنہ 1944ء پر ختم ہوتی ہے ، پھر انکے پیرو کار اس مشن کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔۔۔یہ بھی محض قیاس آرائی اور شک و شبہ والی بات ہے ، اس دور میں اسکی بھی سخت ضرورت تھی کہ مسلمانوں کو مسلمان بنایا جائے ، سب کیلئے ایک ہی طریقے پر کام کرنا لازم نہیں ہے ، آزادی سے متعلق پروگراموں میں کبھی کبھی شریک بھی ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم ۔۔
ہم لوگوں کو مولانا الیاس صاحب اور انکے والد مولانا اسمعیل صاحب سے ایسی عقیدت و محبت ہے اور ایسا حسن ظن ہے کہ یقین نہیں آتا کہ جان بوجھ کر انہوں نے ایسی غلطی کی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کرے میرا حسن ظن اور میری عقیدت و محبت واقعات کے موافق ہو ، یہ تو میرے حسن ظن اور عقیدت کا حال ہے ، اور وہ لوگ جو مولانا موصوف کو معصوم یا مثل معصوم سمجھتے ہیں ، اور ان کا تصور یہ ہے کہ مولانا موصوف سے خطاء ہو ہی نہیں سکتی ، ان کا دل و دماغ کیسے قبول کریگا کہ مولانا  موصوف کو جانے یا انجانے میں جہاد ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔اسلئے جب تک کوئی یقینی دلیل نہ مل جائے تب تک ایسی واہی تباہی خیالات کو دل و دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہئے
16۔جمادی الثانیہ سنہ 1438ھ
مطابق  16/ مارچ سنہ 2017ء

(انتھی کلامہ )

*الجواب*
*وبالله التوفیق*

حالیہ مولوی سعد کاندھلوی کے متعلق دارالعلوم دیوبند سے فتوی کیا شائع ہوا ایسے میں چند سفہاء العلماء کہئے یا علماء نما کہئے اس قسم کے لوگوں کو اچھا موقع مل گیا جماعت پر بھڑاس نکالنے کا جبکہ فتوی  ایک اور ایک شخصیت تک محدود تھا، یہ بھی تسلیم جماعت کے عامی احباب بے شمار اغلاط میں مبتلاء ہیں ، جن کی اصلاح کی فکر ہمارے اکابر علماء اپنے اپنے انداز میں کرتے بھی رہے اور کررہے ہیں.
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا ہے سرے جماعت کو ہی مخدوش کر دیا جائے اور انتہائی بدبختی ہوگی کی علماء حقہ و اولیاء امت تک کو نہ بخشا جائے.
کچھ ایسا ہی کام دارالعلوم کے فتوی کی آڑ میں جو بے چارے کرتے رہے ،ہم نے بھی دارالعلوم کے فتوی کی تائید کی جو اپنی ممکنہ سعی بات کو سیدھی راہ پر لانے کی کی،مولوی سعد صاحب کی باتوں پر رد قدح بھی کی ،مگر اگلوں کی حرکتوں کا ٹھیکرا پچھلوں پر نہیں پھوڑا جاسکتا،یہ تو عقل کے بھی خلاف ہے شرع سے تو کہیں دور کا تعلق نہیں.
یہ تحریر مفتی فیروز پرتابگڈھی کی ہے جنھوں اپنی فرضی ہویت مفتی احمد الرحمن سے بنا رکھی ہے.
فرضی آئی ڈی کو آج دنیاوی قانون بھی ضبط کرلیتا ہے کیا دین کی بات اتنی بے حقیقت کے اس پر سامنے کرنے سے آدمی فرار کرے؟
1
عنوان بنگلہ والی مسجد کے نام کی بابت ہے لیکن گفتگو اس پر نہیں بلکہ تحریر کی ساری توجہ مولانا محند الیاس صاحب اور مولانا محمد اسمعیل صاحب پر ہے.
2
جہالت کی انتہا ہے کہ مسجد ضرار کہتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھ کہ مسجد ضرار کی برائی کیا فقط در ودیوار سے ہے یا اس میں بیٹھنے والی ضرار شخصیات سے ہے؟
بالیقین اضرار ذہنوں اور دماغوں میں ہے.
3
ایک مرتد کے لئے تو اسلام میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کی گنجائش موجود ہو لیکن مسجد کو مسجد بننے کی نہیں؟
مان لیا کہ مسجد ضرار تھی تو کیا افراد کار بدلنے کے باوجود الله واسطے اس میں رونا دھونا محنت مجاہدہ کرنے کے باوجود وہ مسجد تقوی نہیں بن سکتی؟
4
دراصل لکھنے والے نے مولایا الیاس صاحب کی شخصیت پر اتنے سوال اس لئے کرلئے ہیں کہ ان کے زعم میں مسجد کے بانی تو مضر تھے ہی ساتھ میں مولانا کو بھی اسی کٹگھرے میں لاکر کھڑا کردیا. 
5
ایک عام مومن کی فراست بھی کافر سے بدرجہا بڑھی ہوتی ہے، اور پھر حضرت مولانا الیاس صاحب نہ صرف ولی بلکہ امام الاولیاء ہیں، شرم بھی نہ آئی ان پر اسلام دشمن عناصر کا آلہ کار بننے کا الزام دھرنے پر.....اف ہے اور تف ہے ایسی عقل پر.
6
مولانا محمد الیاس صاحب رح نے کام کی بنیاد رکھی اسے ایک تحریکی شکل دی، شروع میں اکابر علماء کو کچھ اشکال تھے کچھ مخالف تھے لیکن جب اصول وضوابط دیکھے تو سارے اشکالات حل ہوگئے.
7
مفتی فیروز یا امام غائب احمد الرحمن اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں  کی مثال میرے طالب علمی دیکھے ہوئے میرے ایک متعارف کی سی ہے،ان کا حال یہ تھا کہ ساری طالب علمی سرے سے جماعت کو ہی کوستے رہے،نہ کتابی علم تھا اور نہ ئی کچھ عمل تھا لیکن عزم وحوصلہ  یہ کہ جماعت کے کام کو ہی ڈھانے کے چکر میں .
خیر ان سے ایک مرتبہ ان کے سینئر دوستوں نے پوچھ لیا کہ آخر جماعت سے مخالفت کی ایسی بنیادی کون وجہ ہے جو تمہیں بیٹھنے نہیں دیتی؟
کہنے لگے: شروع میں کچھ اکابر اس کے مخالف تھے.
کہا گیا کہ بھئی جنھیں اختلاف تھا انھوں نے تو رجوع کرلیا ،اب کیا؟
غور سے سنیں ان کا جواب:
اگرچہ انھوں نے خود رجوع کرلیا لیکن جن دلائل کو لیکر  انھوں نے اختلاف کیا تھا وہ سب میرے دلائل ہیں.
8
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب سے حرف بحرف عقیدت بھی جتا رہے ہیں،لیکن ساتھ ساتھ ارادة زہر گھول کر پلا بھی رہے ہیں یا کہئے ہری ہری گھانس کے اندر غلاظت چھپا رہے ہیں.
9
انتہائی واہیات دماغ پایا ہے کہ ایک مسلمہ مفروضہ کو کیسے بے جا استعمال کیا ہے.
کہتے ہیں کہ مولانا محمد الیاس صاحب معصوم نہیں تھے.
ارے بھئی کون انھیں معصوم کہتا ہے؟
لیکن یہ بتاؤ کہ اس وقت غیر معصوم ہونے کی بحث کس بات پر ہے؟
پہلے وہ بات تو بکو جس پر ان کی عدم عصمت کا خوبصورت تیر لگانے کی کوشش کررہے ہو.
پھر ہم دیکھیں گے کہ ان پر استدراک میں تمہارا درپردہ دعوی عصمت کہاں تک درست ہے.
10
مولانا محمد الیاس صاحب کے کام شروع کیا تھا،ان سے اجتھادی اختلاف کوئی کرے تو اچھا ہی نہیں بلکہ سر آنکھوں پر کہ ان کے بعد علم وفکر کے دروازے بند نہیں ہوگئے.
لیکن خیالی قضیوں اور مقدموں کو ملاکر ایک ناپاک نتیجہ نکال پیش کرنے والے کے لئے یہی مشورہ ہے کہ جاؤ پہلے اپنی عقل کا علاج کراؤ.
11
کام کو علماء حقہ کی ایک بڑی جماعت کا قبول کرلینا جسے اجماع نہیں تو جمہور کہنے میں کوئی دو رائے نہیں اس کی حقانیت کی دلیل ہے،اب اس پر فرضی و خیالی باتوں سے مخدوش کرنا آفتاب پر تھوکنے مانند ہے.
12
اجماع امت کی مخالفت جائز نہیں گمراہی ہے،جمہور سے اختلاف کیا جاسکتا ہے.
لیکن جو بے دلیل جمہور کا مخالف بن بیٹھے اسے مجنون ضرور کہہ سکتے ہیں.
13
مولانا محمد الیاس صاحب کے طریق کار سے بھی اختلاف ممکن ہے لیکن اپنے طریق کار کو درست ثابت کرنے لئے حضرت رحمہ الله عدم عصمت کو دلیل بنانا بے وقوفی ضرور ہے.
14
حضرت کا قصہ وفات بھی مشہور ہے کہ وقت مردنی بھی کام کے تعلق سے متفکر تھے،اور فکر یہ تھی کہ کام میں علماء کی قلت سے نقصان کا اندیشہ ہے.
اس سے بھت سی باتیں سمجھی جاسکتی ہیں ایک تو یہ کہ حضرت نے یہ کام علماء کے سہارے ہی شروع کیا تھا،دوسرے کہ  ان کی نگرانی حضرت علمی یا فکری اوباشوں کو نہیں دینا چاہتے تھے.
15
جماعت کے احباب میں پائی جانے والی خامیاں بعض بھت سنگین ہیں،لیکن  علاج بالضد کی ضد اچھی نہیں، سنگینی کا جواب اس سے بھی بڑی سنگینی کو انجام دے کر نہیں کیا جاسکتا.
tauseefhaqqi@gmail.com

27/03/2017

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم