مفتی صاحب،
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
تبلیغی جماعت میں امارت کی شرعی حیثیت اور عالمی انتشار سے ھوئے نقصان کی بناء پر چند سوالات
1. *کیا مرکز نظام الدین میں امارت کا وجود و بقا ایسی شرعی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے وجودوبقا کی سعیِ تام اس درجہ کی جائے کہ امت و جماعت کے دودھڑے کے شدید انتشار سے صرفِ نظر کرلیا جاوے؟؟؟*
2. *کیا امارت کا وجود اتنی بڑی شرعی ضرورت ھے کہ جماعت کا منتشر ھو جانا منظور کر لیا جائے مگر امارت کا وجود باقی رکھا جائے؟؟؟*
3. کیا تبلیغی جماعت کے کام کو "شوری و فیصل" کے تحت بغیر کسی "حضرت جی" یا امیر کے چلانا غیر شرعی طریقہ تھا؟؟؟ (جیسا کہ پچھلے 20 سال چلا.)
4. *کیا موجودہ صورتحال میں امارت کا وجود و بقا کی کوشش ایسی شرعی درجہ رکھتی ھے کہ اس کے لئیے جماعت کی اجتماعیت کو داؤ پر لگایا جائے؟؟؟؟*
5. *کیا عالمی سطح پر پرانے اکابرین کی شوری میں کوئی ایسی شرعی قباحت تھی کہ اس کو قبول کرنا شرعاً غیردرست تھا؟؟؟؟*
6. کیا تبلیغی جماعت کے مرکز کو بغیر امیر کے چلانا جائز نہیں؟؟؟؟
7. کیا موجودہ صورتحال میں امارت کو ختم کرکے، شوری پر کام کو رکھ کر تبلیغی جماعت کے مرکز کو چلانا کسی غیر شرعی عمل کو شامل ھے؟؟؟
8. *کیا اس میں احتیاط نہیں ھے کہ، مولانا سعد صاحب جیسی شخصیت جن کی زبان سے متعدد باتیں خلاف شرع سرزد ھوئیں، اُن ایک شخص پر ساری تبلیغی جماعت کی بنیاد نہ رکھی جائے اور کئی پرانوں بمعہ مولانا سعد صاحب کی سرپرستی میں کام چلے... تاکہ امت شاذ اقوال و تفرد سے بچ سکے؟؟؟*
9. *شریعت کے بہت سے معاملات میں افراط و تفریط نیز شدید غلطی و تحریف معنوی کے مرتکب "مولانا سعد صاحب کی دینی متنازعہ شخصیت" کو اھلِ حق کی سب سے بڑی عوامی جمیعت کی امارت دینا کیا دین کو غیر محفوظ نہیں بنا دیگا؟؟؟*
مستفتی... شاہ مشکور صدیقی... ممبئی
*الجواب*
حامداومصلیاومسلما:-
موجودہ امارت کی اساس جھوٹ، تہمتیں، الزام تراشیاں، اکابرین امت پر طعن و تشنیع، نیز قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی من مانی تشریح کرنے پر ہے،
موجودہ امارت کی اساس جھوٹ، تہمتیں، الزام تراشیاں، اکابرین امت پر طعن و تشنیع، نیز قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی من مانی تشریح کرنے پر ہے،
دین کسی نہ کسی جگہ سے پھیلتا ہے، پر اسی جگہ سے قیامت تک پھیلتا رہے، اور اس جگہ سے الگ ہونے والا گم راہ، وہاں رہنے والے ہی ہدایت یافتہ ہونا ضروری نہیں، بل کہ اس کا بر عکس بھی ہوتا ہے.
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے دار الخلافہ کوفہ کو بنایا تھا، جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو بنایا تھا.
آج امارت انانیت اور من مانی میں بدل چکی ہے، ایک جماعت لوگوں پر دین کی ترغیب دینے کی بہ جائے امارت کو منوانے پر وقت صرف کر رہی ہے. اس امارت کی وجہ سے امت میں زبردست انتشار ہو رہا ہے، پر فکر اپنی امارت کی ہے،کیا اسے ہی دین اور پانچواں نمبر اخلاص نیت کہاجائیگا؟
بہ ہر حال آپ کو ایک استفتاء اور اسکا جواب بھیج رہا ہوں اس میں آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہے اسی پڑھ لیں.
٭ مرکزکےموجودہ انتشار پراستفتاء اوراس کا تفصیلی جواب*
مولانا مفتی جنید صاحب! السلام علیکم.
