*امیر المومنین، خلیفہ المسلمین کا مفہوم، اور کسی تنظیم یا تحریک کے سرپرست کے انتخاب میں شریعت کی رہبری*
از قلم : *ابو خنساء الحنفی(المعروف بہ عامر شیخ)*
بسم اللہ الرحمن الرحیم...
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد...
کسی بھی امر میں شریعت مطہرہ کی رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے پہلے اس امر کی تحديد ضروری ھے کہ زیر بحث مسئلہ کا حل نصوص میں صراحتاً موجود ہے یا نہیں ہے ..!!
اگر مسئلہ کا حل نصوص میں صراحتاً موجود ہے تو مسئلہ نص صریح کی روشنی میں حل کیا جائے گا ... اور اگر زیر بحث مسئلہ کا حل نصوص میں صراحتاً موجود نہیں ہے تو ایسے تمام مسائل کا اصول یہ ہے کہ اب یہ مسائل اجتھاداً حل ھونگے...
اس اصول کی وضاحت کے بعد یہ سمجھیے کہ کسی بھی مسئلے کو اجتھاداً حل کرنے کے لئے اس امر کی تعیین ضروری ھے کہ اس امر کو کس منصوص مسئلے پر قیاس کیا جائے، تاکہ شریعت مطہرہ کی روشنی مسئلے کا صحیح شرعی حل نکالا جاسکے... (اصول فقہ کی اس بحث کو یہاں مکمل ذکر کرنا طول کا باعث ہے، نیز یہ بحث موقع کے مناسب نہیں)
اب "مسئلہِ امارت تبلیغی جماعت" ایک غیر منصوص مسئلہ ھے لہٰذا اجتھادی ھے... اب یہ تعیین کیجئے کہ اس مسئلے کو کس منصوص امر پر قیاس کیا جائے...
آئیے دیکھتے ھیں...
ایک ھے امت کا اسلامی حکومتی نظام... اسکا خلیفہ المسلمین یا امیر المومنین ھوتا ھے... اس نظام کے احکام منصوص ھیں اور نصوص اور آثار صحابہ نیز تواتر سے ثابت ھیں... اس نظام میں وسعت اور جامعیت تھی اس طور پر کہ اس نظام کے زیر سرپرستی حکومتی، تعلیمی، تربیتی اور دیگر شعبے کام کیا کرتے تھے... اور یہ سارے شعبے اس اصل نظام حکومت کی امارت کے پابند ہوتے ہیں.
دوسری چیز ہے کُل امت کا یا امت کے بڑے حصے کا یا کچھ حصے کا تربیتی یا تعلیمی نظام... اسکے احکام منصوص نہیں بلکہ اجتھادی ھیں... اور یہ نظام اس تربیتی یا تعلیمی میدان کے ماہرین کے بنائے اصولوں (جو کہ اصول اسلام سے ھم آھنگ ھوں) سے چلتے ھیں...
تبلیغی جماعت کا کام اسلامی حکومتی نظام نہیں، لہٰذا اسکے امیر یا ذمہ دار کے طے کرنے میں خلیفہ المسلمین یا امیر المومنین کے اصولوں پر قیاس کرنا غلطی ھوگی اس لیے کہ جن احادیث اور آثار کو امارت کی فضیلت اور اسکی ضرورت کو سمجھانے کے لیے پیش کیا گیا ہے، شریعت میں اس لفظ " امارت" اور لفظ" امیر" کا ایک مخصوص اصطلاحی مفہوم ہے اور وہ مفہوم ہے "امارت اصلیہ" اور "امیر المومنین" کا.... لہذا ان احادیث واثار کو بنیاد بنا کر تبلیغی جماعت کی امارت کو امارت اصلیہ کی طرح ضروری قرار دینا، اسکی عدم اطاعت کو "امیر المومنین" کی بغاوت قرار دینا، اور احادیث واثار میں بیان کردہ وعید اور عتاب کو سعد صاحب کی مزعومہ باطل امارت پر فٹ کرنا شرع میں تحریف کے مترادف ہے پس وہ تمام احادیث جن میں امیر کی اطاعت اور السمع والطاعۃ (سنو اور اطاعت کرو) کا حکم ملتا ہے وہ امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین سے متعلق ہے، جسکو امیرالمومنین اور خلیفۃ المسلمین ماننا شرعاً واجب اور اسکی اطاعت سے انکار حرام ہوتا ہے. ان احادیث کو اپنی تنظیم اور جماعت کے امیر صاحب پر منطبق کرنا صریح غلطی اور احادیث میں معنوی تحریف کے مترادف ہے.
