ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

16/10/19

نقوشِ بنگلہ (قسط 3)

*نقوشِ بنگلہ*

ع:--
وہ دغا لکھتے رہے اور میں دعا پڑھتا رہا

بیچارے قسمت کے مارے ذمہ دارانِ شوریٰ کو کیا معلوم تھا کہ گیارہ بجے کی ساعت "ساعتِ بگل" ہوگی۔ گیارہ بجے کی "ساعتِ موعود" علماء بنگلہ دیش کی تاریخ کے سیاہ باب کی "ساعتِ بسم اللہ" ہوگی۔
ٹھیک گیارہ بجے کے "وقت موعود" پر اس رُستا خیز قیامتِ صغریٰ کا آغاز ہوا ہماری جماعت کی گنہگار آنکھوں نے مین روڈ پر واقع وہ BATA شوروم کے بغل میں واقع آہنی باب الداخلہ دیکھا جسے توڑ کر "اکرام مسلم کے داعیان اور مدعیان " اپنے" آلاتِ اکرام وراحت رسانی" ( آلاتِ حرب وضرب، ڈنڈے لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں کی شکل میں) کے ساتھ دیکھتی ،سنتی ،اندھی، بہری پولیس کی موجودگی میں اس ہیئت اور کیفیت کے ساتھ گھسے تھے گویا جہاد شرعی کا اعلان ہو چکا ہو اور یہ "اسلامی مجاہدین" ایسے بپھرے نظر آرہے تھے جیسےکسی قلعے کے دروازے کو توڑ کر کفار ومشرکین کا قلع قمع کرنے کے عزائم کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑے ہوں صرف اسی ایک منظر کی ویڈیو کلپ ہندوستان والوں کے سامنے آ سکی جس کو اس باب الداخلہ کے بغل میں کھڑی ایک پیلے رنگ والی بلڈنگ میں موجود کسی غیر متعلق فرد نے اپنے کیمرے میں قیدکر کے اسی دن وائرل کر دیا تھا۔ اب آپ دوبارہ اس ویڈیو کو دیکھ کر اندازہ لگا ئیں کہ اس جنونی حملہ آور ٹولہ کی ہئیت اور کیفیت اس وقت کیا تھی۔

احباب اس نکتے پر بھی غور فرمائیں کہ کیا یہ دنگل "نظام الدین کی "کلبِ مُعلَّم"(سدھائے ہوئے شکاری کتے) جیسی اطاعت "
سکھانے کا اور.......
"مسجد ضرار کو بنانے والے مسلمان تھے"
اور .........
"نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے مسجد ضرارکو آگ لگا دینے کاحکم دینے"
والے واقعات کو پرانوں کی مجلسوں میں سنانے سے ملنے والی "ترغیبات" کا نتیجہ تو نہیں تھا!!!؟؟؟

دوسری قابل غور بات ۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود ان کی عدمِ حرکت اور کاروائی نہ کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس کے بارے ایک "موٹی ہاتھ رُکوائی" کی روایتیں بھی ہمیں پہنچی ۔

ٹونگی میدان کارزار میں جو کچھ ہوا وہ کسی کیمرے کی قید میں آنے سے محفوظ رہا اس منظرِ قیامت خیز نے کسی کے ہوش کہاں اس لائق چھوڑے تھے کہ "حفاظتِ جاں" کے علاوہ کچھ سوجھتا !! کچھ اِکا دُکا واقعات جو کسی زیرک نے موقع پا کر لے بھی لئے وہ اکثر دنیا والوں کی نگاہ میں نہیں آسکے۔

