ہم امت مسلمہ بالخصوص تبلیغی احباب کو اس بات سے آگاہ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ مولوی محمد سعد صاحب کم علمی کی بناء پر قرآن وحدیث کی تشریحات میں اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں،جو بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے،اس لیے ان باتوں پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں اب عوام الناس میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اگر ان پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے گا (موقف دارالعلوم دیوبند)

نئی اشاعت

17/10/19

نقوشِ بنگلہ(قسط 4)

*نقوشِ بنگلہ*
(قسط نمبر 4)

*وقت کے ہاتھوں نے یہ کیسی لکیریں ڈال دیں*
*ایسے ہو جائیں گے ایسا تو کبھی سوچا نہ تھا*

ککرائیل مرکز سے ہمارا پہلا رخ تین روز کے لئے شہر کے ایک خطہ کی شب گزاری کے مقام محمد پورہ جو امارتی نظریات سے سب سے زیادہ متأثر ہے تین روز وہاں کام کرنے کے بعد چوتھے دن صبح 9 بجے اگلے رُخ پر منتقل ہوتے وقت.... مفتی مشرَّف صاحب جو محمد پورہ کی مسجد کی بغل میں قائم شدہ جامعہ اسلامیہ واحدیہ کے مہتمم تھے جنہوں نے اپنے ادارہ کے طلبائے عزیز کے ساتھ تین روز پوری نصرت مع خدمت اور ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہمارے ساتھ ساتھ لگے رہے انہوں نے ہمیں تین دنوں میں کچھ بتایا نہیں مگر عین اگلے رخ پر منتقلی کے وقت اپنا سامان بیگ وغیرہ لے کر مسجد کے گیٹ پر ایک گاڑی روانہ ہونے کے بعد دوسری گاڑی کے منتظر تھے ہمارے ہی کسی ساتھی نے اچانک ان کے دل کے تار کو چھیڑ دیا اور تین دن تک جو انہوں نے ٹونگی میدان میں اپنے اوپر گزرے ہوئے مصائب کو اپنی غیرت کے پردے میں چھپا کر روک رکھا تھا بالآخر مفتی صاحب سے بھی ضبط نہ ہو سکا بندھن ٹوٹ گیا اور پھر مفتى صاحب نے ٹونگی حادثے کے حوالے سے کھڑے کھڑے ہی اپنے آپ پر بیتی ہوئی جو المناک روداد سنائی اسے سن کر ہم دم بخود ہوگئے، کلیجے منہ کو آنے لگے اور ہمارے پیر زمینوں میں گویا گڑ گئے، ذہنوں میں اندھیراسا چھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے سال لگے ہوئے نو عمر علماء کو ٹونگی میدان کے اندر بہتی ہوئی گندی ندی میں مار مار کر یہ کہتے ہوئے پھینکا جاتا کہ ہمارے ہی پیسوں سے تم نے سال لگایا اور ہمارے ہی خلاف تم کھڑے ہوتے ہو؟ یہ کہہ کہہ کر ان کو اٹھا کر گندے پانی میں پھینک دیا جاتا اور اسی طرح طلباء کو بھی اٹھا کر کر ندی میں پھینکا جاتا (اس گندی ندی کی اور اس میں پھینکے جانے والے بعض تیرتے ہوئے طلباء و علماء کی کچھ تصاویر محفوظ ہیں جو سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہوئیں تھی)

اس پر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا ہونے پر مفتی صاحب سے ہم نے یہ پوچھا:- کیا ان مارنے والے تبلیغی لوگوں کوآپ پہچانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟ اور کیا انکے چہرے شناسا معلوم ہوتے تھے؟
جواب :- مارنے والے چہرے کوئی بھی ہماری پہچان کے نہیں تھے۔
پھر دوسرا سوال:- پھر ان کو اتنا بالتعیین کیسے معلوم ہوتا تھا کہ یہ علماء ہیں اور ان میں بھی یہ سال لگائے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ !؟
جواب :- یہ مارنے والے تو ہمیں نہیں پہچانتے تھے مگر ان کے گروپ لیڈر جو ڈھاکہ شہر کے رہنے والے ہوتے وہ ہمیں پہچانتے اور میدان میں دور سے ہی ہماری نشاندہی اور تعارف کرا دیتے ان کا صرف یہی کام تھا یہ مارنے والوں کے گروپ لیڈر ہوتے اور ان گروپ لیڈروں کی علامت یہ ہوتی کہ ان ہاتھ کے بازو پر ہری پٹی کا فیتہ بندھا ہوا ہوتا اور مارنے والے غیر متعارف لوگوں کے بازو پر لال پٹی کا فیتہ بندھا ہوا ہوتا جو ان کے "فریضہءِ حرب وضرب" (مار پیٹ) کی علامت ہوتی ۔

