ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

15/10/19

نقوشِ بنگلہ (قسط 1)

*نقوشِ بنگلہ*
(قسط نمبر 1)

بنگلہ دیش ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں دعوت کا کام معیاری ہے۔

*جغرافیائی احوال :-*
بنگلہ دیش تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے رقبے پر بسا ہوا چھ صوبوں اور 64 اضلاع اور 70 ہزار گاؤں پر مشتمل ہے یہاں پر ضلع کو تھانہ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش اسلامی حکومت تو نہیں ہے مگر الحمد للّٰہ اسے مسلمانوں کی حکومت کہہ سکتے ہیں 18 کروڑ کی کل آبادی میں سے 17 کروڑ مسلمان ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں پر اہلِ علم حضرات کو مدارس کے اعتبار سے کام کرنے میں حکومت کی جانب سے وہ اندیشے اور رکاوٹیں نہیں ہیں جو اس وقت تو ہندوستان کے مدارس پر منڈلا رہے ہیں۔ اللّٰہ کرے کہ آئندہ بھی نہ ہو آمین۔

*حکومت کا اپنے سیاسی منظرنامہ میں علماء کرام کے تئیں رویّہ*

علمائے کرام کے تئیں حکومت نرم گوشہ رکھنے کے ساتھ بظاہر علماء نواز ہے مگر سنہ 1971 میں بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہونے کے وقت علمائے کرام اور دیندار خواص کا طبقہ پاکستان سے علیحدگی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بباطن حکومت اور حکومتی افراد میں علمائے کرام سے ایک گونہ انقباض باقی ہے مگر علماء کرام کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے نیز عامۃالمسلمین کے اکثریتی طبقہ کے رجحانات اور روابط علمائے کرام سے زیادہ ہونے کی وجہ سے سیاسی مصلحتیں حکومت کو علماء کے ساتھ رواداری اور ان کے مطالبوں کی کافی حد تک رعایت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

*دعوت کے کام کے اجمالی احوال*
بنگلہ دیش والوں نے دعوت کے کام کو بڑی سلیقہ مندی اور تنظیم و ترتیب کے ساتھ سمیٹا ہوا ہے۔
یہاں کا ککرائل مرکز، نظام الدین سے کئی گنا بڑا ہے۔ اختلاف کے نتیجے میں حکومت نے ککرائل مرکز کے قیام کو دونوں فریق کے درمیان اٹھائیس اور تیرہ دنوں میں تقسیم کر دیا ہے 28 دن شوریٰ والے اپنا نظام چلائیں گے اور تیرہ دن دوسرا فریق۔

پورے شہر ڈھاکہ میں قبل اختلاف 8 مقامات پر شب گزاریاں ہوتی ہوتی تھیں اختلاف کے بعد ایک شب گزاری کا مقام شخصی نظام والوں کو دے کر اس کے متبادل ایک دوسرا مقام جامع مسجد سییکٹر 12 جو سات منزلوں پر مشتمل ہے شوریٰ والوں کے لئے تجویز کیا گیا اور اختلاف کے برکت سے ایک نئے مقام کا مزید اضافہ ہوا اس طرح سے اس وقت اہل شوریٰ کی ککرائل سمیت 9 مقامات محمدپور، میر پور، جترا باڑی، ٹونگی میدان مسجد اور دیگر چار مقامات پر شب گزاریاں ہوتی ہے ساری شب گزاریوں کا کل مجمع تقریبا دس ہزار کے قریب ہوتا ہے الحمدللّٰہ۔
پورے ڈھاکہ شہر کے 12 خطے اور فی خطہ 12 سے 28 حلقوں اور فی حلقہ تقریبا 20 سے 25 مساجد پر مشتمل ہے۔ ان بارہ خطوں کل نو مقامات پر شب گزاری ہوتی ہے کسی جگہ ایک خطہ اور کسی جگہ دو خطہ کی۔

اختلاف کے نتیجے میں کام کا نقصان جگ ظاہر ہے مگر اس انتشار کے بعد کام کی سطح گرنے کے باوجود بھی اس وقت الحمدللّٰہ ککرائل مرکز سے روزانہ ڈیڑھ سو سے تین سو جماعتیں چلے چار مہینے کی روانہ ہوتی ہیں اس بیرون ملک کی روزانہ چار پانچ جماعتیں روانہ ہو رہی ہیں الٰلھم زد فزد۔

*مدارس اور مکاتب کا جال*
پورے ملک میں مدارس کا قابل رشک جال پھیلا ہوا ہے عوامی چندے پر چلنے والے جنہیں قومی مدارس کہا جاتا ہے صرف "وفاق المدارس القومیۃ" کے تحت ان کی تعداد پورے ملک میں تیرہ ہزار اور ان کے علاوہ دوسرے چار وفاق کے تحت مزید تقریباً پانچ ہزار اس طرح کل ملا کر تقریباً اٹھارہ ہزار مدارس اور ان سب پر ایک "الھَیئۃ العُلیا للجامعات القومیۃ" ہے اس بورڈکے تحت دورہءِ حدیث کے وفاقی امتحانات اور تقسیمِ اسناد کا بین الملکی نظام بھی ہے۔
اگر ان کے ساتھ مکاتب کو بھی جوڑا جائے تو مجموعی تعداد 75 ہزار ہوتی ہے۔

*علمی رجحان*
ہندوستان کے اکثر مدارس قحط الطلباء کے شکار ہیں امت کا صرف تین/ چار فیصد مدارس میں آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں وفاقی مدارس کے تحت 15 لاکھ طلبہ کا فیصد مسلمانوں کی 17۔کروڑ کی آبادی کے حساب سے 13/ 14 فیصد ہے ماشاء اللّٰہ۔
(اگر اس کے ساتھ دوسرے وفاقوں کے مدارس کے طلبہ بھی جوڑ لئے جائیں تو یہ فیصد اور بھی بڑھ جاتا ہے) 
چھوٹے سے چھوٹے مدرسوں میں طلباء کی تعداد 500 سے کم نہیں اور بڑے مدارس میں طلبہ کی تعداد 20000 تک پہنچتی ہے۔ اللّٰہ نظر بد سے بچائے آمین۔

*علمی ذوق*
کئی مدارس میں دورہءِ حدیث سے اوپر مختلف علوم کی تکمیلات اور فنی تخصصات کا ایک عام رواج بنگلہ مسلمانوں کے عمومی علمی ذوق کی علامت ہے اور ان علماء سے ملاقاتوں میں اکثر پڑوس ملک اور دیگر جامعات سے مختلف فنون میں تخصصات کی ہوئی متخصصین کی اچھی خاصی تعداد ملتی ہے۔ اللّٰہ رب العزت مرشد سے مدارس کی شش جہات سے حفاظت فرمائےآمین۔
مدارس کی دوسری لائق تقلید خصوصیتیں اگلی کسی لقاء میں ان شاء اللّٰہ العزیز۔


فقط یکے از شرکائے جماعتِ علماء بجانب بنگلہ دیش

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم