*امارت یا شوری؟؟؟*
تحریر: *ابوخنساءالحنفی.*
جب اکابر دعوت نے دعوت کے کام کو شورائی طرز پر چلانے کے لیے شوری کے افراد طے فرمائے تھے اور اس شوری کے فیصل کے افراد بھی طے فرمائے تھے تو ان افرادِ شوری وافرادِ فیصل کے انتقال پر، انکی جگہ دوسرے کو طے کرکے شوری کی بقا، یہ ان اکابر کی منشاء ہوگی یا اس شورائی نظام کو ختم کر کے دعواے امارت انکی منشاء ہوگی...؟؟؟؟؟
ایک یہ بات چلائی جارہی ہے کہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے دس افراد کی شوری کی نامزدگی اس لیے کی تھی کہ یہ دس حضرات ایک امیر متعین کریں، جبکہ اسکی کوئی دلیل نہیں کہ دس افراد کی نامزدگی اسی مقصد کے لیے ہوئی تھی ناتو کسی ملفوظ میں یہ بات ملتی ہے اور ناہی اکابر دعوت و تبلیغ اور ارباب حل و عقد اس بات کی صحت کی تصدیق کرتے ہیں، اور اگر مان بھی لیں کہ مولانا انعام الحسن صاحب نے دس افراد کے شوری کی نامزدگی ایک امیر کو متعین کرنے کے لیے کی تھی تو اسی دس افراد کی شوری نے اس کام کے لیے امارت کے بجائے کو شورائیت کو اختیار کیا تھا لہذا ایک امیر کے بجائے تین فیصل طے کیے گئے پس کسی بھی فرد شوری یا فرد فیصل کے انتقال پر اس کی جگہ دوسرے فرد کا اضافہ ہونا چاہیے .... اور کام مستقبل میں بھی شوری ہی کے تحت ہی چلنا چاہیے ... نہ کہ امارت کے تحت.... اور اِسوقت کے سارے اکابر دعوت و تبلیغ، اور ارباب حل و عقد بھی اسی کے قائل ہیں اور ان تمام اکابر شوری کا اس پر اجماع ہوچکا... اور اب اس شوری کا انکار اجماع کی مخالفت کے مترادف ہے. اور حدیث کی رو سے اجماع کا مخالف جھنمی ہے.