واقعی کیا منصوبہ بندی تھی میدان جنگ کی !
کاش !! فلسطین میں جاکر ہوتی !

*مالِ غنیمت کی تقسیم کا اعلان*

ایک بڑا عجیب و غریب، ناقابل یقین اور اپنے آپ میں بہت سارے اشارے لیے ہوئے یہ واقعہ مفتیءِ محترم نے سنایا کہ ٹونگی میدان کی مسجد کے مائک سے لگا تار یہ اعلان ہوتا ہوا سنائی دے رہا تھا کہ سارے احباب ظہر کے بعد مسجد میں جمع ہو جائیں ظہر کے بعد مال غنیمت کی تقسیم ہوگی۔
یعنی جو موبائل، نقدی اور دیگر اسباب ان علمائے کرام اور طلباءِ مدارس کے پاس سے برآمد ہوئے تھے ان کو مال غنیمت سے تعبیر کرنا اور مسجد میں اس کی تقسیم کا انتظام اور اعلان کرنا کیا اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ ان سارے گھناؤنے اور غلط اقدامات انہوں نے جہاد شرعی کے درجہ میں سمجھ کر کئے؟
اور کیا اس کے پیچھے احتساب اور آخرت کے اجر وثواب کے حصول کا جذبہ کارفرما تھا؟
اہل شوریٰ کو حربیوں کا درجہ دے کر ان کے اموال کو مال غنیمت کی طرح حلال سمجھنے کا جذبہ کیا تبلیغ کے اسٹیج سے کئے جانے والے ان بیانات کا نتیجہ نہیں تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین سے متعلق آیات اور واقعات کو سنا کر گویا انہیں مرکز نظام الدین سے علیحدہ ہونے والے اکابرین پر منطبق ہونے کا تأثر پیدا کیا گیا تھا۔
"مسجد ضرار کو بنانے والے مسلمان تھے ۔"
اور '' اللّٰہ کے نبی نے اپنے صحابہ کو مسجد ضرار کو جلا دینے کا حکم دیا۔"
اور "اس کی نحوست یہ ہوئی کہ آج تک کبوتر بھی اس میں اپنا گھونسلہ نہیں بناتے۔"
اور "صحابہ اپنے مرکز یعنی مدینہ سے واپس اپنے گھر جانے کو ارتداد سمجھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔۔"

کیوں کہ اس حادثے کے وقوع سے پہلے کئی مجالس میں یہ بیانات ہوچکے تھے۔ کیا ٹونگی حادثے کو ان فاسد استدلات والے بیانات سے قائم ہونے والے غیر محسوس تاثر کا نتیجہ قرار دینا قرین قیاس نہیں ہے؟ ہمارا یہ اندازہ کہاں تک درست ہے آپ حضرات اس پر غور فرمالیں۔۔۔۔

*کیا واقعی وہ ذبح کرنا چاہتے تھے؟؟*

*صاحبِ روایت کی بپتا:-*
مفتی مشرف صاحب نے اپنی بپتا سناتے ہوئے فرمایا کہ ظالموں نے مجھے بھی  ڈنڈے اور لاٹھیوں سے سر پر مارا جس کی وجہ سے میں چکرا کر نیچے گر گیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا ساچھانے لگا اسی درمیان میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے میرا گلا کاٹنے کے ارادے سے ایک دھاردار چاقو نکال کر گلے سے لگادیا اور میری گردن پر پھیر کر جانور کی طرح ذبح کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک ایک شناسا چہرہ مجھے دکھائی دیا جو ہمارے محلے کا تھا اس کے دل میں اللّٰہ نے نجانے کیا رحمدلی اور ہمدردی ڈال دی اس نے اپنے ساتھیوں کو ہاتھوں سے روکتے ہوئے اور انہیں منع کرتے ہوئے کہا کہ ایسا مت کرو ایسا مت کرو مگر وہ نہ مانے انہیں نہ مانتا دیکھ کر اس نے مجھے بچانے کے لیے میرا ایک بازوپکڑ کر بڑی چابکدستی اور قوت سے چاقو کے نیچے گھسیٹ کر چاقو کی زد سے باہر نہ نکال لیا ہوتا تو میں آپ کو آج یہ کارگزاری نہ سنا رہا ہوتا اکرام مسلم کے ان داعیوں کے ہاتھوں قربانی کے بکرے کی طرح دو دسمبر 2019 کو ہی ذبح ہو گیا ہوتا۔

*ڈاکٹر نما درندہ*
آگے فرماتے جس ڈاکٹر کے پاس مجھے علاج کے لئے لیے داخل کیا گیا تھا اِدھر میں دماغ کی تکلیف سے کراہ رہا اور بدن کے دیگر حصوں کے زخموں کی شدت سے چور اور اس پر بار بار ڈاکٹر کا اس جسمانی اذیت پر مزید نفسیاتی طریقے سے ٹارچر کرکے ذہنی اذیت کا اضافہ کرنا یہ کہہ کر کہ:-
"کیا ضرورت تھی تم لوگوں کو میدان میں آنے کی؟ تمہیں اپنا (پڑھنے پڑھانے کا) کام کرنا تھا تم کیوں اپنا کام چھوڑ کر میدان میں آئے؟"
 یہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ یہ حادثہ اتفاقی نہیں بلکہ ایک بہت لمبی چوڑی اونچی سطح کی پلاننگ کے تحت وجود میں آیا ہے بھلا ایک ڈاکٹر کو کیا لینا دینا اس بات سے کہ فلاں مریض کیوں ٹونگی میدان میں آیا تھا۔
اور آگے اس ڈاکٹر کی ایک اور نیچ حرکت کو سن کر آپ کے رونگٹے بھی کھڑے ہوجائیں گے اور آپ کے دماغ کی بتی مزید جل جائے گی کہ ڈاکٹر کے ٹریٹمنٹ میں دی ہوئی دوا گھر آنے کے بعد استعمال کرنے سے مفتى مشرّف صاحب کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوگیا دوا کا کھانا تھا کہ مفتی صاحب پر بے ہوشی طاری ہوگئی فوراً ان کے بڑے بھائی نے دوسرے ڈاکٹر کو بلایا تو انہوں نے پہلے والے ڈاکٹر کا ٹریٹمنٹ دیکھتے ہی کہا یہ ٹریٹمنٹ تو بالکل راونگ اور مزید تکلیف کو بڑھانے اور مریض کی دماغی کیفیت کو نقصان دینے والا ٹریٹمنٹ دیا گیا ہے۔ فیاللاسف انتہا ہوگئی بے مروتی اور حدودِ انسانیت سے نیچے گرنے کی واقعی جب انسان جب گراوٹ پر آتا ہے تو وہ درندوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے کہ درندے بھی اپنے محسن کو پہچان لیتے ہیں مگر انسان جب انسانیت سے گرتا ہے تو اپنے سب سے بڑے محسنین یعنی ایک دن میں ستر ستر نبیوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔صدق ربّی [ اُولٰئک کالاَنعامِ بَل ھُمْ اضلُّ ]
بقیہ واقعات اگلی لقاء میں انشاءاللہ العزیز

یکے از شرکاءِ جماعتِ علمائے کرام بجانب بنگلہ دیش بروز ہفتہ 5/ اکتوبر 2019

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی تقی عثمانی صاحب کا خط بنام مولوی سعد کاندھلوی

  مولانا سعد صاحب کے نام حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا کھلا خط مولانا سعد صاحب نے اپنی کم فہمی اور کم علمی ک...

ہوم