مجھے دعوت و تبلیغ کے بارئے میں سوال کرنا تھا
سوال (١)سب سے پہلا سوال یہ تھا کے کیا دعوت کے کام میں امارت ہونی چاہئے یا شورہ ؟
سوال (٢) کیا دور صحابہ کی مثال دینا درست ہوگا کے صحابہ میں امارت تھی چار خلیفہ وغیرہ؟
سوال (٣) کیا مولانا سعد صاحب کو دیوبند کے فتوے کے بعد بھی حق پر سمجھنا درست ہے؟
سوال (٤) مجھے کسی نے کہا علماء کا اختلاف رحمت ہیں کیا اسے رحمت کہاجائگا یا یہ سنگین فتنہ ہیں
سوال (٥) آخری سوال میں مولانا سعد صاحب کا ساتھ دو یا مولانا ابراہیم صاحب دیولہ اور احمد لاٹ صاحب کا؟
المستفتی: محمد ایوب میمن
الجواب:حامداومصلیاومسلما:-
(١) فسادزمانہ اور خصوصا جب کہ امیر بننے کا شوق غالب ہو، تبلیغی کام کی حفاظت اور افادیت شوری ( جس کا طریقہ کار آگے آ رہا ہے) کے تحت کام کرنے میں ہے.
(١) فسادزمانہ اور خصوصا جب کہ امیر بننے کا شوق غالب ہو، تبلیغی کام کی حفاظت اور افادیت شوری ( جس کا طریقہ کار آگے آ رہا ہے) کے تحت کام کرنے میں ہے.
شوری کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہر ہفتہ یا مہینہ کا امیر طے ہوتا ہے، اب امیر اس ہفتہ یا مہینہ کے درمیان آنے والے تمام امور کا فیصلہ اہل شوری سے صلاح و مشورہ کے بعد کرتا ہے، پھر دوسرے ہفتہ یا مہینہ دوسرا امیر طے کیا جاتا ہے، ھلم جرا،
گویاشوریبھی کسی امیر ہی کے ماتحت کام کرتی ہے، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ امیر تاحین حیات نہیں ہوتا.
(٢) صحابہ کے دور میں مطلقا تمام امور میں خلافت تھی، لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا دعوت و تبلیغ کا کام کوئی امور خلافت نہیں کہ مستقلا امیر کا محتاج ہو ویسے دعوت و تبلیغ کا کام امیر سے خالی بھی نہیں کہ شوری میں ہر ہفتہ یا ماہ کا امیر بنایا جاتا ہے.
خلافت وامارت میں انتخاب امیر کے شرعی طریقے صرف چار ہیں.
(١) علماء، قضاۃ وغیرہ ارباب حل و عقد کا کسی لائق شخص پر اتفاق کرلینا، جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تقرری اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آئی.
(٢)شرعی طورپر منتخب شدہ امیر یا خلیفہ اصحاب الرائے کے صلاح و مشورہ یا اپنی صواب دید سے کسی لائق شخص کو نامزد کردے، جیسا کہ خلافت فاروقی کا قیام اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آیا.
(٣) جامعین شرائط شوری اہل الرائے کے مشورہ سے غوروفکر کرکے کسی کو مقرر کر دے، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مقرر کردہ شوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو منتخب کیا، اور صحابہ نے اسے قبول کر لیا.
(٤) غلبہ اور استیلاء کےذریعہ کوئی لائق شخص منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر تالیف قلوب اور قوت کے ذریعہ سب کو اپنا مطیع بنالے.(استیلاء کی بعض صورتیں غیر شرعی اور ناجائز ہیں، جس کی تفصیل اپنے مقام پر کتب فقہ میں مذکور ہے) (مستفاد:ازالۃ الخفاء، مقصد اول، فصل اول صفحہ نمبر ٢٤،٢٥).
خلیفۃ المسلمین کے تقرر کے چار طریقے اوپر مذکور ہوئے، ان میں سے کسی ایک بھی طریقے پر موجودہ صورت میں کسی کو امیر نہیں بنایا گیا،
بل کہ شوری کے تحت کام جاری وساری رکھنا یہ تقرر امیر کے تیسرے طریقے پر عمل ہوا، کہ چند دنوں پر اہل الرائے کے مشورہ سے امیر بدلا جائے.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امارت طلب کرنے بلکہ دل میں خواہش اور طمع رکھنے پر اللہ کی مدد نہ آنے کا حدیث میں فرمایا ہے.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ سے فرمایا : اے عبد الرحمن بن سمرۃ! امارت کو طلب نہ کرنا؛ اس لئے کہ اس لئے کہ اگر یہ تیری طلب پر دی گئی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائیگا، اور اگر تجھے تیری طلب کے بغیردی گئی تو تیری اس پر مدد کی جائیگی.
ایک روایت میں ہے کہ ابو موسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے دو چچیرے بھائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے، میرے چچیرے بھائیوں یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سےولایت(امارت) چاہی تو آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھا کر فرمایا کہ میں ایسے شخص کو امیر نہیں بناتا جو اس کا سوال کرے یا دل میں خواہش رکھے.
ایک روایت میں ہے کہ اگر تم امارت کی خواہش رکھوگے تو کل قیامت کے روز نادم ہوں گے.
في الصحيحين عن النبي صلى الله عليه وسلم أن قوماً دخلوا عليه فسألوه الولاية ، فقال ” إنّا لا نولي أمرنا هذا من طلبه "
عن أبي موسى قال : دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم أنا ورجلان من بني عمي ، فقال أحدهما : يا رسول الله أمرنا على بعض ما ولاك الله عز وجل ، وقال الآخر مثل ذلك ، فقال : إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا يسأله أو أحدا حرص عليه.