*انفرادی وقائع*
ہماری واپسی سے پہلے والے 14 ستمبر کے دن ٹونگی میدان شب گزاری کے ما تحت ایک علاقے "مرزاپور" والوں کے ہماری جماعت کے عنوان پر عصر تا عشاء علماء اور پرانے ساتھیوں کے رکھے گئے جوڑ میں بعد نماز عصر ڈیڑھ ہزار علمائے کرام کی نشست میں ناچیز کا مذاکرہ ہونے کے بعد کمرے میں بہت سارے علاقے کے علماءکرام سے قُبیل مغرب ملاقات اور گفتگو کے بیچ بعض علماء کرام نے ٹونگی سانحہ میں اپنے اوپر پیش آئی بِپتا کو بڑے ہی معصومانہ انداز میں خود کی زبانی ہم ہندوستانی علماء کے سامنے ایسے سنائی جیسے بیٹا اپنے باپ سے ملنے کے بعد اپنی داستانِ مظلومیت سنا رہا ہو اور اپنی ٹوپی اتار کر اپنے سر میں لگے ہوئے زخم اور وٹانکوں کو ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ٹٹول ٹٹول بتاتے کہ یہ دیکھو ہمارے سروں کو ڈنڈوں لاٹھیوں سے یہاں یہاں پھاڑا گیا۔ عجیب معصومیت تھی ان بنگلہ دیشی علمائے کرام میں کوئی کہہ نہیں سکتا کہ سازش، چالاکی اور مکر وفریب سے ان کا دور دور کا بھی کوئی واسطہ ہو ان المناک داستانوں کو سن کر ہمارے جیسا سنگدل بھی خود شدتِ تأثر اور رقّت کا شکار ہو جاتا مگر اس کے باوجود انہیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں تسلی دیتے اور احتساب کی طرف متوجہ کرتے۔
ایک عالم دین کہنے لگے کہ ٹونگی میدان میں میرا سر تین انچ موٹے ڈنڈے سے ہمارے ہی حلقے کے ایک ایسے ساتھی نے پھاڑا جو حملے سے دو دن پہلے سے لے کر حملے شروع ہونے تک میدان کی تیاری میں کھانے پینے اور سونے میں میرے ساتھ ہم پیالہ وہم نوالہ رہا
مگر کیا کیا جائے کہ:-

درمیاں میں بے شعوری کی تھی ایک دیوار سی
جب تلک میں نے اِسے، اُس نے مجھے پرکھا نہ تھا

"ایسا کیوں !؟؟" ہمارے پوچھنے پر اس عالم نے کہا کہ یہ اس ساتھی کی منافقت اور دوغلہ پن تھا کہ امارتی گروپ کا ہونے کے باوجود اپنے آپ کو چھپاتا رہا میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ:-

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

داستان آگے بڑھاتے ہوئے وہ محترم عالم کہنے لگے میں نے اس ہم پیالہ ساتھی سے پوچھتا رہا کہ آپ اچانک ایسا کیوں کرنے لگے تو اس کا جواب یہ تھا کہ تم لوگ باغی ہو مسلمان نہیں ہو تم دوبارہ کلمہ پڑھو اور مجھے مارتے مارتے تلقینِ کلمہ کرتا رہا ڈر کے مارے میرے کلمہ پڑھ لینے کے باوجود مجھے مارنا نہیں چھوڑا پھر اسی پر بس نہ کرتے ہوئے مارنے کے بعد اپنے ساتھیوں کی مدد سے ٹونگی میدان کے کنارے کنارے شرکائے اجتماع کے لیے تھوڑی تھوڑی دور پر بنی ہوئی 300 بیت الخلاء پر مشتمل پیلے رنگوں والی بلڈنگ کی چھت پر لیجا کر پھر بے دردی سے مارا اور بڑی بے رحمی سے اوپر سے نیچے مجھے پھینک دیا اور پھر پھینکنے کے بعد بھی نہیں چھوڑا نیچے ایک دوسرے ٹولے نے مجھے راونڈ بناکر دوبارہ ڈنڈا پٹائی کی ( آپ ٹونگی میدان کے کنارے کنارے بنی پیلے رنگوں والی 300 بیت الخلاء پر مشتمل بلڈنگوں کی اونچائی ملاحظہ کر سکتے ہیں جس کی چھت پر سے اس عالم دین کو بےدردی کے ساتھ نیچے پھینکا گیا)

بقیہ واقعات اگلی کسی لقاء میں انشاءاللہ....
جاری.....

یکےاز شرکائے جماعت علماء بجانب بنگلہ دیش بروز بدھ 25 ستمبر 2019

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم