11 نومبر 2017 کو بنگلہ دیش کے بھائی واصف الإسلام کی طرف سے لکھا ہوا ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا ہے کہ سن 2015 میں رائیونڈ کے اجتماع میں جو شوری کی تکمیل عمل میں آئی تھی وہ کالعدم ہے، بدعت ہے، تفرقہ کی چیز ہے۔
اس دعوے کی دلیل یہ پیش کی گئی کہ چونکہ سعد صاحب اس شوری کے رکن ہیں جس کو مولانا انعام الحسنؒ نے طے فرمایا تھا ...اس لیے سعد صاحب کے اتفاق بغیر یہ شوری کالعدم ہے۔
سب سے پہلے یہ عرض کردوں کہ جس اصول کے تحت بھائی واصف الإسلام شوری کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اسی اصول کی بنا پر سب سے پہلے منتخب احادیث کا اضافہ اور وہ تمام امور کالعدم ہوگئے جو سعد صاحب نے حاجی عبدالوہاب صاحبؒ سے مشورہ اور اتفاق کے بغیر جاری کیے ہیں.. خاص طور سے سعد صاحب کا دعوائے امارت جو کہ اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے، *نہ صرف یہ کہ اس پر حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کا اتفاق نہیں بلکہ حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کی واضح آڈیوز آچکی ہیں جسمیں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ سعد کی امارت نہیں چلے گی*
اس وقت بھائی واصف الإسلام کو نہ تو کوئی اصول یاد آیا اور نہ ہی مولانا انعام الحسنؒ کی کوئی شوری یاد آئی۔
کوئی حرج نہیں... انسان کو بھول ہوجاتی ہے، اب ہم آپکو بھی اور سعد صاحب کو بھی یاد دلا دیتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ یہ بات تحریرا اور تقریرا عام کریں کہ سعد صاحب کی امارت حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کے اتفاق نہ کرنے کی وجہ سے کالعدم ہے، اور وہ تمام امور بشمول منتخب احادیث، کالعدم ہیں جو سعد صاحب نے حاجی عبدالوہاب صاحبؒ سے مشورے کے بغیر چلائے ہیں۔
جب سعد صاحب کا اس اصول پر عمل ہو جائے تب پھر آگے گفتگو فرمائیں۔
*بہر کیف..!! اب اس کے بعد خط کے راست جواب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سعد صاحب کا شوری کے اضافے سے اختلاف کرنا غیر معتبر، مردود اور ناقابل التفات ہے اور سعد صاحب کے اس اختلاف سے 2015 میں کی گئی شوری کی تکمیل پر اصولاََ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سعد صاحب جس شوری کا انکار کررہے ہیں، عالَم کے اکابر نے حضرت جی ثالث مولانا انعام الحسنؒ کی وفات کے بعد 1995 میں نظام الدین میں جمع ہوکر خود سعد صاحب ہی کی رائے پر فیصلہ کرتے ہوئے دعوت کے کام کو نظام امارت سے ہٹا کر نظام شوری پر رکھا تھا لہذا موجودہ "نہج شورائیت" نظامِ دعوت و تبلیغ کا "دستور اور منہج" قرار پایا جس پر 1995 سے اب تک سب کا اتفاق رہا ہے اب اس مقرر و معین کردہ "دستور اور نہج" سے کسی بھی فرد کا اختلاف کرنا کلیۃ بے معنی لغو اور اصولاََ معاہدہ شکنی ہے۔ رائیونڈ 2015 کے اجتماع میں اسی پرانی متفقہ شوری میں ناموں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ کوئی نیا امر نہیں جس پر کسی کا اختلاف اثر انداز ہوسکے بلکہ یہ محض ایک پرانے مقرر کردہ منہج و دستور کی continuity اور سلسلہ بندی ہے جسے تسلسل بخشا گیا ہے*
سوال یہ ہے کہ سعد صاحب اس شوری کی تکمیل یا اس شوری کے تحت مستقبل میں کام کرنے سے کیوں گریز کررہے ہیں جس شوری کو مولانا انعام الحسنؒ کے انتقال کے بعد عالم کے بڑوں نے سعد صاحب ہی کی معیت میں انکی رائے سے طے کیا..؟؟؟
نیز یہ کہ جب دعوت کے کام کو نظام امارت سے ہٹا کر خود سعد صاحب ہی کی رائے کے مطابق سب کے اتفاق سے نظام شوری رکھ دیا گیا تو اب بغیر اتفاق رائے کے دوبارہ امارت کا دعوٰی کرنا بلا شبہ دعوت و تبلیغ کے متفق علیہ منہج اور دستور کی مخالفت ہے جو شرعاً عہد شکنی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے..؟؟؟
مولوی سعد نے پچھلے 20 سالوں میں دعوت و تبلیغ کے متفقہ دستور و نہج میں بغیر مشورہ و حاجی صاحبؒ کے اتفاق کے، بلکہ حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کے اختلاف کے باوجود، متعدد تبدیلیاں کر دیں(واضح رہے کہ ذمہ داران مع حاجی صاحبؒ کے درپردہ مسلسل سمجھاتے رہے اور سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے رہے.) اور اب 2015 کے رائےونڈ اجتماع سے پہلے سعد صاحب نے حاجی صاحبؒ کے مشورے و اتفاق کے بغیر، خود کے امیر ہونے کا اعلان کردیا... یہ ایک اصولی تبدیلی کام کے دستور اور نہج میں سعد صاحب نے کی حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کی رائے خلاف ...