نیز یہ کہ کسی تنظیم اور تحریک کے امیر کی امارت سے انکار بغاوت نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ شرعی امیر نہیں بلکہ "اعتقادی اور انتظامی" امیر یا قائد یا سرپرست اور صدر ہوتا ہے..... مثلاً اگر کوئی شخص خلفائے راشدین کی امارت کا منکر ہو تو وہ شخص مبتدع باغی اور بد عقیدہ کہلائے گا اس لیے کہ وہ شرعی امارت کا منکر ہوا اسی طرح اگر اِسوقت کوئی شخص شرعی اعتبار سے امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین منتخب کرلیا جائے تو بھی اسکو امیر ماننا واجب ہوگا اور اسکی امارت سے انکار بغاوت ہوگا..... لیکن اگر کوئی مولانا الیاس صاحب رح کی امارت کا منکر ہو تو وہ مبتدع باغی اور بدعقیدہ نہیں کہلائے گا اس لیے کہ وہ شرعی امارت کا منکر نہیں بلکہ اس امارت کو تسلیم کرنا ایک اعتقادی، انتظامی اور اجتہادی امر ہےجس میں ہر شخص اپنی منفرد رائے رکھنے کے لیے شرعا مجاز ہے، جیسے کوئی شخص کسی کو شیخِ کامل مان لے یا اپنا پیر مان لے تو اب دوسرا شخص اسکے پیر کو شیخ کامل نہ مانے تو یہ اسکا اختیار ھے، اس پیر کو پیر ماننا کوئی شرعی امر نہیں بلکہ یہ ایک اعتقادی اور اجتہادی امر ہے..... لہذا ان احادیث واثار کو سعد صاحب کی امارت ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنا دجل و جہل، رکاکت و خیانت کی بد ترین مثال ہے... اور خوارج سے حضرت علی رضی اللہ کے فرمان "كلمة حق أريد بها باطل" کا مصداق ہے.
تبلیغی جماعت ایک تربیتی نظام ھے اور اسکے چلانے والوں نے اسلامی اصولوں سے ماخوذ کچھ اصول اس کام کو چلانے کے لئے مرتب کئے... جیسے امام ابوحنیفہ رح نے40 رکنی شوری بنائی تھی...جو تعلیمی تحقیقی اور تربیتی نظام چلاتی تھی اور دنیا کی سب سے بڑی فقہ ہے اور اسکا نظام شورائی رھا...
ایسے دیگر فقہی نظام ھیں جن کا نظام الگ الگ اصولوں پر بنا...
اور ایسے ھی 1400 سالوں میں مختلف سلسلے تصوف کے مرتب ھوئے... اور ان سب کے اپنے جداگانہ اصول اور نظام رہے...جو یقیناً اصولِ اسلام کے مطابق رہے
اور پھر ایسی ھی بے شمار تحریکیں، تنظیمیں، تعلیمی نظام، تربیتی نظام، خانقاہیں اور مدارس کے نظام وجود میں آئے... سب ہی متنوع اصول و ضوابط کے ساتھ.... جو بھی وقت کا تقاضہ ھوا اس کے مطابق... مگر اسلام کے اصولوں مطابق.
*ایسے ھی آج کے دور میں مختلف تنظیموں کا ذمہ دار طے ھوتا ھے جیسے... جمیعت علماء، امارت شرعیہ بہار، مسلم پرسنل لاء بورڈ، دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس وغیرہ...*
اس پوری تقریر سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ کہ دعوت و تبلیغ کے امیر ،قائد، سرپرست، ذمہ دار کی تعیین اور اسکا انتخاب دعوت و تبلیغ کے اپنے اصولوں کے مطابق ہوگا نہ کسی فرد واحد کے دعوی کردینے سے کسی کی امارت معین ہوگی، اور نا ہی دعوت و تبلیغ کے ارباب حل و عقد کی آراء سے اختلاف کرکے کسی بھی رائے پر عمل درآمد کیا جائے گا اور یہ بات محتاج دلیل نہیں کہ اس وقت پوری دنیا کے ارباب حل و عقد دعوت و تبلیغ کے اس عظیم کام کو شورائی نظام کے تحت رکھنے کے حق میں ہیں، اگر کسی کا تفرد ہے تو اسکا تفرد جمہور کی رائے کے مقابلے میں غیر معتبر ہے.
*نیز جب دارالعلوم دیوبند نے بہت ساری اہم فکری بے راہ روی کی وجہ سے سعد صاحب پر اہل حق سے منحرف ہونے کا اتنا سخت فتوی لگادیا... اگر بالفرض سعد صاحب نے رجوع کر لیں تب بھی تن تنہا سعد صاحب کے ہاتھوں میں امت مسلمہ کی اہل حق کی سب سے بڑی تنظیم کی باگ ڈور دے دینا اور سعد صاحب کو دعوت و تبلیغ کی اس عظیم الشان محنت کا علی الاطلاق امیر بنا دینا بلا شک و شبہ دین کو خطرے میں ڈالنا ہے اور امت کے دین و ایمان کو ایک مخدوش اور غیر تربیت یافتہ شخص کے حوالے کرنا ہو گا جو کہ ایک جرم ہے اور بروز قیامت اس پر مؤاخذہ ہوگا.*