وعن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عبد الرحمن بن سمرة لا تسأل الإمارة ، فإنك إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها ، وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها (متفق عليهما )
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة ، فنعم المرضعة ، وبئست الفاطمة( رواه أحمد والبخاري والنسائی).
اب موجودہ دور میں امت کے کیا حالات ہیں، آپ کے سامنے ہے، لہذا اللہ عزوجل کی مدد کیسے آئیگی؟
(٣) دارالعلوم دیوبند کی تحریر کے بعد بھی محترم موصوف کا رویہ نہیں بدلا بل کہ جن باتوں کی وجہ سے انھیں گم راہی کے راستے پر بتلایا تھا ان باتوں میں سے کچھ کو دوبارہ دوہرایاگیا.
احقر کے نزدیک ان باتوں کو صرف "غلط مسئلہ" کہہ کر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان غلط مسائل کے نتائج انتہائی خطر ناک اور بھیانک ہیں.
کیمرہ والے موبائل سے متعلق مسئلہ میں بہ قول محترم موصوف *"جو علماء اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں وہ علماءسو ہیں(نیز اور بھی سخت کلام کیا ہے) الخ"*.
دنیا کا کوئی بھی عالم یا مفتی جس نے صحیح تعلیم اور فکر پائی ہوگی نماز کے جواز ہی کا حکم دیگا، اب محترم موصوف کے کہے موجب یہ تمام علماء علمائے سو ہوئے، گویا دنیا میں کوئی صحیح مفتی اور عالم بچا ہی نہیں، اب جو حضرات محترم موصوف کے اس مسئلہ اور بیان سے متاثر ہوئے ہوں گے ان کے دلوں میں ان تمام علماء ومفتیان کرام کی نفرت آئیگی نیز علماء سے بھی دور ہوگا.
موصوف کا *"حضرت موسی علیہ السلام والے واقعہ کی غلط توجیہ کرنے نیز اصلاحی تعلق والی"* بات سے لوگوں کے قلوب میں خانقاہوں کی اہمیت گھٹیگی.
موصوف کی * "ہدایت ملنے کی جگہ مسجد کے علاوہ کوئی نہیں"* الخ والی بات سے مدارس کی افادیت لوگوں کے دلوں سے کم ہوگی.
موصوف کی یہ بات * "اجرت لے کر دین کی تعلیم دینا دین کو بیچنا ہے، زناکار لوگ تعلیم قرآن پر اجرت لینے والوں سے پہلے جنت میں جائیں گے"* تو انتہائی خطرناک ہے، ایک سمجھ دار عالم تو کیا ایک سمجھ دار مومن بھی یہ جملے اپنی زبان پر لانا گوارا نہیں کرےگا،اس بات سے لوگوں کے دلوں میں علماء کی کیا قدر رہ جائیگی؟
موصوف محترم کی ہر غلط بات کا نتیجہ دین کے دیگر شعبوں کی تنقیص اور اہل علم کی برائی ہی نکلیگا. لہذا اسے صرف "غلط مسئلہ" نہیں کہا جاسکتا.
(٤) اس اختلاف سے امت میں سوائے انتشار اور افتراق کے کچھ بھی نہیں، جس اختلاف سے لوگوں میں گالم گلوچ اور مار پیٹ تک بات پہونچی ہو اسے شیطانی حربہ کہا جائیگا، نہ اختلاف علماء.
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ "اختلاف امتی رحمۃ" سے علماء کا ہر اختلاف مراد نہیں ہے بل کہ مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے کہ جس سے عوام کے لئے وسعت ہو.
(ﻗﻮﻟﻪ: ﺑﺄﻥ اﻻﺧﺘﻼﻑ) ﺃﻱ ﺑﻴﻦ اﻟﻤﺠﺘﻬﺪﻳﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﻭﻉ ﻻ ﻣﻄﻠﻖ اﻻﺧﺘﻼﻑ. ﻣﻄﻠﺐ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ «اﺧﺘﻼﻑ ﺃﻣﺘﻲ ﺭﺣﻤﺔ» .
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﻦ ﺁﺛﺎﺭ اﻟﺮﺣﻤﺔ) ﻓﺈﻥ اﺧﺘﻼﻑ ﺃﺋﻤﺔ اﻟﻬﺪﻯ ﺗﻮﺳﻌﺔ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ، ( مقدمہ رد المحتار).
(٥) اوپر کی تحریر سے بالکل واضح ہے کہ شوری کی بتلائی ہوئی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ہی امت کے لئے نافع ہوگا، اسی میں کام کی حفاظت اور افادیت مضمر ہے. فقط والله تعالى أعلم وعلمہ اتم واحکم.
*کتبہ:مفتی جنید بن محمد عفی عنہ پالنپوری. *
*دارالافتاءوالإرشاد،مجلس البرکہ(کولابہ، ممبئی) *
مؤرخہ ٢٨ ربیع الاول ١٤٣٨ ہجری