اب جبکہ 2015 رائےونڈ میں پرانی شوری کی تکمیل کا کام ھوا جو دعوت کے کام کے عین دستور اور بڑوں کے طے کردہ نہج کے مطابق تھا تو چونکہ موصوف پہلے اپنی امارت کا دعوٰی کر چکے تھے لہذا اب شوری ہی کا سرے انکار کر دیا...
انا للہ و انا الیہ راجعون...
یہ سارے حقائق اس بات پر دال ہیں کہ مولوی سعد اپنی مطلق العنانیت و آمریت پر شوری کی گرفت نہیں چاہتے... اور عالم کے بڑوں کے متعین کردہ دستور ونہج کےمطابق نہیں چلنا چاھتے۔
اور اب تک جسطرح محض ایک "رکن شوری" کی حیثیت سے بغیر مشورہ کے دستور و نہج کی خلاف ورزی کی، اب آگے بھی "امیر" کی حیثیت سے مزید بے لگامی کے ساتھ باگ ڈور لینا چاہتے ہیں ...
*فقیر ابوخنساء الحنفی*
اس دعوے کی دلیل یہ پیش کی گئی کہ چونکہ سعد صاحب اس شوری کے رکن ہیں جس کو مولانا انعام الحسنؒ نے طے فرمایا تھا ...اس لیے سعد صاحب کے اتفاق بغیر یہ شوری کالعدم ہے۔
سب سے پہلے یہ عرض کردوں کہ جس اصول کے تحت بھائی واصف الإسلام شوری کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اسی اصول کی بنا پر سب سے پہلے منتخب احادیث کا اضافہ اور وہ تمام امور کالعدم ہوگئے جو سعد صاحب نے حاجی عبدالوہاب صاحبؒ سے مشورہ اور اتفاق کے بغیر جاری کیے ہیں.. خاص طور سے سعد صاحب کا دعوائے امارت جو کہ اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے، *نہ صرف یہ کہ اس پر حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کا اتفاق نہیں بلکہ حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کی واضح آڈیوز آچکی ہیں جسمیں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ سعد کی امارت نہیں چلے گی*
اس وقت بھائی واصف الإسلام کو نہ تو کوئی اصول یاد آیا اور نہ ہی مولانا انعام الحسنؒ کی کوئی شوری یاد آئی۔
کوئی حرج نہیں... انسان کو بھول ہوجاتی ہے، اب ہم آپکو بھی اور سعد صاحب کو بھی یاد دلا دیتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ یہ بات تحریرا اور تقریرا عام کریں کہ سعد صاحب کی امارت حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کے اتفاق نہ کرنے کی وجہ سے کالعدم ہے، اور وہ تمام امور بشمول منتخب احادیث، کالعدم ہیں جو سعد صاحب نے حاجی عبدالوہاب صاحبؒ سے مشورے کے بغیر چلائے ہیں۔
جب سعد صاحب کا اس اصول پر عمل ہو جائے تب پھر آگے گفتگو فرمائیں۔
*بہر کیف..!! اب اس کے بعد خط کے راست جواب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سعد صاحب کا شوری کے اضافے سے اختلاف کرنا غیر معتبر، مردود اور ناقابل التفات ہے اور سعد صاحب کے اس اختلاف سے 2015 میں کی گئی شوری کی تکمیل پر اصولاََ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سعد صاحب جس شوری کا انکار کررہے ہیں، عالَم کے اکابر نے حضرت جی ثالث مولانا انعام الحسنؒ کی وفات کے بعد 1995 میں نظام الدین میں جمع ہوکر خود سعد صاحب ہی کی رائے پر فیصلہ کرتے ہوئے دعوت کے کام کو نظام امارت سے ہٹا کر نظام شوری پر رکھا تھا لہذا موجودہ "نہج شورائیت" نظامِ دعوت و تبلیغ کا "دستور اور منہج" قرار پایا جس پر 1995 سے اب تک سب کا اتفاق رہا ہے اب اس مقرر و معین کردہ "دستور اور نہج" سے کسی بھی فرد کا اختلاف کرنا کلیۃ بے معنی لغو اور اصولاََ معاہدہ شکنی ہے۔ رائیونڈ 2015 کے اجتماع میں اسی پرانی متفقہ شوری میں ناموں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ کوئی نیا امر نہیں جس پر کسی کا اختلاف اثر انداز ہوسکے بلکہ یہ محض ایک پرانے مقرر کردہ منہج و دستور کی continuity اور سلسلہ بندی ہے جسے تسلسل بخشا گیا ہے*
سوال یہ ہے کہ سعد صاحب اس شوری کی تکمیل یا اس شوری کے تحت مستقبل میں کام کرنے سے کیوں گریز کررہے ہیں جس شوری کو مولانا انعام الحسنؒ کے انتقال کے بعد عالم کے بڑوں نے سعد صاحب ہی کی معیت میں انکی رائے سے طے کیا..؟؟؟
نیز یہ کہ جب دعوت کے کام کو نظام امارت سے ہٹا کر خود سعد صاحب ہی کی رائے کے مطابق سب کے اتفاق سے نظام شوری رکھ دیا گیا تو اب بغیر اتفاق رائے کے دوبارہ امارت کا دعوٰی کرنا بلا شبہ دعوت و تبلیغ کے متفق علیہ منہج اور دستور کی مخالفت ہے جو شرعاً عہد شکنی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے..؟؟؟
مولوی سعد نے پچھلے 20 سالوں میں دعوت و تبلیغ کے متفقہ دستور و نہج میں بغیر مشورہ و حاجی صاحبؒ کے اتفاق کے، بلکہ حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کے اختلاف کے باوجود، متعدد تبدیلیاں کر دیں(واضح رہے کہ ذمہ داران مع حاجی صاحبؒ کے درپردہ مسلسل سمجھاتے رہے اور سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے رہے.) اور اب 2015 کے رائےونڈ اجتماع سے پہلے سعد صاحب نے حاجی صاحبؒ کے مشورے و اتفاق کے بغیر، خود کے امیر ہونے کا اعلان کردیا... یہ ایک اصولی تبدیلی کام کے دستور اور نہج میں سعد صاحب نے کی حاجی عبدالوہاب صاحبؒ کی رائے خلاف ...
اب جبکہ 2015 رائےونڈ میں پرانی شوری کی تکمیل کا کام ھوا جو دعوت کے کام کے عین دستور اور بڑوں کے طے کردہ نہج کے مطابق تھا تو چونکہ موصوف پہلے اپنی امارت کا دعوٰی کر چکے تھے لہذا اب شوری ہی کا سرے انکار کر دیا...
انا للہ و انا الیہ راجعون...
یہ سارے حقائق اس بات پر دال ہیں کہ مولوی سعد اپنی مطلق العنانیت و آمریت پر شوری کی گرفت نہیں چاہتے... اور عالم کے بڑوں کے متعین کردہ دستور ونہج کےمطابق نہیں چلنا چاھتے۔
اور اب تک جسطرح محض ایک "رکن شوری" کی حیثیت سے بغیر مشورہ کے دستور و نہج کی خلاف ورزی کی، اب آگے بھی "امیر" کی حیثیت سے مزید بے لگامی کے ساتھ باگ ڈور لینا چاہتے ہیں ...
*فقیر ابوخنساء الحنفی*