ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

16/10/19

نقوشِ بنگلہ (قسط 2)

*نقوشِ بنگلہ*
(قسط نمبر 2)

*ٹونگی حادثہ یا قیامت صغریٰ*

وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں دیں
رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا نہ تھا

یکم دسمبر 2018 بروز سنیچر دوپہر گیارہ بجے ٹونگی میدان کا حادثہ مسلمانوں کی تاریخ بلکہ علمائے کرام کی تاریخ میں ایک ایسے سیاہ باب کا اضافہ ہے جسے سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت اگر ذرائع ابلاغ پر وقتی پابندی نہ لگا کر کما حقہٗ عالم پر آشکارا ہونے دیا جاتا تو پورا عالم اسلام اور پوری دنیا کے مسلمان اس حادثے کے خلاف سراپا احتجاج ہو گئے ہوتے اور اگر یہی معاملہ ہندومسلم ہوتا تو پوری دنیا میں ہلچل مچ جاتی۔ بلکہ اس کے برعکس یہودی خطوط پر عمل کرتے ہوئے یعنی
"ظلم کرکے فریادی بننا"
اور "جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے"
کے مطابق ٹونگی کے اس دلدوز منظر نامے کو دنیا پر معکوس کرکے، ظالم کو مظلوم بنا کر اور مظلوم کو ظالم کی شکل میں پیش کیا گیا اس یہودی طرز کے پروپیگنڈے کا اثر ہندوستان کے بعض محققین علمائے حقہ پر بھی ہوا فاِلیٰ المشتکیٰ۔

ہماری ڈائری میں اور ہمارے جماعت کے علماء کے دل و دماغ میں ٹونگی میدان دنگل میں متاثر ہونے والے مہمانان رسولؐ اور علماء کرام کی زبانوں سے لائیو (براہِ راست) سنی ہوئی ہیجان برپا کررہی رقت انگیز رودادیں اورگریہ طاری کر دینے والے انفرادی واقعات جو ان علمائے کرام کے پاس مدارس میں جاکر الگ الگ ملاقاتوں میں اورکچھ اجتماعی ملاقاتوں میں سننے کو اور ان متاثرین ومجروحین کو دیکھنے کو ملا اسے اگرہمارے ساتھیوں کے دل ودماغ سے نکال کر صفحہءِ قرطاس پر بکھیرا جائے تو ایک ایسا کتابچہ تیار ہوسکتا ہے جس کا نام
"کراہتا بنگلہ دیش"
رکھنا مناسب ہوگا بنگلہ دیش کے علماء کی ایسی کراہ جس کو بنگلہ دیش کے باڈر سے باہر نہ نکلنے دیا گیا جس کو زور و زَر سے دبا دیا گیا جس کراہ کو سننے اور محسوس کرنے کے لئے ہندوستان کے علماء اور عوام کو بنگلہ دیش کے مدارس کی ایک مرتبہ صحراءنوردی کرنی ضروری ہوگی۔
ہمارے ان شنیدہ واقعات اور ان کے دیدہ اثرات و نشانات کو دیکھتے ہوئے اگر ہم یہ کہیں کہ ٹونگی سانحہ چھوٹی سطح کے تاتاری حملے کی ایک تصویر اور فدایانِ سعد کا یہ حملہ آورجنونی ٹولہ، مولانا الیاسؒ کے اکرام مسلم کی داعی جماعت نہیں بلکہ ایک تاتاریوں کا ایک بھٹکا ہوا، پیچھے رہ جانے والا طائفہ تھا تو بے جا نہ ہوگا بس اس فرق کے ساتھ کہ ماضی کے تاتاریوں کو مسلمانوں کی بد اعمالیوں پر ان کے رب نے ان پر مسلط کیا تھا اور یہ ایک ایسے شکاری کے کلبِ معلم تھے جس نے انہیں ایسی ہی اطاعت کا سبق پڑھایا تھا وہ شکاری جس نے حفاظتِ حق اور سدِّ باطل کے جرم میں کل کے اپنوں ہی پر اپنے کلبِ معلَّم کو دبوچنے کے لئے چھوڑا تھا

موسم گل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں کا حصار
جب خزاں آئی تو اس میں ایک بھی پتّہ نہ تھا

جس نے نہ صرف یہ کیا کہ اس نے نسبت علم اور مہمان رسولؐ کا لحاظ نہ رکھا بلکہ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ٹونگی کارزار میں اہل علم اور طالبان علم نبوت کو ہی نشانہ بناکر اوران مظلومین کو ان کا عالم ہونا جتلا جتلا کر درندانہ پیٹا اس حادثے کی خاص بات یہ تھی کہ اہل علم کے ان سروں اور دماغوں کو خاص طور پر نشانہ بناکر انہیں ناکارہ بنانے کی فرعونی کوشش کی گئی جو آئینہءِ علوم نبوت تھے فسیعلَمُ الذِینَ ظَلَموا أیَّ مُنقلبٍ یَّنقلِبونْ ۔

کیا دنیا والوں کو یہ معلوم ہے کہ بنگلہ دیش کے کتنے علمائے کرام اپنی یادداشت کھو چکے تھے اور کیا باہر کی دنیا کو یہ معلوم ہے کہ کتنے علماء ابھی ایسے ہیں جن کی یادداشت ابھی تک بحال نہ ہوسکی؟
کیوں؟
اس مخصوص انداز کا ظلم کیوں؟
کیا امت کو ان علماء کے دماغی وجود سے محروم کرنا مقصود تھا جو ان کی نسلوں کے ایمان و عقائد اور دین کی صحیح شکلوں کے محافظ تھے؟؟؟

کس لئے احباب نے تیروں کی زد پہ لے لیا
میں نے تو دشمن کا بھی لوگو برا چاہا نہ تھا

معاف کرنا احباب شدتِ جذبات میں مضمون طویل ہوا جا رہا ہے اور جزوی اور انفرادی واقعات کو قلم بند کرنا موخر ہوتا جا رہا ہے مگر یقین جانیں کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ ہوتے تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکتے۔

ٹونگی کے عمومی اجتماع سے تقریبا چالیس دن قبل ہر سال ہونے والے چار ماہ والوں کے جوڑ کی اُس سال دونوں فریق کو حکومت کی طرف سے حالات کو دیکھتے ہوئے اجازت نہیں دی گئی تھی جو ٹونگی میدان میں ہی ہوا کرتا تھا جس کی تاریخ قبل از ممانعت اہلِ شوریٰ نے 2 / دسمبر 2018 اور دوسرے فریق نے 7 / دسمبر 2018 طے کی تھی
(اس تاریخ میں کچھ فرق ہو سکتا ہے) عمومی اجتماع کے لیے میدان کی تیاری ہر سال کے معمول کے مطابق ڈھاکہ شہر کے مختلف خطوں کے مدارس کے طلباء اور علماء باری باری کیا کرتے تھے ہنگامے سے پہلے والے دن 30 نومبر 2018 جمعہ کو خطہءِ میر پور (جو ایک کثیر المدارس خطہ ہے) کے مدارس کی باری میں دوران تیاری کے دوران رات ہی سے میرپور کی وہ مسجد جو ٹونگی میدان ان کے پاس پاس تھی میں امارتیوں کا جماوڑا جمع ہونا شروع ہوگیا۔

ٹونگی میدان کے آس پاس کی مختلف مسجدوں میں جمع ہونا شروع ہوگیا دوسرے دن پولیس انتظامیہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں سڑکوں پر جماوڑا ہوتے اور گاڑیاں اور بسیں بھر بھر کے امارتیوں کو اترتے دیکھ کے اور پولیس انتظامیہ کی کوئی کارروائی اور حرکت نہ کرنے پر شوریٰ کے ذمہ داران کے اندیشے اور تشویشیں بڑھتے ہی رہے اس پر حکام اعلیٰ سے رابطہ کرنے اور انہیں اس طرف متوجہ کرنے پر ان کی طرف سے بار بار ایک ہی تسلی دی جاتی رہی اور یہ کہا جاتا رہا کہ
"گیارہ بجے تک مجمع ہٹ جائے گا آپ فکر نہ کریں"
شوریٰ والے اس جملے کا یہی مطلب سمجھتے رہے کہ گیارہ بجے مجمع ہٹ کر ٹونگی میدان کے پاس سے چلا جائے گا مگر انہیں بیچاروں کو کیا معلوم کہ شاید پولیس کمشنر کی مراد دوسری تھی؟؟؟

وہ دغا لکھتے رہے اور میں دعا پڑھتا رہا
..............مسلسل

یکے از شرکائے جماعت علماءبجانب بنگلہ دیش
بروزپیر23 ستمبر 2019

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم