ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

3/8/18

تحریر بجواب *مالیگاؤں شہر کے علماء کا خط و دیگر*

مالیگاؤں شہر کے علماء کا خط و دیگر

از قلم:
*أبوخَنساءالحنفی*
تحریر بجواب

یہ ایک بزدل کی تحریر ہے جو اپنا نام اور نمبر مخفی رکھتا ہے اور کچھ ہفوات بک کر پردہ کرلیتا ہے.... 
بہرحال ہم اس تحریر کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں اور اسکے دجل و خیانت کو واضح کرتے ہیں. 

*موصوف بزدل لکھتے ہیں*

مالیگاؤں شہر کے علماء کا خط و دیگر ....

ہمیں دیوبند کے نہج پر کام کرنا ہے ..؟ 

آج کل یہ جملہ بہت سنایا جارہا ہے

*دیوبند کا نہج کیا ہے ؟* اور دیوبند نے اس تبلیغی کام کے لئے نظام الدین سے مختلف کون سا نہج اور طریقہ بتایا ہے ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ تبلیغ کے اِس سوسالہ محنت میں دیوبند نے آج تک تبلیغ کا کوئی نہج اور طریقہ نہیں بتایا ہے.

*جواب*

1.جرأت دیکھیے کہ کس بے باکی سے یہ دعوی ٹھوک دیا کہ دارالعلوم دیوبند نے تبلیغ کا کوئی نہج بتایا ہی نہیں.... سوال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے سعد صاحب کی جو گرفت کی ہے اور اپنے اس موقف میں سعد صاحب کو جن امور کی پابندی کا حکم دیا ہے کیا وہ نہج نہیں...؟؟؟؟ 
کیا نہج صرف تین چلہ تین چلہ کی ترتیب کا نام ہے....؟؟؟؟؟

2.دارالعلوم دیوبند نے دعوت کے اس کام کو سابقہ اکابر کی ترتیب اور انکے مسلک و مشرب پر قائم رکھنے کا حکم دیا ہے.... کیا یہ دارالعلوم دیوبند کا متعین کردہ نہج نہیں ہے..؟؟؟؟؟؟ 

3. دارالعلوم دیوبند نے اہل علم اور خانقاہ کے مشائخ سے جڑ کر چلنے کو کہا ہے اور اہل علم اور اہل خانقاہ سے دوری کو ختم کرنے کے لیے کہا ہے ....... کیا یہ دارالعلوم دیوبند کا نہج نہیں ہے...؟؟؟؟؟ 
اب اگر یہ نہج نہیں ہے تو آخر نہج کس معجون کو کہتے ہیں...؟؟؟ 
یہی تو وہ اصول ہیں جنکو مد نظر رکھنا ضروری ہے..... 

4. *دارالعلوم دیوبند کے نہج سے مراد وہی اصولی نہج ہے جسکو اسوقت کے سارے اکابر علماء کرام کے سامنے پیش کر کے مولانا الیاس صاحب رح نے اس کام کی نوک و پلک کو سدھارا تھا اور امت کو اس سے جوڑا تھا، یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں علماء کو علماء سوء نہیں کہا جاتا تھا....یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں علماء کی تنخواہ کو فاحشہ کی کمائی سے بدتر نہیں سمجھایا جاتا تھا....یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں کسی شیخ کامل سے اصلاحی تعلق رکھنے والے کو مطعون نہیں کیا جاتا تھا..... یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں انبیاء پر بہتان تراشی نہیں کی جاتی تھی.... یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج کہ بانئ تبلیغ حضرت مولانا الیاس صاحب رح اپنے قلب کے غبار اور عوام کے ساتھ اختلاط کے اثرات کو دھونے کے لیے خانقاہ میں پابندی سے حاضری دیا کرتے تھے...... یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں عوام کو چھ نمبر کی قید میں بیان کرنے کا مکلف بنایا جاتا تھا...... یہی ہے دارالعلوم دیوبند کا وہ نہج جس میں مولانا الیاس صاحب رح، مولانا یوسف رح اور مولانا انعام الحسن صاحب رح دارالعلوم دیوبند اور دیگر اکابر علماء سے رجوع ہوتے تھے.....کیا یہ نہج سعد صاحب کی تبلیغ میں ہے...؟؟؟؟ 
اگر دارالعلوم دیوبند دعوت و تبلیغ کے اس کام کو مذکورہ بالا نہج کے علاوہ کسی اور نہج پر کرنے کے لیے کہتا ہے تو آپ دارالعلوم دیوبند سے پوچھ کر ہمیں مطلع فرمائیں..... یا میری یہ تحریر دارالعلوم دیوبند لے جا کر دکھائیں، جس حرف پر دارالعلوم دیوبند اشکال کردے وہ حرف ہم مٹانے کے لیے تیار ہیں....... ہمیں اپنے پیر صاحب سعد کاندھلوی کی طرح نہ تصور کرنا کہ دارالعلوم دیوبند جانے سے گھمنڈ مانع ہو.... اور اپنی بے اعتدالیوں سے رجوع کرنے کے بجائے کھلواڑ کریں..... دارالعلوم دیوبند کی جوکھٹ پر جاکر اقرار جرم کرنے کے بجائے دارالعلوم دیوبند سے مقابلے پر آجائیں.... نعوذبااللہ من ذلک........ 

*آگے لکھتے ہیں*

 یہ کام تو مولانا الیاس ؒ نے [ بنگلہ والی مسجد] مرکز نظام الدین سے شروع کیا تھا اور اس کام کا طریقہ بھی ﷲ نے ان کے دل پر کھول دیا اور جیسے جیسے یہ کام آگے بڑھتا گیا ، اِس کام میں ﷲ نے اُس وقت کے امیر سے مختلف تبدیلیاں بھی کروائی مدرسہ دیوبند تو ایک علمی اور دینی ادارہ ہے اور اپنی علمی ضرورت اور شریعت کے تحت وہ اپنے کام انجام دے رہا ہے. 

*جواب*

یہ جملہ بھی مکار صاحب تحریر کے مکر کا نمونہ ہے....اس جملے سے یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ گویا مولانا الیاس صاحب رح نے تبلیغ کا کام محض اللہ کی جانب سے القاء ہونے کی بنا پر کیا اور علماء دیوبند سے کوئی رائے نہیں لی لہذا دارالعلوم دیوبند کا اس کام کی ترتیب و تصحیح میں کوئی عمل دخل نہیں........... أستغفر اللہ....... کیا مولانا الیاس صاحب رح نے اس کام کی بنیاد محض الہام اور القاء پر رکھ دی...؟؟؟؟ یہ تو سراسر جھوٹ ہے.... اور سارے علماء سے قطع نظر کرکے اس کام کو جاری کرنا یہ تو مولانا الیاس صاحب رح، اور انکا یہ کام، دونوں کے غیر معتبر ہونے کو مستلزم ہے... حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد اور غلط ہے حضرت مولانا الیاس صاحب رح نے اپنے کام ایک ایک جز کو اور اسکی ترتیب کو علماء دیوبند اور دیگر علماء وقت کی سامنے پیش کیا تھا.... یہ ساری باتیں معتبر ترین تاریخ کا جز ہیں (جنکا اعادہ اس مختصر تحریر میں طول کا باعث ہے) جسکے مقابلے میں دوسری بات کا کہنا نہ صرف یہ کہ اس بات کے بطلان کو مستلزم ہے بلکہ اسکا کہنے والے کے بھی غیر معتبر ہونے کی دلیل ہے. پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ تبلیغ کے اس کام کو دارالعلوم دیوبند سے الگ کرکے کون سی برکت حاصل کرنا چاہتے ہیں .... اللہ کا کرم ہے کہ ہم تبلیغ کے اس کام کو اور اسکی ترتیب کو سارے شواہد اور تاریخی حقائق کی روشنی میں دارالعلوم دیوبند سے مستفاد مانتے ہیں اور یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ ہمیں اور ہمارے اس کام کو دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم المرتبت الہامی درسگاہ کی مکمل پشت پناہی اور پوری رہنمائی حاصل ہے.... جسے دارالعلوم دیوبند کی پشت پناہی اور رہنمائی نہ بھائے اسکا کوئی علاج نہیں، جسکی طبیعت کا اعتدال بگڑ گیا ہو اسے میٹھا بھی کڑوا لگتا ہو اسکی کوئی تدبیر نہیں، جسے کھانا پسند نہ آئے اور پاخانہ کی طرف طبعیت چلے وہ بد فطرت ہی کہلائے گا ، اب ایسے شخص کو اختیار ہے کہ اپنا مقتدا کسی ضدی، ہٹ دھرم، بے تربیت، اپنے بڑوں کا بے ادب، اپنی غلطیوں پر اڑنے والے ، انبیاء کی گستاخی کرنے والے کو بنائے.... یقینی بات ہے جب دارالعلوم دیوبند سے دامن چھڑایا ہے تو اسکے علاوہ اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.....!!!! 

*آگے لکھتے ہیں*
 جہاں تک مولانا سعد کی بات تھی .. تو دیوبند نے اپنے علمی دلائل سے کچھ باتوں پر پکڑ کی اور مولانا سعد نے اس پر اپنا رجوع نامہ بھی پیش کیا اور معاملہ ختم ہوچکا ہے اور اب دیوبند میں تو اس قسم کوئی قضیہ باقی نہیں ہے اور *مولانا سعد صاحب نے لاکھوں لوگوں کے سامنے کہاں دارالعلوم دیوبند ہمارا مرجع و مرکز ہیں* اگر علمائے دیوبند کو یہ لگتا کہ یہ کام اپنے اصل مقصد سے ہٹ چکا ہے تو وہ اِس مسئلہ پر بھی اپنے علمی دلیل سے اس کا حل نکالتے لیکن ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے

*جواب*
بدترین جھوٹ کی ایک اور مثال دیکھیں کہ کہتے ہیں کہ سعد صاحب نے رجوع کرلیا ہے اور معاملہ ختم ہوگیا ہے.... یقیناً سعد صاحب اور دارالعلوم دیوبند کا معاملہ تو ختم ہو ہی گیا ہے... سعد صاحب کے متعلق دارالعلوم دیوبند کو اب مزید کچھ نہیں کہنا.... اسی لیے دارالعلوم دیوبند نے سعد صاحب کے چوتھے رجوع نامہ کو رد کردیا اور سعد صاحب کو اعلانیہ رجوع کرنے کے لیے کہا..... اب دارالعلوم دیوبند نے نہ تو سعد صاحب سے مزید کسی رجوع نامے کو لکھکر بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے اور ناہی دارالعلوم دیوبند کو سعد صاحب کے متعلق کوئی نئی بات کہنی ہے...... ہاں سعد صاحب کو دارالعلوم دیوبند کے حکم کے مطابق اعلانیہ رجوع کرنا ہے جس پر سعد صاحب کی ضدی طبیعت اور مزاج کا گھمنڈ آمادہ نہیں. 
دوسری بات یہ کہ اگر کام اپنے مقصد ہی پر ہے اور اس میں کوئی ضعف پیدا نہیں کیا گیا تو دارالعلوم دیوبند نے اس کام کو ترتیب سابق پر رکھنے کا حکم کیوں دیا.....؟؟؟ 

*آگے لکھتے ہیں*
جب دیوبند نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں تو شہر اور دیگر علاقے  کے علماء اکرام دیوبند کا نام استعمال کرکے کس کے نہج کو صحیح نہج بتا رہے ہیں ؟

*جواب*
حد ہے کذب بیانی کی.... کیا دارالعلوم دیوبند نے کام کو نہج سابق پر کرنے کو نہیں کہا...؟؟؟؟؟ کیا دارالعلوم دیوبند کا نہج سابق کو درست قرار دینا اسکو صحیح مانے بغیر ہے....؟؟؟؟؟؟؟ اب کیا دارالعلوم دیوبند ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھ کر کہے کہ یہ نہج ہے، اس پر کام کرو.... دارالعلوم دیوبند کا نہج سابق پر کام کرنے کا حکم دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اسے ہی صحیح سمجھا ہے اور اسی نہج پر کام کرنے کو صحیح سمجھتا ہے.... ہر ہر ساتھی دارالعلوم دیوبند کے دونوں فتوے کو بغور پڑھے اور مکرر پڑھے روزانہ پڑھے... ایک حرف دل میں اترتا چلا جائے گا. ان شاء اللہ تعالٰی. 

*آگے لکھتے ہیں*
 *اسی فتوے کو کچھ لوگوں نے گمراہی کا نام دے دیا اور آج بھی وہ اس فتوے کو گمراہی سے تعبیر کرتے ہوئے مسلسل عوام کو گمراہ کررہے ہیں* 

*جواب*
اللہ کی لعنت ہو جھوٹے پر، پھر اللہ کی لعنت ہو جھوٹے پر، اور پھر اللہ کی لعنت ہو جھوٹے پر..... دارالعلوم دیوبند کا فتوی پڑھیں... اللہ کے واسطے بار بار پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا سعد صاحب کی فکر انکے بیانات انکی تشریحات کو دارالعلوم دیوبند نے گمراہی سے تعبیر نہیں کیا ہے.... یہ کام آپ قرض ہے آپ فتوی پڑھیں اور فیصلہ خود کریں. 

*آگے لکھتے ہیں*
*مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنے ٹیلی فون گفتگو پر فرمایا کہ دار العلوم کو صرف علمی مباحث سے مطلب ہے، یعنی اگر علمی غلطیاں کسی قابلِ اعتماد شخص سے سرزد ہوتی ہے تو اُس پر دار العلوم تنبیہہ کرے گا، اور فتوی بھی صرف عقائد کی اصلاح پر ہی دیوبند نے صادر کیا، اس کے علاوہ شوریٰ کا مسئلہ ، کام کا نہج یہ انتظامی حیثیت رکھتا ہے جس پر دیوبند کو کوئی اعتراض نہیں ....*

*جواب*
اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالعلوم دیوبند نے امارت اور شوری کے مسئلے سکوت کیا ہے اور چونکہ یہ ایک داخلی معاملہ ہے اس لیے اسکو اہل دعوت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے... یہ مسئلہ تو موضوع سے خارج ہے. *لیکن صاحب تحریر نے دجل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے یہ بھی لکھ مارا کہ "کام کا نہج یہ انتظامی حیثیت رکھتا ہے جس پر دیوبند کو کوئی اعتراض نہیں*.... دارالعلوم دیوبند کو اعتراض نہ ہونے کیا دلیل...؟؟؟ جبکہ دارالعلوم دیوبند نے اسی فتوے میں نہج سابق پر باقی رہنے کا حکم دیا ہے(یہ وہی نہج سابق ہے جسکے بارے میں سعد کاندھلوی کا کہنا ہے کہ کام تجربات پر آچکا ہے میں سیرت پر لا رہا ہوں، گویا اب تک کے سارے اہل دعوت کام کو سیرت کے خلاف کررہے تھے، اور علماء دیوبند نے بھی اس پورے عرصے میں مکمل سکوت کیا تھا نعوذبااللہ من ذلک البکواس) اس سے اس اہمیت کا واضح ثبوت ملتا ہے. نیز مولانا ارشد مدنی صاحب دامت فیوضہم نے اپنی آڈیو میں اس بات کی صاف وضاحت کردی ہے کہ سعد صاحب کی تربیت نہیں ہوئی... جو اس بات کا صریح اشارہ ہے کہ سعد صاحب کے لیے منصب امارت کسی طور موزوں نہیں. 

*آگے لکھتے ہیں*
تبلیغ کا مرکز نظام الدین ہی تھا اور آگے بھی اسی کے تحت یہ کام چلے گا .. اگر کوئی اس بات سے اختلاف کرتا ہے تو وہ اس کی ذاتی غرض ہے نہ کہ تبلیغ سے محبت تبلیغ سے محبت ہوتی تو علماء اپنے دلائل سے لوگوں کو مرکز سے جوڑتے اور انہیں تمام گمراہانہ باتوں کی صحیح حقیقت بتاتے لیکن یہاں تو معاملہ ہی مخالف ہے. 

*جواب*
اس پاگل پن، گمراہ کن عقیدت اور فرعونیت زدہ عقل کا کیا حل ہے کہ انسان ربوبیت اپنے ہاتھ میں لے لے صاحب تحریر نے یہ کیسے طے کرلیا کہ تبلیغ کا کام آگے بھی نظام الدین کے تحت چلےگا.....؟؟؟؟؟؟ 

*شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے اس مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ نظام الدین کی مرکزیت منصوص نہیں جس طرح حرمین کی شریفین کا ذکر نصوص میں ہے مسلمانوں کے مختلف شعبہائے دین کے مختلف مراکز تاریخ کے مختلف ادوار میں بدلتے رہے ہیں، ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتے رہے ہیں اور بدلتے رہینگے، منتقل ہوتے رہیں گے ....یہی اللہ تعالٰی کی سنت ہے...عادت اللہ اسی طرح جاری ہے ایک مرکز پر اصرار کرنا اور اسی پر اڑنا نہ تو تاریخی اعتبار سے قابل تسلیم ہے اور نا ہی سنت اللہ کے مطابق ہے... بلکہ یہ ایسی ضد ہے جو کہ سنت اللہ اور عادت اللہ کے خلاف ہے*.

*آگے لکھتے ہیں*
ایک حقیقت پسند ....
*میم الف سین*

*تبصرہ*
اس کوڑھ مغزہ، خیانت اور فریب کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ پوری تحریر دارالعلوم کے فتوے سے چشم پوشی کر کے اور دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے حقائق کو چھپاکر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں "ایک حقیقت پسند"... واہ واہ....
*یہ تو وہی ہوا کہ چور نے چوری کے پیسے سے مکان تعمیر کرواکر اسکے اوپر" ھذا من فضل ربی" لکھوا دیا*.

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم