*امیر مزعوم کا بنگلہ دیش کا سفر*
*علماء بنگلہ دیش کا زلزلہ خیز مظاہرہ*
*بمشکل دو دن کا مختصر قیام اور بادل نخواستہ رخصتی*
از : *فقیر ابوخنساء الحنفی*
علماء بنگلہ دیش کے إحقاق حق کے آہنی جذبے، ہمت و حوصلہ سے بھر پور اقدام کے نتیجے میں حکومت بنگلہ دیش نے بالآخر سعد صاحب کو ہندوستان واپس روانہ کرنے کا فیصلہ کرہی لیا.
اسکی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ اولا حکومت بنگلہ دیش نے علماء بنگلہ دیش سے گفتگو کی، علماء اور ارکان حکومت کی مختلف انفرادی اور اجتماعی نشستوں اور موافق ومخالف پہلوؤں پر مفصل گفتگو کے بعد بالآخر حکومت نے اپنا یہ حتمی فیصلہ دیا کہ چونکہ دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی رو سے سعد صاحب کے افکار ایسے نہیں ہیں کہ عوام ان سے مستفید ہو اس لیے ان کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں.
یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جسکی بنا پر پوری امت میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اہل حق نے سجدہ شکر ادا کیا.
لیکن پھر اچانک یہ خبر گردش کرنے لگتی ہے کہ سعد صاحب بنکاک ہوتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں اور آنا فانا یہ خبر بھی پہنچتی ہے کہ سعد صاحب بنگلہ دیش پہنچ چکے.
یہ غیر متوقع خبر علماء بنگلہ دیش کے لیے بڑی ہی دل شکن تھی اس لیے کہ حکومت نے اپنے فیصلے اور معاہدے کے خلاف سعد صاحب کو ملک میں داخلہ دیا، جو کہ علماء کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی، اس بات پر علماء کرام نے زبردست برہمی کا اظہار کیا اور سر پر کفن باندھ کر حکومت کی اس دغا، اور سعد صاحب کے جہاز کے آنے قبل ہی سعد صاحب کے خلاف ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال ہوائی اڈے پر علماء کے جم غفیر نے احتجاج کیا، جسکی لائیو ویڈیو بھی فیسبک پر نشر کی گئی. اس احتجاج میں ہزاروں علماء شریک رہے، کئی کئی کلو میٹر تک سڑکیں جام کی گئیں، ہوائی جہازوں کی آمد ورفت سلسلہ بری طرح متاثر ہوا.
ہوائی اڈے پر اس قیامت خیز احتجاج کو دیکھ حکومت نے یہ سوچا کہ سعد صاحب کو بذریعہ ہیلی-کاپٹر کاکریل پہونچایا جائے، جس پر علماء کرام نے برجستہ جواب دیا کہ ہم ہیلی-کاپٹر گرانے کے فن سے بھی خوب واقف ہیں یہ سنکر حکومت کے اوسان خطا ہوگئےاور ایک اطلاع کے مطابق سعد صاحب اور انکے حواریین کو بہت ہی خفیہ طریقے سے بذریعہ ایمبولینس کاکریل پہونچایا اس خبر پر علماء کرام نے کاکریل کا محاصرہ کیا جہاں پولیس کا زبردست انتظام کیا گیا تھا، نیز علماء کرام نے ٹونگی اجتماع گاہ کے تخت/اسٹیج پر مکمل قبضہ بنائے رکھا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سعد صاحب، انکے حواریین اور پولیس کے عملے سے بر سر پیکار ہونے کی ٹھان لی.
حکومت نے بہت اصرار کیا کہ بیٹھ کر مسئلہ کو حل کرلیتے ہیں لیکن علماء نے کہا کہ پہلے آپ اپنا معاہدہ مکمل کریں اور سعد صاحب کو واپس بھیجیں باقی ساری باتیں اسکے بعد کی جائیں گی اس سے پہلے ہمیں قطعاً کوئی گفتگو نہیں کرنی اس لیے کہ اب تک کسی بات چیت کا کوئی حاصل نہیں نکلا.
عجب ذلت کا عالم تھا کہ سعد صاحب اور انکے فرزندان اپنے حواریین کے ذریعے، درخواست پے درخواست دے رہے تھے کہ کسی طرح بھی صرف دس روز ہمیں قیام کی اجازت دے دیں گو کہ ہمیں اجتماع میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے. چنانچہ بھائی واصف الإسلام نے ساری قوت صرف کردی اور حکومت سے بڑی لجاجت کی کہ سعد صاحب کو 20 جنوری تک قیام کی اجازت مرحمت فرمائی جائے ہم اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ انہیں اجتماع میں پھٹکنے بھی نہیں دیا جائے گا لیکن حکومت نے بھائی واصف الإسلام کی ایک نہ سنی اور یہ کہتے ہوئے انہیں پھٹکار لگائی کہ تم نے پچھلے سال بھی کذب بیانی کی تھی کہ اجتماع میں سعد صاحب کا بیان نہیں ہوگا، لہذا ہم نے سعد صاحب کو اجتماع میں شرکت کی اجازت دی لیکن تم نے سعد صاحب کا بیان کروایا. اس بار بھی تم نے یہ جھوٹ پھیلایا کہ علماء بنگلہ دیش یہ چاہتے ہیں کہ یہ اجتماع بنگلہ دیش سے ختم ہو جائے اور اسی جھوٹ کی بنا پر تم نے پھر سعد صاحب کے آنے کی راہ ہموار کی. لہذا سعد صاحب کے اجتماع میں شرکت و عدم شرکت کا سوال تو پوری طرح خارج از بحث ہے، ملک میں انکے ایک دن کے بھی مزید قیام کی ہرگز کسی طور اجازت نہیں.
ادھر علماء نے بہت صاف اعلان کردیا کہ اگر سعد صاحب کو واپس نہیں بھیجا گیا تو کل مؤرخہ 12 جنوری 2018 کو ملک گیر احتجاج ہوگا اور اسکے بعد ایسے بدترین نتائج سامنے آئیں گے جو تصور سے باہر ہیں.
سارے جتن کے بعد بالآخر سعد صاحب اپنے تمام حواریین کے ساتھ آج مؤرخہ 13 جنوری 2018 کو دہلی واپس کردیے گئے.
المیہ یہ ہے کہ اب علماء بنگلہ دیش کو جگہ جگہ دشنام طرازی اور سب وشتم کیا جانے لگا ہے، مہتمم دارالعلوم دیوبند کو متواتر فون کرکے ایذا دی جارہی ہے، حتی کہ بعض شخصیت پرست بد بختوں نے امت کے محسنین ورثا انبیاء علماء کرام کے سردار ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے تاج حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت فیوضہم اور حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت فیوضہم کو بھی گالیوں سے نوازنا شروع کردیا، انہیں چور، دشمن اسلام، عیاش، شرابی، علماء سوء اور شمر کی اولاد کہا گیا.
فالی اللہ المشتکی.....
فالی اللہ المشتکی.....
فالی اللہ المشتکی.....
*اس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن میں رہے کہ سعد صاحب سے ان علماء کا اختلاف و احتجاج، محض امارت اور شوری کو لیکر نہیں ہے بلکہ اسکی اصل اور بنیادی وجہ سعد صاحب کی فکری کج روی اور انکا جمہور اہل سنت والجماعت سے انحراف ہے جس پر دارالعلوم دیوبند کا مؤقر فتوی موجود ہے*
ان تمام کوائف کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ شعر بے ساختہ آن پڑا کہ
ع.
کبھی بھی ظلم کی تلوار سے ہرگز نہیں ڈرتے
زباں اگلے گی حق کی بات ہی چاہے وہ کٹ جائے.
اس شعر کا مصداق میرے نزدیک علماء بنگلہ دیش ہیں جنکے ضعیف العمر دیوبندی سربراہان کی کھوکھلی گھسی ہڈیاں بھی اتنی قوت رکھتی ہیں کہ وقت کے ہر تقاضے پر *سر بکف سر بلند* کے عملی جامے کی زلزلہ خیز تصویر پیش کر سکیں، جنکی رگ قاسمیت کے لہو میں آج بھی اتنی حرارت ہے کہ إحقاق حق کے لیے نانوتویت اور دیوبندیت کا سر بجا طور پر فخر سے بلند کیا جاسکتا ہے.